تمغہ امتیاز اور اساتذہ کا امتیاز

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 24 اگست 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

معروف لکھاری اشفاق احمد (مرحوم) نے ایک مرتبہ اپنے ترکی کے دورے کا قصہ سنایا، ان کا کہنا تھا کہ ترکی میں غلط فہمی سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کر بیٹھے، چنانچہ ان کا چالان ہوگیا اور پھر اگلے روز انھیں عدالت میں جانا پڑا۔ عدالت میں کارروائی کے دوران جج نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا کرتے ہیں، جواب میں اشفاق احمد نے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ ایک استاد بھی ہیں۔ لفظ استاد سن کر جج احترام میں کھڑا ہوگیا اور کمرے میں موجود دیگر وکلاء بھی احتراماً کھڑے ہوگئے اور پھر جج نے معذرت کرتے ہوئے جرمانہ بھی واپس کردیا اور کہا کہ استاد کا رتبہ ان کے نزدیک بہت عظیم ہوتا ہے۔

اشفاق (مرحوم) کہتے ہیں کہ وہ اس عمل سے بڑے متاثر ہوئے اور سوچنے لگے کہ اس قوم کی ترقی میں یقیناً اس ادب و احترام کا بھی بڑا حصہ ہے۔ کاش! ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی احترام اساتذہ کے لیے ہو۔

بلاشبہ زندہ معاشروں میں اساتذہ کا بہت احترام کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں بھی احترام دیا جاتا ہے لیکن ماضی کے مقابلے میں اس احترام میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے۔ اگر حکومتی سطح پر بھی اساتذہ کو وہ عزت و احترام دیا جائے جو زندہ قوموں کا شعار ہوتا ہے تو اس سے معاشرے پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔

حال ہی میں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز کے لیے جن شخصیات کے ناموں کا اعلان کیا گیا ان میں حاضر سروس، سبکدوش ہونے والے اور مرحوم اساتذہ بھی شامل ہیں، یہ ایک بہت اچھا حکومتی اقدام ہے۔ راقم کے لیے یہاں فخر کی بات یہ ہے کہ ان کے اساتذہ کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ اس سال تمغہ امتیاز کے لیے جن ناموں کا اعلان کیا گیا ان میں جامعہ کراچی کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر اور دو حاضر سروس اساتذہ شامل ہیں۔

اس سال یوم آزادی پر جامعہ کراچی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ آرٹس کے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے تین اساتذہ کو بیک وقت تمغہ امتیاز دینے کا اعلان کیا گیا، ان اساتذہ میں ڈاکٹر طاہر مسعود صدر شعبہ ابلاغ عامہ ہیں جو اشفاق احمد مرحوم کی طرح ایک استاد معروف کالم نگار و ادیب ہونے کے علاوہ دس کتابوں کے مصنف ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں اور عملی صحافت کا ایک بڑا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ دوسرے استاد کا تعلق بھی اس ہی میدان سے ہے مگر جس وقت وہ صدر شعبہ تھے اس وقت شعبہ ابلاغ عامہ کے بجائے صحافت کا شعبہ کہلاتا تھا۔

یہ سابق صدر شعبہ صحافت محترم پروفیسر زکریا ساجد ہیں جن کی کوششوں سے جامعہ کراچی کا شعبہ صحافت سے ابلاغ عامہ میں تبدیل ہوا اور طلبہ کو الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں بھی علم حاصل کرنے کے مواقع ملنا شروع ہوئے۔ پروفیسر زکریا ساجد پاکستان پریس انسٹیٹیوٹ کے بانی و ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں اور نہایت بزرگ شخصیت ہیں جن کے شاگرد میڈیا کے ہر شعبے میں نظر آتے ہیں۔ ایسے قابل بزرگ اساتذہ کی ہمت افزائی کے لیے تمغہ امتیاز دینا یقیناً قابل تعریف اقدام ہے۔

جامعہ کراچی کی تیسری اہم شخصیت جن کو تمغہ امتیاز دیا گیا وہ رئیس کلیہ معارف اسلامیہ پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج ہیں۔ جن کا تفصیلی تعارف پیش کرنا ایک مختصر کالم میں آسان نہیں، تاہم مختصراً یہ ہے کہ جامعہ کراچی میں انھوں نے حال ہی میں ڈی لیٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اور یہ بے شمار ملکی و غیر ملکی ریسرچ جنرلز میں مختلف حوالوں سے عملی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جامعہ کراچی سے نکلنے والے علمی، فکری و تحقیقی مجلہ التفسیر کے مدیر اعلیٰ ہیں، اردو، انگریزی اور عربی زبان میں نکلنے والے تحقیقی مجلہ معارف اسلامیہ کے بھی مدیر اعلیٰ ہیں۔

شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں ڈی لیٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے یہ سندھ کے پہلے پاکستان کے دوسرے اور برصغیر کے تیسرے شخص ہیں۔ بہرکیف یہ خوش آیند بات ہے کہ جامعہ کراچی کے تین اساتذہ کو بیک وقت تمغہ امتیاز ملا ہے، اس سے قبل جامعہ کی تاریخ میں تین اساتذہ کو بیک وقت ایسا اعزاز حاصل نہیں ہوا۔ یہ اعزاز نہ صرف ان اساتذہ میں مزید علمی، تحقیقی و تخلیقی کاوشوں کی رفتار کو تیز تر کرنے کا باعث ہوگا بلکہ دیگر اساتذہ کو بھی آگے بڑھنے کی لگن میں اضافے کا باعث ہوگا۔

یہاں ایک تلخ حقیقت کا ذکر کرنا غلط نہ ہوگا کہ ہم نے دنیاوی اور جامعات کے حوالے سے جو اساتذہ کا ایک تصوراتی ’’اسٹیٹس‘‘ قائم کیا ہوا ہے اس اعتبار سے اساتذہ کرام کو وہ معاشی آسودگی حاصل نہیں ہے جو اس ’’اسٹیٹس‘‘ کا تقاضا ہے، ایک اسسٹنٹ پروفیسر کو جو ماہانہ مشاہیرہ دیا جاتا ہے وہ  اس سے کم ہے جو اسٹیٹس ہم سب نے تصور کر رکھا ہے، اس اعتبار سے اگر کوئی اسسٹنٹ پروفیسر ایک کرایہ کے گھر میں اپنے دو تین بچوں کے ساتھ رہتا ہے تو غور کیجیے کہ اس کا ماہانہ بجٹ کس طرح بن سکتا ہے؟

واضح رہے کہ ایک اسسٹنٹ پروفیسر گریڈ 19 کا درجہ رکھتا ہے جب کہ معاشرے پر نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ ایک سرکاری افسر خواہ گریڈ 17 ہی کا کیوں نہ ہو اپنے ادارے کی گاڑی میں گھومتا پھرتا ہے۔ جامعہ کراچی کے ڈینز کو بھی سرکاری گاڑی نہیں ملتی، اب ذرا اس سے نیچے اساتذہ کی حالت زار کا اندازہ کرلیجیے جو گریڈ 17 سے لے کر پرائمری اسکول کے گریڈ 7 تک اس قوم کے مستقبل کے معماروں کی تعلیم و تربیت کررہے ہیں اور ان میں سے اکثر کسی کو رشوت دے کر اور کسی سیاسی تنظیم کا حلف نامہ بھر کر آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں استاد مستقبل کے معماروں کی تربیت و تعلیم پر کس قدر توجہ دے سکتا ہے جب کہ اسے اپنے محسنوں سے حلف وفاداری بھی نبھانا ہو اور اپنے کنبے کے لیے معاشی جنگ بھی لڑنی ہو؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر بھی اساتذہ کو صرف مراعات نہیں بلکہ عزت و احترام و سہولیات بھی دینا چاہیے اور معاشرے کو بھی۔ گزشتہ مہینے کا واقعہ ہے کہ مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا جن کی فیس بہت زیادہ تھی، اس قدر زیادہ تھی کہ میں ذہن میں سوچ رہا تھا کہ کاش ڈاکٹر صاحب کچھ رعایت کردیں۔ جب میں اسپتال پہنچا تو اتفاق سے مجھے ایک نوجوان نے سلام کیا اور کہنے لگا سر میں آپ کا شاگرد ہوں اور یہاں ڈاکٹر صاحب کا اسسٹنٹ ہوں۔

مجھے بڑی خوشی ہوئی، خیر جب میں نے ڈاکٹر صاحب کو ان کی فیس (جو غالباً 3 سے 4 ہزار بنتی تھی) دینے کی کوشش کی تو انھوں نے فیس لینے سے انکار کردیا۔ میں نے اپنے شاگرد کی طرف دیکھا تو اس نے کہا کہ ’’ڈاکٹر صاحب اساتذہ سے فیس نہیں لیتے‘‘ میں بہت حیران بھی ہوا اور خوش بھی! آیئے ہم بھی اس طرح ایک دوسرے کو ’’خوش‘‘ کرنے کی عملی کوشش کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔