امریکا کی جمہوریت نوازی کے اسرار

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 29 اگست 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

امریکا کی حکومت اور وزارت خارجہ کی طرف سے بڑے واضح بلکہ انتباہی انداز میں یہ بیانات آ رہے ہیں کہ امریکی حکومت پاکستان میں کسی ماورائے آئین تبدیلی کو قبول نہیں کرے گی۔ امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ نواز شریف ایک جمہوری وزیر اعظم ہیں اور انھیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا حق حاصل ہے کوئی اس حق کو غیر آئینی طریقے سے نہیں چھین سکتا۔

اس قسم کا بیان یا بیانات دینے کی امریکی حکومت کو ضرورت یوں پیش آئی کہ اسلام آباد دھرنے کے حوالے سے یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ یہ دھرنے مذاکرات کی ناکامی کے بعد ایسے خلفشار کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں فوجی مداخلت عین ممکن ہو جاتی ہے۔ اس خوف کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کا حکمراں گروہ دھرنوں سے خائف تھا۔تو امریکی حکومت ممکنہ ماورائے آئین تبدیلی کو روکنے کے لیے میدان میں آ گئی۔

امریکا کو پاکستان یا کسی بھی پسماندہ ملک کی جمہوریت سے بھلا کیا دلچسپی ہو سکتی ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ 2014ء میں امریکا کو اپنی فوج افغانستان سے نکالنا ہے اور امریکا کا حکمراں ٹولہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر ایسے نازک مرحلے میں پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا کوئی مسئلہ کھڑا ہو گیا تو امریکی فوجوں کی بحفاظت واپسی میں خدشات پیدا ہو سکتے ہیں۔

بالفرض محال ہم یہ مان بھی لیتے ہیں کہ امریکا پاکستانی جمہوریت سے مخلص ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کے اس تاجدار نے 1977ء میں جمہوری اور مقبول رہنما ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹانے میں سب سے بڑا کردار ادا کیا جب کہ سیاسی اور دانشورانہ حلقے اس بات پر متفق تھے کہ بھٹو مجموعی طور پر یہ انتخابات جیت چکا تھا اور دھاندلی کی شکایت صرف چند سیٹوں پر تھی۔

بھٹو دشمنی میں امریکا کی جمہوریت دوستی کا دور دور تک پتہ نہ تھا صرف بھٹو دشمنی کارفرما تھی اور اس کی وجہ بھی صرف یہ تھی کہ بھٹو نے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے سے انکار کر دیا تھا اور بین الاقوامی وڈیرے کو بھٹو کی یہ گستاخی اور نافرمانی پسند نہ تھی۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا اصل سہرا بھٹو کے سر بندھتا ہے جس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی ضد میں نہ صرف اپنا اقتدار کھو دیا بلکہ اپنی جان کی قربانی بھی دی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بھٹو کے سر سجنے کے اس سہرے کو سیاسی مسخرے اپنے سر باندھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بھٹو دشمنی ہی کا نتیجہ تھا کہ امریکا نے وہ 9 ستارے ایجاد کیے جنھوں نے نہ صرف جمہوریت کو نگل لیا بلکہ ایک ایسے آمر کو عوام پر مسلط کر دیا جس نے پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی کے اس غار میں دھکیل دیا جس سے پاکستان ابھی تک نہیں نکل پا رہا ہے۔ 1977ء میں، میں ایک ہفت روزہ کے مدیر کی حیثیت سے اس بلڈنگ کے چوتھے فلور پر بیٹھتا تھا جس بلڈنگ کے ایک فلور پر ایک بڑی کمپنی کا دفتر تھا۔

اس جمہوری تحریک کے سیاسی شرکا مذہبی شرکا اور ان کی ذیلی تنظیمیں اس کمپنی کے مالک سے ہر روز جمہوری تحریک کے لیے بڑی بڑی رقمیں لیتے تھے جو امریکا کی جمہوریت نوازی کی یہی ایک مثال نہیں بلکہ ان مثالوں سے اس کی جمہوری تاریخ بھری ہوئی ہے۔ ابھی مشرق وسطیٰ کی ’’جمہوری تحریکوں‘‘ میں امریکا اس حد تک آگے چلا گیا کہ اس نے جمہوری قوتوں کو طاقتور بنانے اور جمہوریت کا بول بالا کرنے کے لیے فضائی حملوں کے ذریعے مدد فراہم کی آج لیبیا، مصر اور تیونس امریکی جمہوریت کے سائے تلے جس خون آشامی کا شکار ہیں وہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔

امریکی جمہوریت وقت اور ضرورت کے مطابق اپنے دوست اور دشمن بدلتی رہتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو سیاسی جنگ جاری ہے اس میں امریکا بھی شریک ہو گیا ہے۔اب اسلام آباد کی تحریک کے خلاف جوابی تحریک باہر آ رہی ہے اور باہر آنے کی تیاری کر رہی ہے۔ 1977ء میں ہم نے اپنی آنکھوں سے جمہوریت کے ٹھیکیداروں کو سیکڑوں بسوں میں جمہوری کارکنوں کو شہر کے مختلف علاقوں خصوصاً مضافات سے صدر اور بندر روڈ پر اترتے اور پھیلتے دیکھا ہے۔

بھٹو نے اس تحریک کو روکنے کے لیے فوج کو استعمال کرنا چاہا لیکن ’’جمہوری قوتیں اس قدر مضبوط ہو چکی تھیں کہ فوج ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔‘‘ یوں امریکا نے بھٹو کو نشان عبرت بنانے کا انتقام لیا۔ امریکا کی جمہوریت نوازی ہمیشہ اس کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے تابع ہوتی ہے اس حقیقت کو سمجھنے کے بعد جمہوریت پر سے پردہ اٹھ جاتا ہے۔

اس وقت پارلیمنٹ میں 11 ستارے حکومت کی حمایت میں چمک رہے ہیں۔ ان میں موجود کچھ تارے قابو سے باہر ہو رہے ہیں، 1977ء میں 9 ستارے امریکا کے سیاسی مدار پر گھوم رہے تھے۔ اب عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی تعداد میں اگرچہ اضافہ ہو گیا ہے لیکن ان کے کردار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی فرق صرف اتنا ہے کہ 1977ء میں یہ بھٹو حکومت کو گرانے کی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے اب وہ نواز شریف کو بچانے کی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ 1977ء میں بھٹو کو ہٹانا امریکا کی ضرورت تھی آج موجودہ حکومت کو بچانا اس کی ضرورت ہے۔

حالات اب ایک ایسے خطرناک موڑ پر آ گئے ہیں کہ ڈی چوک والوں کو اور حکومت کو کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانا پڑے گا۔ حکومت کے اقدامات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ ریاستی طاقت استعمال کرنے کے بجائے سیاسی طاقت استعمال کرنا چاہتی ہے کیونکہ ریاستی طاقت کے استعمال سے اتنا بڑا جانی نقصان ہو گا کہ پھر تیسری طاقت کو آنے سے امریکا بھی نہیں روک سکے گا۔

اگر حکومت سیاسی طاقت استعمال کرتی ہے تو ملک خانہ جنگی کی طرف چلا جائے گا اور اس کا انجام بھی وہی ہو گا جو 1977ء میں ہوا۔ ڈی چوک والوں کے پاس بھی اب زیادہ وقت نہیں کیونکہ 12-13 روز سے دھوپ بارش بھوک پیاس میں بیٹھنے والوں کو بھی زیادہ دیر اس گومگو کی حالت میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ہمارا یہ کالم شایع ہونے تک امکان ہے کہ اونٹ کسی نہ کسی کروٹ بیٹھ جائے گا۔

دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ Status Quo توڑنے کی طرف بیٹھتا ہے یا Status Quo کو مضبوط بنانے کی طرف بیٹھتا ہے عوام کا اجتماعی مفاد Status Quo توڑنے میں ہے اور اس کے لیے D چوک کو تحریر اسکوائر بنانا پڑے گا ۔فیصلہ ملک کے 20 کروڑ عوام کے ہاتھوں میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔