تاریخی ورثہ یا ماضی کے مزار؟

رئیس فاطمہ  اتوار 24 اگست 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

دنیا کی مہذب قومیں اپنے اپنے ثقافتی اور تہذیبی ورثوں کو ہمیشہ سنبھال کر رکھتی ہیں ان کی حفاظت کرتی ہیں، ان پر فخر کرتی ہیں کیونکہ یہی قومی ورثہ انھیں باقی قوموں سے ممتاز کرتا ہے۔ اس معاملے میں انگریز سب سے آگے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کی حکومت تھی جس کا کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔

جہاں جہاں ان کے قدم جمے وہاں وہاں ان کے اثرات تہذیبی اور تعمیری نشانات آج بھی موجود ہیں۔ برصغیر میں مغلیہ سلطنت نے بھی اپنے ناقابل یقین کارنامے چھوڑے تہذیبی اور تعمیری نقش زندگی کے ہر شعبے میں آج تک نمایاں ہیں۔ جامع مسجد دہلی، لال قلعہ، آگرہ فورٹ، ہمایوں کا مقبرہ، لاہور کی بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، ہرن مینار، کامران کی بارہ دری، نور جہاں کا مقبرہ (ویرانی جس کا مقدر ٹھہری) مقبرہ جہانگیر، تاج محل، شالامار باغ، فتح پور سیکری، شہنشاہ اکبر کا مقبرہ، حضرت سلیم چشتی کی آخری آرام گاہ، رانیوں کا محل اور دیگر شہروں میں مغلوں کی بنائی ہوئی عمارات۔ لیکن انگریز قوم کا نمبر پہلے آتا ہے۔

انگریز نوادرات، عمارات، کتب، شخصیات سے لے کر ایک عام استعمال کی پرانی چیز کو بھی نہایت قیمتی سمجھتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی زندہ قوم کی تہذیب و تمدن کا اندازہ اس کے شاندار ماضی سے ہوتا ہے۔ مصر کی تہذیب کتنی پرانی ہے۔ اس کا ثبوت فراعنہ مصر کے مقبرے اور اہرام مصر کی تاریخ ہی کافی ہے۔ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے بہت سی اپنا وجود کھوچکی ہیں، صرف ان کے نام تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں۔

مجھے آج یہ سب یوں یاد آیا کہ چند دن قبل لندن کی پہچان ’’بگ بین ٹاور‘‘ کی گھڑیوں کی صفائی کوہ پیماؤں نے رسیوں کی مدد سے لٹک کر اپنے تاریخی ٹاور کی صفائی ستھرائی کر کے اس مسرت کا اظہار کیا کہ انھیں اس عظیم تاریخی ورثے کی گھڑیوں اور سوئیوں کی صفائی کر کے خود اپنی اہمیت کا احساس ہوا۔ بگ بین ٹاور کا اصل نام پہلے گریٹ بیل (Great Bell) تھا۔ پھر اسے ’’الزبتھ ٹاور‘‘ کا نام دیا گیا، اسے ’’کلاک ٹاور‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ اب بھی ’’بگ بین‘‘ کے نام سے ہی اپنی شناخت رکھتا ہے۔

یہ ایک علامت ہے لندن شہر کی۔ صرف بگ بین (Big Ben) کہتے ہی سننے والے کے ذہن میں فوراً لندن کا خیال آتا ہے۔ یہ عظیم ٹاور جو سن 1858ء میں مکمل ہوا تھا۔ 31 مئی 2009ء میں اس کی تعمیر کو ایک سو پچاس (150) سال مکمل ہوئے تھے۔ کسی بھی کتاب، اٹلس یا الیٹرانک میڈیا پہ لندن کا نام لکھنے کے بجائے صرف بگ بین کلاک ٹاور کی تصویر دے دی جاتی ہے۔ اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس کی صفائی ستھرائی سلیقے سے کی جاتی ہے۔

اسی ٹاور میں بہت سے اہم سرکاری دفاتر بھی ہیں۔ 1947ء تک کا تمام اہم تاریخی ریکارڈ بھی برٹش انڈیا میوزیم لائبریری میں محفوظ ہے۔ وہ تمام تاریخی حقائق و شواہد جو مختلف حکومتوں، انتہا پسند لیڈروں اور ان کے حواریوں کو ناپسند تھیں، جنھیں جان بوجھ کر عوام سے چھپایا گیا۔ وہ بھی اصل حالت میں برٹش انڈیا آفس لائبریری میں محفوظ ہیں۔ اور محفوظ بھی اسی لیے ہیں کہ وہاں ہیں؟ ہمارے ادب کے قیمتی مخطوطات، قلمی نسخے، کتابیں اور بہت کچھ وہیں محفوظ ہے۔ کوئی بھی ان سے استفادہ کر سکتا ہے کہ زندہ قومیں تہذیبی ورثے کو محفوظ کرنا جانتی ہیں۔ بقول شاعر:

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں‘ جنھیں تصویر بنا آتی ہے

ہمارے وطن میں بالخصوص کراچی اور لاہور میں بھی مغلوں اور انگریزوں کے زمانے کی بنوائی ہوئی نہایت نادر اور خوبصورت عمارات ہیں، لیکن ہم نے کیا کیا؟ جی بھر کے ان کا ستیا ناس کیا۔ کراچی کی مشہور و معروف ایمپریس مارکیٹ مارچ 1889ء میں تعمیر کی گئی اور اسے ملکہ برطانیہ کی سلور جوبلی کے حوالے سے ایمپریس مارکیٹ کا نام دیا گیا۔ گوتھک طرز تعمیر کی اس منفرد مارکیٹ پر اہل دل اور اہل کراچی آنسو بہاتے ہیں۔ غلاظت کے ڈھیر کے درمیان یہ تاریخی عمارت بھی خود اپنی حالت پہ نوحہ کناں ہے۔

بلڈر مافیا کے سرپرستوں کی نگاہیں بہت عرصے سے اس پہ لگی ہوئی ہیں۔ اس کی گھڑیاں بیکار ہو چکی ہیں۔ ہم نے 1970ء تک اس کی گھڑی کی سوئیوں کو حرکت کرتے دیکھا ہے۔ سو سال سے زیادہ قدیم خوبصورت عمارت کی گھڑی گندگی کے باعث اب نظر بھی نہیں آتی۔ یہی حال فریئر حال، فلیگ اسٹاف ہاؤس، ہندو جیم خانہ، ہوپ لاج، موہٹا پیلس، ڈینسو ہال اور میری ویدر ٹاور کا ہے۔ اس کی گھڑی تو اب بھی ہے، لیکن دھوئیں اور گندگی نے اس تاریخی عمارت کو بھی گہنا دیا ہے۔ لاہور اور کراچی کے علاوہ بھی پرانی لائبریریاں، تاریخی عمارتیں، باغات اور ایسی تفریح گاہوں کا وجود تھا جنھیں حکومتوں کو سنبھال کر رکھنا چاہیے تھا۔

لیکن ہم نے انھیں جی بھر کے برباد کیا۔ لاہور وہ تاریخی شہر ہے جس کے گرد فصیل ہوا کرتی تھی۔ مختلف بارہ دروازوں سے یہاں داخل ہوا جاتا تھا۔ آج ان دروازوں میں سے صرف چند ایک کے نام ہی لوگوں کو یاد رہ گئے جیسے بھاٹی گیٹ، لوہاری گیٹ اور کشمیری دروازہ۔ کاش پنجاب کی صوبائی حکومت کبھی اس ثقافتی ورثے کی حفاظت پہ بھی کچھ فنڈز خرچ کرتی کہ شہر کے ان بارہ (12) دروازوں کی جگہ پر ایک اسی زمانے کے طرز تعمیر کے مطابق محرابیں بنواتی اور ان محرابوں کے ستونوں پر دروازے کی تاریخ کندہ ہوتی؟ لیکن سیاسی وابستگیوں، رشوتوں اور خاندانی سیاست کے داؤ پیچ پر ہی سارے فنڈز ختم ہو جاتے ہیں۔

لاہور میں تو ماضی کے بہت سے تاریخی ورثے ایسے ہیں جو اب ماضی کے مزار بن چکے ہیں۔ رہ گیا کراچی تو یہاں نیشنل میوزیم جس کا اصل نام کبھی برنس گارڈن تھا اور برٹش دور کی یادگار ہے۔ خالق دینا ہال کی تاریخی اہمیت سے کون واقف نہیں کہ مولانا محمد علی جوہر کا تاریخی مقدمہ یہیں لڑا گیا تھا۔ ان سب کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ثقافتی ورثوں کی حفاظت اپنی تہذیب کی شناخت کے لیے کی جاتی ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ فلیگ اسٹاف ہاؤس ایک یہودی انجینئر کے زرخیز ذہن کی کاوش ہے۔

سر گنگا رام اسپتال اور گلاب دیوی ہندوؤں نے تعمیر کیے۔ میو اسپتال کسی عیسائی نے بنوایا۔ اگر تہذیبی ورثوں اور تاریخی عمارات کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لیے مذہب کی پہچان ضروری نہیں ہے ، پرانی عمارتیں، پرانی کتابیں، پرانی پینٹنگز، خطاطی اور مصوری کے اعلیٰ نمونے، فنون لطیفہ سے متعلق علوم، ساز، سب کچھ بڑی دیدہ دلیری سے اور جان بوجھ کر تباہ کیا جا رہا ہے۔ ٹھٹھہ کی شاہی مسجد کی طرز تعمیر اور گرمی کے باوجود اندر کی ٹھنڈک انسان کو حیران کر دیتی ہے۔

مکلی (سندھ) کے تاریخی قبرستان میں ایسا ایسا نادر و نایاب کام کاری گروں نے کیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن سندھ کی صوبائی حکومت نے کبھی بھی اس جانب توجہ نہیں دی۔ اگر برطانیہ کے ماہرین آثار قدیمہ کو بلوا کر ان قبروں پہ لگی ہنرمندی کی شاہد اینٹوں کا سودا بھی کر لیا جاتا تو خزانے میں نہ سہی لیکن حکمرانوں کی جیبیں ضرور بھر جاتیں؟ غالباً اس طرف حکام کی توجہ ابھی گئی نہیں۔ نئے مقبرے گڑھی خدابخش میں تعمیر ہو گئے جن پر قومی خزانے کا منہ کھول دیا گیا۔ لیکن مکلی کے نیابت شاندار اور اپنی مثال آپ کے شاہکار کے مقبروں کی اینٹیں نکال کر مقامی وڈیروں اور طاقت ور لوگوں نے اپنے اپنے گھروں اور اوطاقوں میں لگا لیں۔

ہماری تاریخ اب صرف مذہبی انتہا اور تشدد کا پرچار ہے۔ عمارتیں، شہر، باغات اور تفریح گاہیں کھنڈر بنتی جا رہی ہیں، لیکن لیڈروں کے بینک بیلنس اور اثاثوں میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جس رفتار سے گِدھ کسی مردہ جسم کا گوشت نوچ کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔