خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل رکوانے کیلئے تحریک عدم اعتماد

شاہد حمید  بدھ 27 اگست 2014
اگر اپوزیشن جماعتیں اب وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع نہ کراتیں تو اس صورت میں تیسری مرتبہ بھی ممکنہ طور پر صوبائی اسمبلی کی تحلیل ہو جاتی.  فوٹو : فائل

اگر اپوزیشن جماعتیں اب وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع نہ کراتیں تو اس صورت میں تیسری مرتبہ بھی ممکنہ طور پر صوبائی اسمبلی کی تحلیل ہو جاتی. فوٹو : فائل

پشاور: خیبرپختونخو ا اسمبلی میں موجود اپوزیشن جماعتوں نے اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں وزیراعلیٰ اپنی پارٹی تحریک انصاف کی قیادت کے کہنے پر صوبائی اسمبلی ہی کو تحلیل نہ کردیں، وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کراتے ہوئے اسمبلی کی تحلیل رکوا دی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ تحریک عدم اعتماد صرف اسمبلی کی تحلیل کو رکوانے کے لیے ہی جمع کرائی گئی ہے۔

اگر اس اقدام کا مقصد پرویز خٹک کی حکومت کو گرانا ہوتا تو اس کے ساتھ ہی ریکوزیشن بھی جمع کرائی جاتی تاکہ اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوتا اور اس میں اس تحریک عدم اعتماد پر کاروائی کی جا سکتی جبکہ اس کے ساتھ ہی حکمران اتحاد میں شامل دونوں اتحادی جماعتوں، جماعت اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد کی قیادت کے ساتھ رابطے کرتے ہوئے اپوزیشن انھیں اپنا ہم نوا بناتی اور ساتھ ہی دونوں آزاد ارکان جو اس وقت تحریک انصاف کے حمایتی ہیں ۔

ان کی اس حمایت کا رخ بھی اپوزیشن اپنی جانب موڑتی لیکن چونکہ اپوزیشن کا مدعا صرف اسمبلی کی تحلیل کو رکوانا تھا اس لیے صرف پہلے مرحلہ یعنی تحریک عدم اعتماد کو جمع کرانے پر ہی اکتفاء کیا گیا اور اس حوالے سے یہ بھی شنید ہے کہ بیک چینلز کے ذریعے حکومتی بڑوں کے اپوزیشن والوں کے ساتھ رابطے تھے کیونکہ خود حکومتی بڑوں کی بھی یہی خواہش تھی کہ اس ساری صورت حال میں خیبرپختونخوا اسمبلی کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور یہ حقیقت ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا ہوتا تو شاید اب تک صوبائی اسمبلی تحلیل ہو چکی ہوتی۔

ماضی قریب میں دو مرتبہ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کی گئی، 1993ء میں صوبہ کے سابق لیگی وزیراعلیٰ میر افضل خان نے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کیا تھا جس کے خلاف اس وقت کے صوبائی اسمبلی کے سپیکر حبیب اللہ ترین اور مسلم لیگ کی اتحادی جماعت اے این پی کی اس وقت کی صوبائی صدر بیگم نسیم ولی خان اورخود میر افضل خان کابینہ کے رکن نوابزادہ محسن علی خان نے عدالت کا رخ کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ’’جس وقت وزیراعلیٰ نے اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے گورنر کو ایڈوائس ارسال کی اس وقت صوبائی اسمبلی کے ایڈیشنل سیکرٹری کے پاس وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوچکی تھی اس لیے اسمبلی تحلیل کا یہ اقدام غلط قراردیتے ہوئے اسمبلی کو بحال کیا جائے‘‘ لیکن عدالت نے اسمبلی تحلیل کرنے کے اقدام کو اس بنیاد پر درست قرار دیا تھا کہ وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد دفتری وقت ختم ہونے کے بعد جمع کرائی گئی تھی جبکہ دوسری جانب وزیراعلیٰ کی ایڈوائس بروقت گئی تھی۔

اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دوسری مرتبہ 2007 ء میں متحدہ مجلس عمل حکومت کے وزیراعلیٰ اکرم خان درانی نے استعمال کیا، ان کے خلاف بھی اس وقت کی اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی اور اس وجہ سے حاصل شدہ تین دنوں کے وقت کے دوران اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو دیگر کے علاوہ خیبرپختونخوا اسمبلی سے بھی ووٹ لینے کا موقع مل گیا جس کے بعد اکرم خان درانی کے خلاف جمع کردہ تحریک عدم اعتماد بھی اپوزیشن جماعتوں نے واپس لے لی جس کے ساتھ ہی اکرم خان درانی نے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے گورنر کو ایڈوائس ارسال کردی کیونکہ وہ جماعت اسلامی کے ارکان کے ایوان سے مستعفی ہونے کی وجہ سے ایوان میں اکثریت بھی کھو بیٹھے تھے اور ان کے لیے حکومت کرنا مشکل ہوگیا تھا۔

اگر اپوزیشن جماعتیں اب وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع نہ کراتیں تو اس صورت میں تیسری مرتبہ بھی ممکنہ طور پر صوبائی اسمبلی کی تحلیل ہو جاتی، اسی خدشے اور امکانات کو محسوس کرتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی گئی جس کے نتیجے میں صوبائی اسمبلی کی تحلیل تو رک گئی ہے تاہم جو کچھ ہوا ہے اس کو خود تحریک انصاف کی صفوں میں محسوس کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے ایم این ایز میں سے کئی ایک نے اپنی نشستوں سے استعفے دینے سے انکار کردیا ہے۔

مذکورہ ارکان میں این اے چار پشاور سے گلزار خان تو کھل کر سامنے آگئے ہیں لیکن جب سپیکر قومی اسمبلی کو دیا جانے والا بند لفافہ کھلے گا تو سب آشکار ا ہو جائے گا کہ دیگر وہ کون سے اراکین قومی اسمبلی ہیں جنہوں نے استعفے نہیں دیئے ۔ اس صورت حال سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ تحریک انصاف احتجاج اوردھرنے کی صورت میں جو کچھ کر رہی ہے اس سلسلے میں اسمبلیوں سے استعفے دینے جیسے اہم ترین اقدام کے بارے میں بھی پارٹی قیادت نے اپنے ارکان کو اعتماد میں نہیں لیا ۔

چونکہ اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی جانب سے جاری دھرنے طوالت اختیار کرگئے ہیں اور سلسلہ بدستور جاری ہے اس لیے ان دھرنوں کے خلاف اب آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں، ایک جانب تو مسلم لیگی بالآخر میدان میں نکل آئے ہیں تو دوسری جانب پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام(ف) بھی میدان میں آچکی ہیں، جے یو آئی (ف) کے تحت 22 اگست کو ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور اب 31 اگست کو دوبارہ مظاہرے کیے جائیں گے جبکہ مولانا فضل الرحمٰن اپنی پارٹی کے ورکروں کو کال دینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں تاکہ انھیں ملک بھر سے اسلام آباد کی جانب کوچ کا حکم دے سکیں تاہم اس بارے میں قدرے انتظار کیا جائے گا تاکہ مذاکرات اور سیاسی عمل کے ذریعے اسلام آباد میں جاری دھرنوں کو ختم کرایا جا سکے۔

لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر یہ دھرنے ختم نہیں ہوتے تو پھر دیگر پارٹیاں بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے میدان میں نکل آئیں۔ اگر ایسی صورت حال بنتی ہے کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ورکروں کے مقابلے میں دیگر جماعتیں بھی اپنے ورکر میدان میں لے آتی ہیں تو اس سے یقینی طور پر خطرناک صورت حال بنے گی اور وفاقی دارالحکومت میں پنجہ آزمائی اور زور آزمائی کا نیا مرحلہ شروع ہو جائے گا جس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاسی پارٹیاں جو دھرنا دیئے بیٹھی ہیں وہ حکمت اور دانش مندی سے کام لیتے ہوئے ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں معاملات کو افہام وتفہیم کے ساتھ نمٹائیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ مذہبی جماعتوں میں ایک مرتبہ پھر رابطوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے حوالے سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان رابطوں کا مقصد کچھ اور نہیں بلکہ مذہبی جماعتوں کے نئے اتحاد کا قیام ہے جس کے لیے ملی یکجہتی کونسل کا پلیٹ فارم اسی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے جس طریقہ سے متحدہ مجلس عمل کے قیام کے لیے دفاع افغانستان کونسل کا پلیٹ فارم استعمال کیا گیا تھا۔ البتہ اس مرتبہ ایک نیا تجربہ کرنے کے حوالے سے ایک مسلہ ضرور درپیش رہے گا کہ یہ مذہبی جماعتیں ایک دوسرے کو بڑے اچھے طریقہ سے ایم ایم اے میں برت چکی ہیں۔

اس لیے اب اگر مذہبی جماعتوں کا کوئی نیا اتحاد بنتا ہے یا بنایاجاتا ہے تو اس کے حوالے سے ہر جماعت دوسری جماعت سے ضمانتیں مانگے گی اور یہ فارمولے بھی پہلے ہی سے طے کیے جائیں گے کہ اگر مذہبی جماعتوں کو دوبارہ اقتدار ملتا ہے تو اس صورت میں اقتدار کا کیک کس طریقہ سے ان کے مابین تقسیم ہوگا اس لیے مذہبی جماعتوں کے مابین رابطوں کا سلسلہ اپنی جگہ لیکن ان رابطوں کے نتیجے میں نیا اتحاد بنانا اور اس نئے اتحاد کے پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوکر الیکشن کرنا اور پھر اکھٹے اقتدار کی کرسی کو سنبھالنا ،اس حوالے سے ’’ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب تک جام آنے میں‘‘ والی صورت حال نظر آ رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔