پل میں تولہ پل میں ماشہ

جاوید قاضی  جمعـء 22 اگست 2014
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

خیر شب خوں نہ ہوا باقی جو ہوا سو ہوا، شب خوں ہو بھی نہیں سکتا۔میں مسلسل یہی کہتا آیا ہوں کہ ہم اچھی خاصی ارتقا کی مسافتیں طے کرچکے ہیں۔ بہت سے سبق ہم کو سمجھنے کے لیے ملے۔ ایک طرف یہ لانگ مارچ جس کا کوئی بھی اثر نہ سندھ میں ہے نہ بلوچستان میں نہ ساؤتھ پنجاب میں۔ یہ کیسا انقلاب تھا کہ باقی شہر رواں دواں تھے، صرف شاہراہ دستور نہ تھی ۔ مجھے یاد ہے وہ ایم آرڈی تحریک، پورا سندھ ہل گیا تھا مگر آمر کوکچھ نہ ہوا۔ شاہرائے دستور پہ ایک لاکھ لوگ جمع بھی کیے جائیں وہ پاکستان کے بیس کروڑ لوگوں کی کیسے نمایندگی کرسکتے ہیں؟

یہ بات اپنی جگہ مگر حکومت کی بنیادیں ہل گئیں ۔ وہ بہت ہی کمزور نکلی ۔ پہلے آرٹیکل 245 کا نفاذ جوکہ آئین کے بتائے ہوئے حالات سے مختلف حالات میں لگائی گئی ۔ کوئی بھی موقع حکومت نے نہ گنوایا کہ یہ باور کرائے کہ فوج اس کے ساتھ ہے ۔ 14 اگست کو تین بار ایسے مواقعے پیدا کیے کہ ایک فوٹو سیشن ان کے ساتھ ہوجائے ، پروٹوکول کے لحاظ سے ۔ کم از کم یہ کام نہ یوسف رضا گیلانی نے کیا نہ زرداری نے۔ یہ ڈر تھا حکمرانوں کے لاشعور میں جس نے ان کو گلوبٹ جیسے حربے استعمال کرنے سے دور رکھا ۔

ماضی میں عمران خان نے طالبان کی حمایت کی ہو، مگر دائیں بازو کی ساری پارٹیوں میں ان کی پارٹی اس طرح مختلف ہے کہ یہاں نوجوانوں کو بھنگڑا ڈالنے کی آزادی ہے ۔یہ بھی ایک طرح کی تکثیریت اور اجتماعیت Plurality یا Inclusivity ہے۔ اور ایسے فوٹیجز یا جھلکیاں جب ٹیلی ویژن سیٹ پر ہر ایک اپنے گھر کے لاؤنج میں دیکھنے کو ملتی ہیں تو بالخصوص لڑکیاں و نوجوان عمران خان سے اور بھی متاثر ہوتے ہیں ۔

ہاں مگر جو بھی پاکستان کی تاریخ کا طالب علم ہے وہ سمجھتا ہے کہ دھرنوں سے جمہوریت کی بساط کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے ۔دھرنے والوں کو اتنی دور تک نہیں جانا چاہیے تھا ۔ طالب علم سمجھتے ہیں کہ ایسے بحرانوں سے بوٹوں کی چاپ اورآمریتوں کے اسباب پیدا ہوتے ہیں ۔

بالآخر امریکا ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ بول پڑا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت پر اٹھتے ہوئے خدشات کو رد کرتا ہے اور جمہوری طریقے سے کی ہوئی ہر بات کی تائید کرے گا اور اسی طرح کے خیالات یورپی یونین کے بھی سامنے آگئے ۔

فوج کے بیانات بھی آنا اب شروع ہوگئے ہیں ۔ وہ فریقین کے درمیان مذاکرات کے عمل کو تیز کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ بیچ میں کوئی بھی ثالثی کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتے ۔ عمران خان میاں صاِحبان سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں جوکہ بہت ہی بڑی فرمائش ہے ۔ جس کے بہت سارے فال آئوٹ ہیں ۔ کل جس طرح رائے عامہ حکومت کے خلاف ہوگئی تھی اس لیے کہ لاہور سانحے میں اس نے گولیاں چلوائی تھیں ۔ لیکن اب رائے عامہ بدل سکتی ہے اور اس کا رخ دھرنے والوں کی جانب ہو سکتا ہے ۔

بہرحال اس صورتحال کو اس نہج تک لانے میں حکومت کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا، جس بال پر سنگل رن لینا تھا اس پر چھکا لگانے کی کوشش کی ۔ میرے پاس صرف یہ قلم تھا، بار بار بہت باریکیوں میں جاکے یہاں پر رقم کیا، التجا کی ’’حکمرانوں! اتنی دور نہ جائیے، اس جمہوریت میں اتنا دم نہیں کہ اتنا وزن اپنے کاندھوں پر اٹھا سکے‘‘ حکمران آٹھ سو سی سی انجن والی مہران سوزوکی کو لینڈکروزر سمجھ بیٹھے اور افریقہ کے جنگلوں میں سفاری کو نکل پڑے اور جب بند گلی میں پھنس گئے گاڑی کے ٹائر پنکچر ہوگئے تو پھر یار لوگوں کو مدد کے لیے آوازیں دینا شروع کردیں۔ یار لوگ حکمرانوں کے فیصلوں کی وجہ سے ان سے نالاں ہو سکتے ہیں مگر یہاں مسئلہ حکمرانوں کا نہیں تھا سسٹم کو بچانے کا تھا ۔ یار لوگ مدد کو آگئے اور ہمیں فیض کی یہ سطریں یاد آگئیں:

ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر

منتظر ہوگا اندھیرے کی فصیلوں کے ادھر

ان کو شعلوں کے رجز اپنا پتا تو دیں گے

خیر ہم تک تو نہ پہنچیں گے، صدا تو دیں گے

دور کتنی ہے صبح بتا تو دیں گے

ہمیں صبح اب نظر آگئی ہے، پاکستان میں شب خوں تاریخ ہوئے ۔ اس پر بھی دو رائے نہیں کہ اس ساری مشق کا فائدہ ان غیر جمہوری قوتوں کا سہرا ہے۔

ایسے شیروں سے جمہوریت مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوا کرتی ہے۔ چلی میں جب پنوشے نے صدر ایلنڈے(Allende) کے خلاف شب خون مارا تو ایلنڈے کے پاس ایک بندوق تھی جو کبھی اس کو فیڈل کاسترو نے تحفے میں دی تھی ۔ جب صدارتی محل کا گھیرا تنگ ہوا اور فوجیں دیواریں پھاند کر اندر کود پڑیں، ایلنڈے اپنی کھڑکی سے یہ منظر دیکھتے ہوئے بالآخر اسی بندوق سے اپنی جان لے بیٹھے ۔ یہ کام صرف ایلنڈے ہی کرسکتے تھے ۔

ابھی لوگ اتنے بیدار نہیں ہوئے ۔ ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ سیکڑوں پیروں کو آپ ہم سب جانتے ہیں جن کے قدموں میں لوگ بیٹھتے ہیں، میں جانتا ہوں جو میری پسندیدہ لیڈر محترمہ بے نظیر کی پارٹی میں اب بھی ہیں ۔ خود بے نظیر صاحبہ نے اپنے قمبر والے پیر کے پیروں میں بیٹھ کے تصویرکھنچوائی تھی ۔ اس سے نیم غلامانہ انداز میں رہتے ہوئے سندھیوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ ان پیروں سے وڈیروں سے بغاوت مت کرنا۔

ہمیں ماننا چاہیے کہ ہمارے لیڈران نے بہت سے کام اچھے بھی کیے ہیں بہت بھیانک بھی۔ ہم نواز شریف کے ساتھ ہیں، اس لیے کہ وہ سسٹم کے ساتھ کچھ اس طرح سے جڑا ہوا ہے کہ اگر خود نہیں استعفیٰ دیتا یا انتخابات کی بات کرتا تو زبردستی کروانا خود سسٹم کے خلاف ہے اور غیر آئینی قدم ہوگا۔ اب وہ دن گئے جب ہم بھی فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ آنے والے دن بہت ہی شفاف ہوں گے اور اگر نہیں ہوں گے تو پھر ایک اور سیاسی بحران ہمارا منتظر ہوگا۔

ہندوستان ہم سے اس لحاظ سے بہت آگے ہے کہ وہاں انتخابات میںدھاندلی کی بات کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ ابھی ہم خطرات سے بالکل باہر نہیں نکلے۔ صورتحال Fluid ہے۔ ایسی صورتحال میں لچک کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ پل میں تولہ پل میں ماشہ والی صورتحال کسی کروٹ بھی بیٹھ سکتی ہے۔ ذرا پھونک پھونک کر چلنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔