بنے گا نیا پاکستان…

شیریں حیدر  اتوار 24 اگست 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

سعدیہ نے مجھے پیغام کے ذریعے ایک تصویر بھیجی ہے، یہ اس کی بیٹی کی lego سے بنایا ہوا کوئی نمونہ ہے، میں نے zoom کر کے اسے دیکھا اور سمجھنے کی کوشش کی، ’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے اسے پیغام بھیجا، لگتا ہے کہ lego سے کچھ بنایا گیا ہے مگر میں سمجھ نہیں پا رہی…‘‘

’’یہ ہانیہ نے بنایا ہے…‘‘ اس نے اپنی آٹھ سالہ بیٹی کا بتایا، ’’اس میں ایک کنٹینر ہے، اس کے سامنے بہت سے لوگ ہیں اور کنٹینر کے اوپر بھی لوگ ہیں اور سب سے نمایاں پتلا جو اس نے کنٹینر پر رکھا ہے، اسے اس نے ’عمران خان‘ کا نام دیا ہے اور کہتی ہے کہ انھوں نے نیا پاکستان بنانا ہے…‘‘ اس نے وضاحت کی تو میرے سامنے zoom کی ہوئی تصویر میں وہ سبھی کچھ نمایاں ہو گیا جو کچھ وہ بتا رہی تھی۔

ریحان نامی ایک نوجوان کی ای میل آئی، اس کا ایک بیٹا ہے جو سال بھر کا ہونے والا ہے، اس نے لکھا ہے، ’’میں نے اپنے بیٹے کی ایک ریکارڈ بک مرتب کی ہے جس میں اس نے اس کی پیدائش کے بعد سے لے کر ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا واقعہ، حادثہ اور خوشیوں کے بارے میں لکھا ہے… اس کی پہلی مسکراہٹ، پہلا قدم، پہلا دانت وغیرہ… اب میں کافی دنوں سے انتظار کر رہا تھا کہ میرے بیٹے کی زندگی میں پاکستان کا پہلا یوم آزادی آ رہا ہے۔

میں نے کتنے ہی منصوبے ترتیب دے رکھے تھے کہ اسے لے کر باہر نکلوں گا، چراغوں اور جھنڈوں کے پس منظر میں اس کی تصاویر بناؤں گا، وہ بڑا ہو گا تو اسے دکھاؤں گا… مگر میری یا میرے بیٹے کی بد قسمتی دیکھئے کہ یوم آزادی کے وقت… ہم سب اپنے گھروںمیں محصور ہیں، میں اسے جھنڈے دکھانے کو باہر کیا لے جاتا، اسے ایک چھوٹا سا جھنڈا ہاتھ میں پکڑا کر، اس کی ایک تصویر کھینچنے کی حسرت بھی دل ہی میں رہ گئی، اب میں سوچ سوچ کر پریشان ہوں کہ یہ کیسی آزادی ہے جس نے ہمیں محصور کر دیا ہے… سارے سیاست دانوں کی سیاست کنٹینروں پر سوار ہو کر اسلام آباد میں آ گئی ہے اور اپنے اپنے ذاتی عناد نکالنے کو پورے شہر کی آزادی کو hijack کر لیا گیا ہے۔سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں اس کی ڈائری میں کیا لکھوں، کس چیز کی تصاویر کھینچ کر اس کے البم میں لگاؤں، جب یہ بڑا ہو گا تو اس کو کیا بتاؤں گا؟؟؟؟‘‘

ایک اور جاننے والے بتا رہے تھے کہ ان کا سات سالہ بیٹا جو کہ وفاقی تعلیمی اداروں کے بند ہو جانے کی وجہ سے ’’صبح سویرے‘‘ بارہ بجے جاگتا ہے، اٹھتے ہی پوچھتا ہے، ’’بابا… نیا پاکستان بن گیا ہے کیا؟‘‘

اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کس نئے پاکستان کے بننے کا انتظار کر رہا ہے تو جواب میں کہتا ہے، تبدیلی والا پاکستان … میں اسے کہتا تو نہیں مگر سوچتا ہوں کہ کسی قوم میں تبدیلی اس وقت نہیں آ سکتی جب تک اس قوم کے ہر فرد کی سوچ اور عادات میں تبدیلی آئے، دھرنوں اور مظاہروں سے کوئی تبدیلی اول تو آتی نہیں اور آ جائے تو مثبت نہیں ہوتی…

چھوٹے سے بھتیجے کی کال آئی، اس نے فرمائش کر کے مجھ سے بات کی اور سوال کیا، ’’پھوپھو ہم لوگ گجرات میں کیوں رہتے ہیں اور اسلام آباد میں کیوں نہیں رہتے…‘‘ مجھے اس کی بات پر حیرت ہوئی کیونکہ اس سے قبل اس نے ایسی کسی سوچ کا اظہار نہیں کیا کہ اسے اسلام آباد میں رہنے کا شوق ہے۔
’’آپ آ جاؤ اسلام آباد بیٹا!!‘‘ میں نے اسے کہا، ’’ویک اینڈ پر آ جاؤ، تمہارے اسکول شروع ہو گئے ہیں اس لیے…‘‘
’’مگر میں تو مستقل اسلام آباد میں رہنا چاہتا ہوں!!‘‘ اس نے اصرار کیا۔

’’اچھا، مگر وہ کیوں، کیا تم گجرات میں خوش نہیں ہو؟‘‘
’’ہمارے اسکول تو ہمیشہ وقت پر کھل جاتے ہیں اور آپ کے شہر میں اسکول ابھی تک نہیں کھلے بلکہ اب تو تیسری دفعہ آپ کی چھٹیوں میں اضافہ ہو گیا ہے…‘‘ اس کی ننھی سی خواہش کا بھید کھلا تو میری ہنسی چھوٹ گئی۔

’’مگر ہم اسکول بند ہونے سے خوش تو نہیں… ہمارے بچوں کا کتنا وقت ضایع ہو رہا ہے، چھٹیوں کے بعد ہم اور بچے انتظار میں تھے کہ جلد ہی ہم نیا تعلیمی سال شروع کریں گے مگر…‘‘
میں نے کافی کوشش کی کہ اسے قائل کر سکوں مگر مجھے لگا کہ وہ خوش نہ ہوا تھا، جسے وہ اپنی عمر کے ہر بچے کی طرح ہمارے لیے عیاشی سمجھ رہا تھا وہ اصل میں ہمارے لیے لمحہء فکریہ ہے کہ ہمارے بچوں کا کتنا تعلیمی حرج ہو رہا ہے۔
……
وفاقی دارالحکومت میں چلنے والا ڈرامہ اب اتنی طوالت اختیار کر گیا ہے کہ ہر روز ان ہی مناظر کو دیکھ دیکھ کر بوریت ہونے لگی ہے، بیرونی سرگرمیوں نے ہمیں محصور اور مجبور کر دیا ہے اور سب سے اہم جو کہ ہر گھر میں ہو رہا ہے کہ ہر گھر میں اختلاف رائے کے گروپ بن گئے ہیں، کوئی حامی اور کوئی مخالف… گھروں میں آپس میں متنازعہ مباحثے اور بد مزگی ہو رہی ہے۔ کوئی حد ہوتی ہے حالات کو ایک ہی نہج پر جمے ہوئے دیکھنے کی برداشت کی، عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے… جو لوگ دیہاڑی دار ہیں، چھوٹے بڑے کاروباری ہیں، مزدور ہیں، ٹھیلوں والے ہیں، ان سب کا سوچیں… کتنے دن پہلے ان کے گھرچولہا جلا ہو گا؟

کنٹینروں کی سیاست کے اس انداز نے ملک کی سیاست میں ایک ایسی غلط روایت کی بنیاد رکھی ہے جسے مستقبل میں ہر حکومت کو سامنا کرنا پڑے گا، اگر آج کنٹینروں کی سیاست حالیہ حکمرانوں کا تختہ الٹ دینے اور انھیں استعفی دینے پر مجبور کر دے گی یا وہ کچھ ایسے معاملات پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو گئے تو کنٹینرز پر سوار، انھیں ایوان سے نکال باہر کرنے والے لیڈر یہ مت بھولیں کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے… جیسی کرنی ویسی بھرنی جیسے محاورے کسی ایک وقت کے لیے اختراع نہیں ہوئے تھے۔

حکمران بھی اپنے ائیر کنڈیشنڈ ایوانوں میں بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں اور دھرنوں اور احتجاجوں والے لیڈر بھی سکون میں ہیں، محافل سماع اور محافل موسیقی جو کہ round the clock چل رہی ہیں ان سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ پس کون رہا ہے، مسائل کا سامنا کون کر رہا ہے، مشکل میں کون ہے… وہ جو ان کے معتقد ہیں اور غریب الوطنی جھیل رہے ہیں، اس امید پر کہ ان کی قسمتیں بدلنے والی ہیں شاید!!!

وہ لوگ مصائب کا شکار ہیں جو کھلے آسمان تلے گزشتہ کئی دن سے پڑے ہیں، اپنے گھروں کا آرام اور سکون تج کر کے، جانے کہاں کہاں سے سفر کر کے سڑکوں پر دن اور راتیں گزارنے پر مجبور ہیں۔ تین چار دن قبل ہی میرے ایک جاننے والے ڈی چوک پر گئے اور انھوں نے بتایا کہ اس علاقہ میں تعفن نا قابل برداشت ہے، چند منٹ کھڑا ہونا مشکل تھا، جانے وہاں لوگ اتنے دنوں سے کیسے دھرنا دیے ’’پڑے‘‘ ہوئے ہیں… یقینا ایسا ہی ہو گا، دھرنوں کے منصوبے بنانے والوں نے قطعی اس بات کو نہیں سوچا ہو گا کہ بارشوں کا موسم ہے۔

انسانی ضروریات کو روکا نہیں جا سکتا اور یہ دو عناصر نہ صرف تعفن بلکہ بیماری پھیلانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔شہر کے اہم اسپتالوں میں چاہے ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا جائے مگر پھر بھی وہاں اس قدر سہولیات میسر نہیں ہیں کہ ہر روز آنے والے اتنی تعداد کے مریضوں کو علاج فراہم کر سکیں۔ پولیس، رینجرز، ایف سی اور فوج کے متعین افراد کی تعداد دیکھی جائے تو سوچتے ہیں کہ کیا ملک میں کسی اور جگہ پولیس کی ضرورت ختم ہو گئی ہے؟ کیا کہیں اور جرائم نہیں ہو رہے یا پنجاب اور وفاق کی زیادہ تر پولیس یہیں جھونک کر باقی سب ذمے داریوں سے بری ہو گئے ہیں؟؟ کئی دنوں سے اخبار میں جرائم کی خبریں نہ ہونے کے برابر ہیں تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ سارے کام پولیس کی سرپرستی میں ہو رہے تھے؟ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلاف نے عام آدمی کی زندگی کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا اس ملک میں رہنا عقلمندی ہے؟ اگر اس ملک میں وہ لوگ ہی نہ رہے جن پر آپ کو حکومت کرنا ہے تو آپ کس پر حکومت کریں گے… نیا پاکستان کس کے لیے اور تبدیلی کو کون دیکھے گا؟؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔