کمزور خواہش اور عظیم نتائج

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 22 اگست 2014

ایک نوجوان نے سقراط سے پوچھا کہ کامیابی کا راز کیا ہے۔ سقراط نے اسے کہا کہ مجھے کل صبح دریا کے کنارے آکر ملنا۔ اگلی صبح ان کی ملاقات ہوئی۔ تو سقراط نے کہا آئو میرے ساتھ دریا کی طرف چلو وہ چلتے چلتے دریا میں اتر گئے مگر آگے بڑھتے رہے جب پانی گردن تک پہنچا تو سقراط نے نوجوان کو پکڑکر اسے پانی میں غوطہ دے دیا۔ نوجوان نے اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی لیکن سقراط اس سے زیادہ طاقت ور تھا اس لیے نوجوان کامیاب نہیں ہوا۔ سقراط نے اسے پانی میں ڈبوئے رکھا جب نوجوان کا حال خراب ہوگیا تو سقراط نے اسے پانی سے نکال لیا۔

نوجوان نے پانی سے سر نکالتے ہی منہ کھول کر لمبا سانس لیا۔ سقراط نے پوچھا جب تم پانی کے نیچے تھے تو تمہیں سب سے زیادہ کس چیز کی خواہش تھی نوجوان نے کہا ہوا کی ۔ سقراط نے کہا ’’ یہی ہے کامیابی کا راز ‘‘ جب تم کامیابی کی اس طر ح شدید خواہش کرتے ہو جس طرح پانی میں ڈوبے ہوئے نوجوان نے ہوا کی خواہش کی تھی تب تم کامیاب ہوجاتے ہو جس طرح تھوڑی سے آگ زیادہ حرارت نہیں دے سکتی اسی طرح کمزور خواہش عظیم نتائج کو جنم نہیں دے سکتی ۔کامیابی کی تحریک کسی مقصد کو حاصل کرنے کی شدید خواہش سے ملتی ہے ۔ نپولین ہل لکھتا ہے انسان جو کچھ سو چ سکتا ہے ذہن وہی کچھ حاصل کر سکتا ہے ۔

کامیابی کی تمام داستانیں عظیم ناکامی کی کہانیاں ہوتی ہیں ناکامی کے صدمے ہی میں آپ وہ جرأت پاتے ہیں جوکہ آپ کو ناکامی پر غلبہ پانے کے قابل بناتی ہے۔ سقراط نے کہا ہے ایسی زندگی جس کا جائزہ نہیں لیاگیا، رہنے کے قابل نہیں ہوتی۔

پاکستان کے سیاسی حالات کو سمجھنے والے سیاسی کارکن،دانشور اور تمام پڑھے لکھے لوگوں کو اس بات کا اچھی طرح سے احساس ہوچکا ہے کہ پاکستان ایک نہایت اہم موڑ پرکھڑا ہوا ہے پاکستان میں پیدا ہونے والی مذہبی انتہا پسندی اوردہشت گردی میں شامل ایک اہم عنصر پاکستان کے اپنے جغرافیائی محل وقوع کا بھی ہے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ موجودہ مذہبی انتہا پسندی اچانک پیدا نہیں ہوئی اور یہ نہ ہی 9/11 کے بعد امریکی اقدامات کے رد عمل کا نتیجہ ہے جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تھا پاکستان میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کا سلسلہ اس سے بہت قبل بھی جاری تھا بلکہ یہ سلسلہ تو پاکستان کے قیام سے قبل ہی جاری تھا۔

پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر مسلمانوں کی سیاسی تحریک میں شدت پسندانہ تبدیلی آتی چلی گئی اس کی وجہ علماء کا دوبارہ متحرک ہونا اور مرکز سیاست میں نمایاں مقام حاصل کرنا تھا ۔خلافت تحریک ہی پہلی مرتبہ ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاست میں مذہبی رنگ کو داخل کرنے کا باعث بنی اس ہی کی وجہ سے مسلمان علماء کو سیاست میں باقاعدہ کردار ادا کرنے کا موقع مل گیا اور انھوں نے ایک سیاسی تنظیم بنا لی جس کے ذریعے علماء نے سیاسی و نظریاتی بنیادوں پر سیاست میں اہم کردار ادا کرنا شروع کیا۔ جب کہ اس سے قبل مسلمانان ہند کی تاریخ میں علماء کو سیاسی زندگی میں اس قدر اہم اور مرکزی کردار اداکرنے کا موقع پہلے کبھی نہ ملا تھا اور اس کے نتیجے میں رجعت پسندی کے خیالات کو بڑھاوا دینے کا انھیں موقع مل گیا۔

اس وقت بعض علماء قائداعظم کی قیادت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے وہ انھیں انگریزوں کا ایجنٹ کہتے تھے اور یہ علماء خود بھی پاکستان کے قیام کے خلاف تھے لیکن برصغیر کے مسلمان قائداعظم کی فکر پر لبیک کہتے ہوئے ایک ایسی ریاست کو تشکیل دینا چاہتے تھے جو برصغیر کے مسلمانوں کے معاشی مفادات کا تحفظ کر سکے اور وہ ایک ایسی ریاست ہوجہاں جمہوریت اور آزادی بھی ہو۔ بدقسمتی سے قائداعظم کو اپنی فکر کے مطابق ریاست کی تشکیل دینے کا موقع نہ مل سکا اور پاکستان کے قیام کے ایک سال بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔

اتفاق کی بات یہ تھی کہ اسی وقت سوویت یونین اور امریکا کے درمیان کشمکش کا آغاز ہو چکاتھا اور اس کشیدگی کے اثرات دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان پر بھی پڑے امریکا کو خدشہ تھاکہ کیمونسٹ انقلاب کہیں افغانستان اور پاکستان کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے، اس وقت امریکن حکمت عملی یہ تھی کہ دنیا بھر کی اسلامی تنظیموں کو کیمونسٹ انقلاب کو روکنے کے لیے استعمال کیا جائے اس امریکن حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی چاندی ہوگئی اور انھیں خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملا ،ایک اور مسئلہ پاکستان میں بھارتی خطرے کا بھی تھا۔

بھارتی خطرے سے بچنے کے لیے پاکستان کو اپنا دفاع مضبوط کرنا پڑا اور پاکستان کے مقتدر حلقے یہ سو چ رہے تھے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں مستقبل میں پاکستان کی دفاعی لائن کے طورپر کام کریں گی۔ جب افغا نستان میں روسی افواج افغان حکومت کی دعوت پر داخل ہوگئیں تو امریکا کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ پاکستان کی اسلامی تنظیموں اور دنیا بھر کے جہادی گروپوں کو روسی افواج سے متصادم کروا دیا جائے۔ اس کے نتیجے میں افغانستان میں ایک طویل جنگ ہوئی اور روس کے جانے کے بعد افغانستان پر غلبے کے لیے ان جہادی تنظیموں کے درمیان آپس میں زبردست جنگ ہوتی رہی اس جنگ کے اثرات پاکستان پر بھی پڑتے رہے۔

طالبان کے افغانستان پر غلبے کے بعد انھوں نے پاکستان میں بھی اپنا عمل دخل شروع کر دیا اور پھر پینٹا گون اور ٹریڈ ٹاور پر حملے نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور امریکا نے طالبان کی حکومت کو افغانستان میں ختم کر نے کا فیصلہ کیا ۔امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان تتر بتر ہوگئے تو انھوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں پناہیں ڈھونڈنا شروع کردیں اور ملک میں تیزی کے ساتھ انتہاپسندی میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔

اس کے بعد سے ہی یہ عناصر پاکستانی معاشرے سے ٹکرا رہے ہیں اور اسے اپنا تابع بنانا چاہتے ہیں پاکستان کو طویل عرصے سے ایک سازش کے تحت انتہاپسندی اور دہشت گردی کی آگ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ پاکستان کو یکجہتی اور استحکام کی ضرورت جتنی آج ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی پاکستان کی تمام سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو اپنے تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر خود کش حملوں ، انتہاپسندی اور تشدد کے خلاف اتحاد کرنا ہوگا۔

اس وقت پوری قوم کا ہوش میں آنا ضروری ہے شدت پسندی اور انتہاپسندی اصل میں پاکستان پر حملہ ہے اور ہمیں ان کے خلاف ہر صورت میں کامیاب ہونا ہے لیکن اس کے لیے جو سب سے ضروری چیز ہے وہ ہے کامیابی کی شدید خواہش ۔ اس لیے کہ کمزور خواہش عظیم نتائج کو جنم نہیں دے سکتی ۔ آئیں ہم سب مل کر بھر پور یکجہتی ، اتحاد، صحیح حکمت عملی اور کامیابی کی شدید خواہش کے ساتھ پاکستان کے عوام دہشت گردوں کے مقابلے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ یقین جانیے کامیابی ہمارا مقدر ہوگی اور خوشحالی، ترقی،استحکام ہمارا نصیب ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔