خِشتِ اوّل چوں نہد معمار کج

اوریا مقبول جان  جمعـء 29 اگست 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

1970ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر محمود خان اچکزئی کے والد خان عبدالصمد اچکزئی امیدوار تھے۔ انھیں جمعیت العلماء اسلام کے امیدوار مولانا عبدالحق نے شکست دے دی۔ صوبائی الیکشن میں ابھی تین دن باقی تھے۔ پشتونوں کے حقوق کے علمبردار اس سیاسی رہنما کے لیے یہ ایک سانحے سے کم نہ تھا۔

قوم پرست سیاست کا خاصہ یہ ہے کہ یہ نسل اور زبان سے شروع ہو کر نچلی سطح پر قبیلے اور برادری تک جا پہنچتی ہے۔ عبدالصمد اچکزئی صوبائی اسمبلی کے بھی امیدوار تھے۔ اچکزئی قبیلے کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ بن گیا۔ تو اچکزئی کے حاجی بہرام خان اچکزئی نے قبیلے کے تمام مشران (بزرگوں) کو جمع کیا اور سب کو ’’گوجن‘‘ اور ’’بادن‘‘ کے نسلی تعصب کی کہانیاں سناتے ہوئے قسم، قرآن اور دستار کا واسطہ دے کر قبائلی عصبیت کی بنیاد پر ووٹ مانگے۔

پشتون معاشرے میں قسم بہت اہمیت رکھتی ہے۔ عبدالصمد خان اچکزئی صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیت گئے۔ حاجی بہرام خان اچکزئی اس قصے کو بہت تفصیل سے سنایا کرتے اور پھر آخر میں مسکراتے ہوئے کہتے سب غٹ غٹ (بڑی بڑی) باتیں کرتے ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ قبیلے سے باہر کچھ بھی نہیں۔ خان عبدالصمد اچکزئی کے ووٹروں کی اکثریت کو شاید ہی اس بات کا علم تھا کہ ان پارٹی کے نظریات کیا ہیں، وہ کن جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہیں، ان کا منشور کیا کہتا ہے۔

یہ صرف خان عبدالصمد اچکزئی یا ان کے فرزند محمود خان اچکزئی کے حلقے کی کہانی نہیں بلکہ اس ملک کے نوے فیصد سے زیادہ حلقوں کی یہی داستان ہے۔ ان تمام حلقوں سے جیتنے والے جب قومی اسمبلی کے ایوان میں گفتگو کر رہے ہوتے ہیں، تو ان کی باتوں سے انسانیت، جمہوری اقدار، برابری اور آزادیٔ رائے کے پھول جھڑ رہے ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ نسل، رنگ، زبان اور عقیدے کا تعصب ان کو چھو کر بھی نہیں گزرا۔ ملکی مفاد کا ترانہ گاتے ہیں اور جمہوری نظام کے تحفظ کی قسمیں کھاتے ہیں۔

اس طرح کا جمہوری نظام انھوں نے بڑی محنت سے تخلیق کیا ہے۔ بار بار الیکشن میں جیتنے اور ہارنے کے بعد انھوں نے وسیع تجربے سے اپنے لیے محفوظ حد بندیاں بنا لی ہیں۔ علاقائی اور نسلی تعصب کی جڑوں کو گہرا کر لیا ہے۔ لوگوں کے مخصوص مفادات ان لیڈروں سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ اب یہاں کوئی نسل کا پرچم بلند کرے یا مذہب کا، انھی مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ جناب محمود خان اچکزئی کے حلقے کو ہی اگر مثال کے طور پر لے لیا جائے تو ان کے علاقے گلستان سے لے کر چمن تک اکثریت کا کاروبار اسمگلنگ ہے۔

وہاں کا ڈپٹی کمشنر لوگوں کو آٹا، چاول، چینی اور دیگر اشیاء کی راہدار یاں جاری کرتا ہے۔ یہ سلسلہ ڈیورنڈ لائن کے قائم ہونے سے جاری ہے۔ انھی راہداریوں کی آڑ میں یہ تمام اشیاء افغانستان جاتی ہیں اور وہاں سے دنیا بھر کا سامان اسمگل ہو کر کوئٹہ کی مارکیٹوں میں آتا ہے۔ اس سارے معاملے پر ’’نظر‘‘ رکھنے کے لیے، ایف سی، کسٹم اور لیویز کی پوسٹیں قائم ہیں۔ میں نے’’ نظر‘‘ رکھنے کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ کنٹرول کا تو تصور بھی وہاں نہیں دیکھا جا سکتا۔

جب کبھی کسی سیاسی پارٹی کا جلسہ ہوتا تو چمن کے بازار سے سیکڑوں بسیں اسمگلنگ کے سامان سے لدی ہوئی روانہ ہوتیں، اوپر پارٹی کا جھنڈا ہوتا اور چند سوار لوگ پارٹی کے نعرے لگاتے ہوئے جلسہ گاہ جاتے اور سامان کوئٹہ کی مارکیٹوں میں آرام سے پہنچ جاتا۔ پورے علاقہ میں دو طرح کے لوگ اکثر پائے جاتے ہیں۔ ایک بڑے بڑے اسمگلر جو حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر یہ کام کرتے ہیں اور دوسرے، چھوٹی سطح پر مال ادھر سے ادھر کرنے والے۔

جب کبھی ہڑتال ہوئی، جلوس نکلے تو مطالبات کی فہرست میں ایف سی چیک پوسٹوں کو ہٹانے کا مطالبہ ضرور شامل رہا۔ سیاسی جلسوں اور عمومی سیاسی گفتگو میں بھی اسمگلنگ کا جواز، غربت ، پسماندگی اور روز گار کی عدم دستیابی کو بنایا جاتا۔ قبائلی جھگڑے، مقامی نسلی عصبیتیں، سیاست کا بازار چمکاتی رہیں۔ مارچ 1980ء میں جب میں بلوچستان پہنچا تو صوبے کی ہر دیوار پر پنجابی استعمار کے خلاف نعرے درج تھے اور ہر لیڈر ان کے خلاف زہر اگلتا تھا۔

دونوں سیاسی جماعتیں جمعیت علماء اسلام اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی اپنی طاقت کا محور جہاں علاقائی قبائلی تعصب کو سمجھتیں، وہیں افغانستان سے بھی اپنی حمایت کے لیے گروہوں سے تعلق استوار رکھتیں۔ محمود خان اچکزئی کا تعلق نجیب اللہ سے تھا اور جمعیت علماء اسلام افغان مجاہدین میں طاقت ڈھونڈتی تھی۔ چمن کی سرحد کے پار افغانستان کے شہر اسپن بولدک میں عصمت اللہ مسلم اچکزئی نے اغوا برائے تاوان کا مرکز قائم کیا ہوا تھا جسے وہ ’’قرار گاہ‘‘ کہتا۔

آئے دن کوئی نہ کوئی شہری اغوا ہوتا اور پھر وہ انھی قبائلی نما سیاستدانوں کے توسط سے رہا ہوتا۔ نجیب اللہ کی حکومت گئی تو افغانستان میں اس گروہ کی طاقت کا مرکز ختم ہو گیا۔ اب پاکستان سے امیدیں وابستہ کرنے کے دن تھے۔ ایک نعرہ بلند کیا گیا۔ دہ بولان تا چترالہ۔ پشتونستان (بولان سے چترال تک پشتونستان ہے) پنجابی تو وہاں بہت دور تھے لیکن بلوچوں کو خطرہ محسوس ہوا تو اکبر بگٹی، عطا اللہ مینگل اور خیر بخش مری تمام رنجشیں بھلا کر اکٹھے ہو گئے۔ سریاب روڈ پر اکبر بگٹی نے للکارتے ہوئے کہا ’’چترال پہ جو مرضی دعویٰ کرو مگر بولان کی جانب دیکھنا بھی مت‘‘۔

بلوچستان کی صبحیں اور شامیں خون آلود ہونے لگیں۔ کوئٹہ میں کرفیو کا راج ہو گیا۔ اس کے بعد طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو افغان قوم کے اس عالمی اتحاد کے داعی کو پاکستان کی سیاست میں گزارا کرنا پڑا۔ لیکن انھوں نے ایک گُر سیکھ لیا تھا کہ جمہوریت، عوام کی حکمرانی اور انسانیت کی سر بلندی کے نعرے اس وقت بے معنی ہو جاتے ہیں اگر اپنا اچکزئی قبیلہ ساتھ نہ ہو۔ اسی لیے آج ان کا قبیلہ نہیں بلکہ گھرانہ اقتدار کی نعمتوں سے سر فراز ہے۔ آج وہ اس کِرم خورہ، فرسودہ جمہوری نظام کے سب سے بڑے دعویدار ہیں کہ اس سے فوائد بھی انھیں کے خاندان کو حاصل ہیں۔

محمود خان اچکزئی کا ذکر اس لیے کیا کہ پنجاب اور دیگر صوبوں کے لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی سیاست پاکستان کے دوسرے خطوں سے مختلف ہے۔ لوگ آج یہ تصور کر رہے ہیں کہ محمود اچکزئی صاحب اعلیٰ جمہوری اقدار کے علمبردار ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی اس ملک کی سیاست پر چھائے، چوہدریوں، لغاریوں، مزاریوں، پراچوں، ٹوانوں، بجارانیوں، زرداریوں، مخدوموں، خٹکوں، یوسف زئیوں، تالپوروں اور جاموں سے مختلف نہیں ہیں۔

انھیں بھی اس ملک کا یہ جمہوری نظام بہت راس آتا ہے، جہاں اسمبلی کے ایوان، ٹی وی کے ٹاک شو اور اخبار کے انٹرویوز میں آپ کا بیان ایسے ہوتا ہے جیسے آپ اس ملک میں افلاطون کی جمہوریہ کے فلسفی بادشاہ کے تصور پر یقین رکھتے ہیں لیکن جب یہ سب سیاسی رہنما الیکشن لڑنے اپنے حلقوں میں جاتے ہیں تو لوگوں کو نسلی، قبائلی اور برادری کے نام پر تعصب کی چادر اوڑھا دیتے ہیں۔ گزشتہ بارہ انتخابات میں عوام اور ان سیاسی رہنماؤں کے درمیان یہ خلیج گہری سے گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔ دھاندلی کے طریقِ کار میں مہارتوں کے نئے نئے ڈھنگ وجود میں آ گئے ہیں۔ لورالائی کے طاہر لونی الیکشن جیتے تو ان کے خلاف پٹیشن ہوئی۔

اس میں ان کے قبیلے کے فوت شدہ لوگوں کے ووٹ بھی شامل تھے۔ وہ اکثر لوگوں سے مذاقاً کہتے پھرتے ’’میں اپنے قبیلے کا سردار ہوں اگر میں اپنے مردوں کو حکم دوں تو وہ اپنی قبروں سے نکل کر مجھے ووٹ دیں گے‘‘۔ پاکستان کی سیاست میں جمہوریت گزشتہ ساٹھ سال سے دھوکہ، فراڈ، تعصب اور دھونس کی بنیاد پر قائم ہے۔ سیاست دانوں نے کامیابی کے دو شاندار گُر سیکھ لیے ہیں۔

اقتدار کی اعلیٰ ترین مسندوں پر قریبی خاندان کے سوا کسی شخص پر بھروسہ نہ کرو اور اپنے خاندان کو ہی وہاں متمکن رکھو اور حلقے کی سیاست میں ووٹر کے ہر ناجائز مطالبے کو بھی جائز اور وہاں موجود بدترین تعصب کو بھی حق پر سمجھو۔ دنیا پر ہزاروں سال ظالم ترین بادشاہوں کی حکومتیں قائم رہیں لیکن وہ بھی اپنے وزیر، مشیر، گورنر اہلیت کی بنیاد پر لگایا کرتے تھے۔ خاندانی اور نسلی تعلق کی بنیاد پر نہیں۔ سعدی کا شعر ہے۔

خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثرّیا می رود دیوار کج

اگر معمار پہلی اینٹ ٹیرھی رکھ دے تو دیوار بے شک ثریا ستارے تک لے جاؤ ٹیرھی رہے گی۔ جب تک یہ اینٹ سیدھی نہیں کی جاتی سو سال بھی یہ کرم خوردہ جمہوری سسٹم چلتا رہے، حقیقی قیادت سے مرحوم ہی رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔