حقائق کا ادراک ضروری ہے

نصرت جاوید  جمعرات 28 اگست 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

بحران پاکستان میں صرف سیاسی شخصیات اور ان کے اقتدار کو بچانے یا حاصل کرنے کے لیے طے شدہ ایجنڈوں کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا۔ میری ناقص رائے میں کسی حکومت کے چلے جانے یا خدانخواستہ جمہوریت کی بساط لپیٹ دینے کے بعد بھی پاکستان میں استحکام و ثبات کی صورتیں شاید کئی برسوں تک پیدا نہ ہو پائیں گی۔ بے تحاشہ آبادی والے ملکوں میں جو قدرتی وسائل سے مالا مال نہ ہوں ایسے بحران آتے ہی چلے جاتے ہیں۔

معاشی مشکلات اس وقت مزید ناقابل برداشت محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہیں جب تعلیم اور میڈیا کے فروغ کے باعث لوگوں کی توقعات بہت بڑھ جاتی ہیں۔ سیاسی مفکرین نے خواہشات پورا نہ ہونے کی وجہ سے خلقِ خدا کے دلوں میں اُبلتی مایوسی اور غصے کو جدید زمانے میں Growing Expectationsکے تناظر میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی ہے اور ان دنوں مختلف ممالک میں پھیلے مسلسل Chaosکو جسے ہم ابتری یا انتشار بھی کہہ سکتے ہیں سمجھنے کے لیے مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں۔

پاکستان مگر مصر نہیں ہے نہ ہی شام۔ یہاں عراق جیسی مسلکی نفرتیں بھی اس شدت سے موجود نہیں۔ ان تین ممالک کا اصل مسئلہ یہ رہا کہ وہ کئی صدیوں تک خلافتِ عثمانیہ کے زیر نگین رہے۔ استنبول میں بیٹھی نوکر شاہی ان ممالک کو اپنے بھیجے ’’پاشائوں‘‘ کی بدولت جبر پر مبنی نظام کے ذریعے چلاتی تھی۔ مگر پھر پہلی جنگ عظیم ہوگئی۔ ترکی کو جرمنی کا حلیف ہونے کے جرم میں سزا دینے کا فیصلہ ہوا۔

انگریزوں نے عرب قوم پرستی کے نام پر اپنے مہرے تیار کیے۔ پہلی جنگِ عظیم جیت لینے کے بعد برطانیہ اور فرانس نے عرب دُنیا کو آپس میں بانٹ لیا اور ان ملکوں پر یہی مہرے مسلط کردیے۔ سامراجیوں کے بٹھائے مہروں نے مگر پاشائوں والا طرزِ حکمرانی جاری رکھا۔ اس طرزِ حکومت نے بالآخر شام، عراق اور مصر کو فوجی آمروں کے حوالے کردیا۔

پاکستان برطانیہ کا غلام ضرور رہا ہے۔ مگر انگریزوں نے یہاں اپنے معاشی مفادات کے حوالے سے نہری نظام کے ذریعے پیشہ ورانہ زراعت کو فروغ دیا، تعلیمی ادارے بنائے اور ریلوے کے ذریعے تیز رفتار سفر کے امکانات پیدا کیے۔ ان سب چیزوں کے ساتھ ہی ساتھ سامراجیوں نے مقامی آبادی کو اقتدار میں کچھ حصہ بھی دیا۔ سیاسی جماعتوں اور صحافت کو درگزر نہیں بلکہ Encourage کیا۔ ریاستی انتظامی ڈھانچہ مگر Top Downہی رکھا جس نے یہاں کے لوگوں کو حکمرانوں کی رعایا بنائے رکھا۔ اپنے حقوق اور ذمے داریوں کا پوری طرح احساس رکھنے والے شہری نہ بننے دیا۔

میں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ہمیشہ پُرامید رہتا ہوں تو محض اس وجہ سے کہ 1980ء کی دہائی کے اختتام کے ساتھ ہی ہمارے ملک میں اچھی حکومت دیکھنے کے خواہاں افراد کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ہماری خلقِ خدا حکمرانوں کو جوابدہ دیکھنا چاہتی ہے۔ میڈیا سوالات اٹھاتا ہے۔ رعایا سے شہری بننے کے اس مشکل سفر کی وجہ سے ہمیں کم از کم ٹی وی اسکرینوں پر ہر وقت انتشار برپا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ Status-Quoکی بچاری قوتوں کو مگر یہ انتشار پسند نہیں آتا۔ وہ اب بھی بڑی شدت سے یہ محسوس کرتی ہیں کہ اگر کسی نہ کسی طرح میڈیا کو ضابطہ اخلاق کے نام پر قابو میں کرلیا جائے تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔

میڈیا پر ریاستی کنٹرول کا احیاء تو چھوٹی بات ہے اگر اسے مکمل طور پر خاموش بھی کروا دیا جائے تو پاکستان کو سکون میسر نہیں ہوگا۔ ہماری حکمران اشرافیہ اگر ٹھنڈے دل سے جائزہ لے تو ہمارا چیختا چنگھاڑتا میڈیا تو کئی حوالوں سے بلکہ خلقِ خدا کے دلوں میں ابلتے غصے اور مایوسی کو Catharticذرایع مہیا کررہا ہے۔ اپنے دلوں کی بھڑاس کو ٹی وی اسکرینوں پر نکلتے دیکھ کر وہ تھوڑی مطمئن ہوجاتی ہے۔ گھروں سے باہر نکل کر احتجاجی تحریکوں کا حصہ بننے پر خود کو مجبور نہیں پاتی۔

ہمارے سندھ اور بلوچستان کے کئی ساتھی اس بات پر بہت حیران نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی بحران کا اصل مرکز ان دنوں پنجاب ہی کیوں دِکھ رہا ہے۔ اس کالم میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ جنرل ضیاء کے دور میں پنجاب دراصل ’’مسلم لیگی‘‘ہوگیا تھا اور کسی دوسری سیاسی جماعت کے لیے یہاں کے اقتدار پر قبضہ کرنا ممکن ہی نہ رہا۔ 1985ء سے نواز شریف نے ’’مسلم لیگی‘‘ اشرافیہ کو اپنی ذات کے گرد جمع کرنا شروع کردیا۔ وہ جب مگر مطلق کل نظر آنے لگے تو منظور وٹو اور پھر گجرات کے چوہدریوں نے بغاوت کردی۔

پنجاب میں ان دنوں جو ہلچل نظر آرہی ہے اس کی بنیادی وجہ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف ہیں۔ ’’تختِ لہور‘‘ کا مکمل طورپر شریف خاندان کے پاس رہنا اب ممکن نہیں رہا۔ مئی 2013ء کے انتخابات کے قریب آتے ہوئے شہباز شریف نے جبلی طورپر اس تبدیلی کو سمجھ لیا تھا۔ اسی لیے اس سال کے جنوری فروری میں ہم یہ کہانیاں سنتے رہے کہ نئے انتخابات کے بعد شہباز شریف صوبائی حکومت کے بجائے مرکزی حکومت میں جانا چاہیں گے۔ وہاں بجلی کے بحران کو حل کرنا ان کی پہلی ترجیح ہوگی۔ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے خواجہ آصف اور چوہدری نثار علی خان سب سے تگڑے امیدوار قرار دیے گئے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ خواجہ آصف اور چوہدری نثار کے درمیان غلط فہمیوں اور شکر رنجیوں کا آغاز ’’تختِ لہور‘‘ کا بادشاہ بننے کی خواہشوں کی وجہ سے ہوا تھا۔

جن دنوں شہباز شریف صاحب کے نئے انتخابات کے بعد مرکز میں جانے کی ’’خبریں‘‘ بہت تواتر کے ساتھ سرکاری سرگوشیوں کے ذریعے پھیلائی جارہی تھیں میں نے اس کالم میں یہ دعویٰ کرنے کی جسارت کر ڈالی تھی کہ نئے انتخابات کے بعد بھی شہباز شریف پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر براجمان رہیں گے۔ وجہ میرے اس دعویٰ کی بس اتنی تھی کہ 1990ء کی دہائی سے شریف خاندان یہ طے کیے بیٹھا ہے کہ اسلام آباد پہنچنے کے سارے راستے پنجاب پر مکمل کنٹرول قائم کرنے کے بعد ہی ڈھونڈے جاسکتے ہیں۔

نواز شریف اپنے تیسرے دوسرے حکومت میں سیاسی طور پر صرف اسی صورت مستحکم رہ سکتے ہیں اگر تخت لہور پر کوئی ’’غیر‘‘ نہ بیٹھا ہو۔ پنجاب اور اسلام آباد کا یہ تعلق میاں صاحب نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے دوران سیکھا تھا اور اسی کی بدولت وہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ کے شدید تحفظات کے باوجود غلام مصطفیٰ جتوئی کے بجائے پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے تھے۔

پنجاب میں اس وقت جو بحران نظر آرہا ہے وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ شریف خاندان 1990ء کے دنوں میں بنائے Mindsetسے آزاد نہیں ہوپایا۔ 2014ء میں سیاست اور اقتدار کی Dynamicsاس دہائی سے کہیں زیادہ حیران کن حد تک تبدیل ہوچکی ہیں۔ شریف خاندان کو ان نئی حقیقتوں کا ادراک کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔