جمہوری استحکام کے لیے شخصیات نہیں، اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا

اجمل ستار ملک  جمعرات 28 اگست 2014
سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے روّیوں میں جمہوری کلچر پیدا کرنے کی ضرورت ہے،سیاسی تجزیہ نگاروں کی ایکسپریس فورم میں گفتگو ۔  فوٹو : شہباز ملک

سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے روّیوں میں جمہوری کلچر پیدا کرنے کی ضرورت ہے،سیاسی تجزیہ نگاروں کی ایکسپریس فورم میں گفتگو ۔ فوٹو : شہباز ملک

پاکستان میں جمہوریت کبھی مضبوط نہیں ہوسکی جس کی سب سے بڑی وجہ یہاں اداروں کو نہ تو آزادانہ کام کرنے دیا گیا اور نہ ہی ان کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی ۔

دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں میں بھی شخصیات کی اجارہ داری نظر آتی ہے اور خود ان جماعتوں اور سیاستدانوں کے رویوں میں جمہوری کلچر کا فقدان نظر آتا ہے ۔جبکہ بہت سی سیاسی جماعتوں کے اندر تو انتخابات بھی نہیں کروائے جاتے۔ جمہوری استحکام میں سیاستدانوں کے رویے کے حوالے سے گذشتہ دنوں ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف سیاسی تجزیہ نگاروں نے شرکت کی۔ پروگرام میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

نوٹ: قارئین! درج ذیل فورم رپورٹ گزشتہ روز تحریر کی گئی تھی۔ اس دوران ملکی حالات کی وجہ سے کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو براہ کرم اُسے اُسی تناظر میں پڑھا جائے۔

پروفیسر سجاد نصیر (دانشورو سینئر سیاسی تجزیہ کار)

ہمارے ہاں ہمیشہ انٹرنیشنل آبزورنے ہردورمیں انتخابات کی شفافیت کا سرٹیفکیٹ دیا ہے۔ ایسے سرٹیفکیٹ ضیاالحق اور مشرف کی حکومتوں کو بھی دیے گئے تھے۔آئی ایم ایف تو ہمیں اب بھی کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال بہت ٹھیک ہوگئی ہے۔ ہمارے پاس 2008 کے الیکشن کے پیسے بھی نہیں تھے۔

ان الیکشن کے انعقاد کے لیے ہمیں پیسے یوایس ایڈ نے دیے تھے۔ جو الیکشن یوایس ایڈ کے پیسے سے ہوئے ہوں ان کی شفافیت کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو سوچنے کی بات ہے کہ اس وقت پاکستان میں سیاسی بحران اس نہج پر کیسے پہنچا؟ پاکستان میں Governance Crisis بہت زیادہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے سسٹم کام نہیں کررہا اور اس سسٹم پر مافیا کی اجارہ داری ہے۔ جب لوگ کہتے ہیں کہ یہاں آئین کے مطابق کام نہیں ہورہا تو وہ ٹھیک بات کررہے ہیں۔یہاں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اداروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔حکومتی اداروں میں سیاسی بنیادوں پر تقرریاں ہوتی ہیں۔آج دھرنوں میں شامل جماعتیں جائز احتجاج کررہی ہیں ۔

اگر تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو ایسے سیاسی مظاہرے پیر س سے شروع ہوئے تھے اور پھر امریکہ میں بھی دیکھنے کو ملے۔امریکہ میں ویت نام کی جنگ کے دوران ایسے ہی دھرنوں کی صورت میں احتجاج ریکارڈ کروایا گیا تھا۔ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پاکستان میں کبھی بھی تبدیلی آئینی طریقہ سے نہیں آئی۔چاہے آپ 1968-69 کی تحریک دیکھ لیں،1977 کی تحریک دیکھ لیں۔ تبدیلی ہمیشہ عوام کی وجہ سے آئی ہے۔آج بھی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سیاسی بریک ڈاؤن ہوگیا ہے اور سسٹم ڈلیو رنہیں کررہا۔

جہاں تک امریکہ کی طرف سے حکومت کے حق میں بیان آیا تو میں آپ کو بتانا چاہتاہوں یہی امریکی ہمیں 1993 میں ناکام ریاست کہہ رہے تھے۔ 2005 میں امریکی مصنف سٹیفن کوہن نے بھی پاکستان کی بطور ناکام ریاست بات کی تھی۔ اور آج بھی مغرب میں پاکستان کے حالات پر بحث کی جارہی ہے۔اس وقت صورتحال اتنی گھمبیر ہے کہ اس کو قابو کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ماضی میں جتنی بھی تحریکیں چلتی رہی ہیں ،وہ تبدیلی تو لے آتی تھیں مگر بدقسمتی سے ان تحریکوں کی وجہ سے مارشل لاء لگ جاتا تھا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت حکومت کے ساتھ ہے اور ایک یا دو جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں اور حالات کی سنگینی یہ ہے کہ ان جماعتوں نے دارلحکومت کو پچھلے پندرہ دن سے بند کررکھا ہے اور پاکستان کی وفاقی حکومت کام نہیں کررہی اور یہ بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ایک طرف’’ سٹیٹس کو‘‘ کی قوتیں ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والی قوتیں ہیں۔ اور ایسی بحرانی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیسری قوت دراندازی کرتی ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ تیسری قوت کی دراندازی کے لیے space کم ہے۔

انڈیا پچھلے تین ماہ سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ اور پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے کوئی احتجاج تک نہیں ہورہا۔ ان حالات میں اگر پاکستان میں کوئی نیشنلسٹ لیڈر آتا ہے تو یہ بھارت اور امریکہ کے گٹھ جوڑ اور مفادات کے منافی ہے۔

جہاں تک پاکستان میں جمہوری نظام کی بات ہے تویہاں 68 سال سے کوئی جمہوریت ہے ہی نہیں ۔قیام پاکستان کے بعد ہم نے 1935 کے انڈین ایکٹ کو معمولی تبدیلی کے بعد نافذ کردیا۔ مگر وہ سامراجی قوتوں کو فائدہ دیتا تھا اور ساری پاورز گورنر جنرل کے پاس ہوتی تھیں۔ بیوروکریسی کے ذریعے حکومت چلتی رہی۔ گورنرجنرل غلام محمد بیوروکریٹ تھے۔ پہلا آئین بھی سول بیوروکریٹ چوہدری محمد علی نے ڈرافٹ کروایا تھا۔دوسرا آئین بھی ایک ملٹری بیوروکریٹ نے تیار کیا تھا۔

1962 میں حکومت کی ساری پاورز سنٹرلائز ہوگئی تھیں۔ بھٹو صاحب خود ایک آمرانہ رویہ رکھتے تھے۔ اس کے بعد ضیاالحق کا آمرانہ نظام حکومت بھی آپ کے سامنے ہے۔ نوے کی دہائی میں ہمیں جمہوریت کاسراب دکھایا گیااور جب مشرف نے مارشل لاء لگایا تو اس نے بین الاقوامی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو چیف ایگزیکٹو کہلوایا۔ آپ دیکھیں کہ زرداری نے تین سال سے زیادہ 17ویں ترمیم کے ذریعے حکومت کی اور جب اٹھارویں ترمیم پاس ہوئی توبھی سارے فیصلے ایوان صدر میں ہوتے رہے اور جس طرح 18ویں ترمیم پاس ہوئی وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔

اٹھارویں ترمیم پاس کرتے وقت بھی پارلیمانی روایات پر عمل نہیں کیا گیااور ایک دن میں ترمیم پاس کردی گئی۔ اور پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہی نہیں کرنے دی گئی۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟ نواز شریف نے بیوروکریسی کے ذریعے حکومت کرنے کے کوشش کی تو اپوزیشن نے سمجھا کہ وہ ہمارے ساتھ صحیح ڈیل نہیں کررہے تو انہوں نے نواز شریف کی بادشاہت کا نعرہ لگادیا۔ بہرحال یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اگر دھرنوں کی سیاست سے عوامی سطح پر موبلائزیشن شروع ہوجاتی ہے توملک میں تبدیلی ناگزیر ہے۔

بریگیڈیئر(ر) اسلم گھمن (دفاعی تجزیہ نگار) 

اللہ تعالیٰ نے ہمیں قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان جیسی آزاد ریاست عطا کی۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ ہم ایک ایسی اسلامی ریاست بناسکیں جس میں رواداری، انصاف اور مساوات ہر شخص کے لیے ہوں گی، پاکستان اسلامی دنیا کے لیے رول ماڈل ہوگا۔

چونکہ میرا نیب، اینٹی کرپشن اور آئی ایس آئی سے تعلق رہا ہے اس لیے مجھے پاکستانی سیاستدانوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔آپ پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو ملک کی آزادی کے ایک سال بعد ہی قائداعظم وفات پاگئے اور کچھ دیر بعد لیاقت علی خان کو بھی قتل کردیا گیا جس کے بعد ملک کی حکومت جاگیرداروں کے ہاتھوں میں آگئی۔ اور جن جاگیرداروں نے انگریزوں کی چاپلوسی کرکے کسانوں کی زمینیں ہتھیائی تھیں وہ آکرملکی اقتدار پر براجمان ہوگئے۔

کسی بھی فلاحی مملکت کا بنیادی اصول انصاف ہوتا ہے جس ملک میں انصاف نہیں ہوگا اس کا وجودمیں رہنا ممکن نہیں ہے۔جب ہمارے سیاستدانوں نے مال ودولت اکٹھا کرنا شروع کردیا تو ہمارے لوگوں نے بھی ان کے دیکھا دیکھی یہی کام شروع کردیا۔ آپ اسلام کی تاریخ دیکھیں تو ہمارے پیارے نبی ﷺؑاور خلفائے راشدین نے اپنے اپنے عہد حکومت میں کبھی جائیدادیں نہیں بنائیں بلکہ انہوں نے تواپنے کاروبار بھی ختم کردیے تھے۔

ایک گورے نے دنیا کی سو عظیم شخصیات پر مبنی ایک کتاب”Hundred Great Personalites of the World” لکھی جس میں حضرت محمد ﷺؑ کا نام سب سے پہلے نمبر پر درج تھا۔اُس نے رسول پاک ﷺؑ کے نام مبارک کو اس منطق کی وجہ سے اپنی فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا کہ اسلام دنیا کا واحد دین ہے جو رسُول اکرم ؐ کے ذاتی کردار اور ذاتی قول و فعل کی وجہ سے پھیلا۔ کافروں نے بھی آپﷺؑ کو صادق اور امین کہا۔ آپ قائداعظم ؒ کی مثال لے لیں۔ قائداعظم انڈیا کے مہنگے ترین وکیل تھے مگر جب پاکستان بنا تو وہ ایک ٹوکن کے طور پر تنخواہ لیتے رہے۔ قائداعظم نے اپنا سب کچھ پاکستان کے نام کردیا تھا، ان کا کوئی بینک بیلنس نہیں تھا۔

مگر افسوس کی بات ہے کہ اس ملک کے حکمرانوں نے اس ملک کو اتنی بے دردی سے لُوٹا کہ وہ یہاں کا سارا پیسہ باہر لے گئے۔ایک آدمی جس کے اربوں روپے باہر کے ملکوں میں ہے ،اور جس کی اولاد باہر کے ملکوں میں رہ رہی ہے ،وہ شخص اگر پاکستان کا خادم ہونے کا دعویٰ کرے تومیرا دل ہرگزیہ بات نہیں مانتا۔ جب ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد پاکستان آئے تو انہوں نے اسلام آباد میں ایک سیمینار میں کہا کہ آپ پاکستانیوں کو جمہوریت کی بات ہی نہیں کرنی چاہیے۔

کیونکہ آپ لوگ تعلیم میں بہت پیچھے ہیں۔ آپ لوگ تعلیم پر جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد خرچ کرتے ہیں جبکہ ہم اپنے ملک میں تعلیم پر جی ڈی پی کا 28 فیصد خرچ کرتے ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے کہوں گا کہ یہ حکمرانوں کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ اگر ایک حکمران پر ایک سال کے اندر اندر اتنی انگلیاں اُٹھ جائیں تو اس کو ملک کی خاطر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ اگر سیاستدانوں کو واقعی یقین ہے کہ وہ شفاف طریقے سے الیکشن جیت کرآئے ہیں تووہ دوبارہ الیکشن کروا کر بھی جیت سکتے ہیں۔

ہم سب چاہتے ہیں کہ اس ملک میں شفاف انتخابات ہوں۔ ہمیں ایسی جمہوریت چاہیے جہاں میرٹ ہو جہاں پڑھے لکھے آدمی آگے سکیںجس ملک میںلینڈ مافیا حکومت کریں گے اس ملک کا کیا حال ہوگا۔ اگر عمران خان نے چار حلقوں کا مطالبہ کیا تھا تو چار حلقے کھلوادیے جاتے، اس میں کیا حرج تھا۔ فوج کی سول معاملات میں ہرگز مداخلت نہیں ہونی چاہیے مگر ملک میں جتنے بھی مارشل لاء لگے ہیں وہ سیاستدانوں کی نالائقی کی وجہ سے لگے ۔مارشلاؤں میں بھی انہی سیاستدانوں نے فوجی حکمرانوں کا ساتھ دیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر سیاستدان واقعی ملک سے مخلص ہیں تو اپنی دولت باہر کے ملکوں سے واپس پاکستان لائیں۔ انہی حکمرانوں کی اولادوں کے اربوں روپے کے گھر باہر کے ملکوں میں ہیں۔ کوریا میں ایک کشتی ڈوبنے کی وجہ سے ریسکیو عملہ لیٹ پہنچنے پر وزیر اعظم استعفیٰ دے دیتا ہے مگر ہمارے ہاں حکمرانوں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ جب تک انصاف نہیں ملتا،اور ہم اپنے ذات کو پیچھے رکھ کر پاکستان کے بارے میں اور نہیں سوچتے تو پاکستان آگے نہیں بڑھے گا۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ (سیاسی تجزیہ نگار)

ہمارے ملک میں نہ توجمہوری کلچر موجود ہے ،نہ ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا کوئی عنصرہے اور نہ ہی سیاست دانوں کا کنڈکٹ جمہوریت سے میچ کرتا ہے۔ یہ صرف ایک نعرہ ہے جو استعمال ہورہا ہے۔ ایک عام شہری کے لیے جمہوریت اور آمریت میں فرق کرنا شاید مشکل ہو۔ اس جمہوری نظام میں نہ تو کسی قسم کا میرٹ ہے اور نہ ہی لوگوں کو کسی قسم کا انصاف ملتا ہے۔ اس نام نہاد جمہوری دور میںایک عام آدمی نے جو بے چینی اور مشکلات دیکھی ہیں شاید وہ آمریت میں بھی نہ دیکھی ہوں۔

جمہوریت میں آپ بہت زیادہ نمائندے اکٹھے کرلیتے ہیں اور ہر نمائندہ اپنی ذاتی مراعات بھی لے رہا ہوتا ہے اور اپنی پوزیشن کو ناجائز طریقوں سے استعمال بھی کررہا ہوتا ہے۔ ایک جمہوری حکومت میں عام آدمی اذیت ناک زندگی گزار رہا ہوتا ہے سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ چونکہ انڈیا اور پاکستان اکھٹے آزاد ہوئے ہیں ۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا ہوگا کہ جمہوریت کے لحاظ سے وہ کہا ں کھڑے ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ 1953 میں بھارت کا آئین بنا اور ان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا کریڈٹ ہے کہ انہوں نے بھارت میں زمینی اصلاحات کرکے وہاں جاگیر داری نظام کا خاتمہ کردیا اور وہاں ایک ایساسسٹم قائم کیا جس میں انہوں نے اداروں کومضبوط کیا اور آزادانہ کام کرنے کا فارمولہ دیا۔

اسی فارمولے کو بھارت کے آنے والے لیڈروں نے آگے بڑھایا اور یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ادارے مضبوط ہوئے۔ کیونکہ اس کی بنیاد ان کے پہلے وزیر اعظم نے رکھی۔ جس کی وجہ سے وہان بہت سے اور ایشوز تو موجود ہیں مگر ان کی جمہوریت بہت مضبوط ہے۔ وہاں کبھی بھی دھاندلی کا شور شرابا نہیں ہوا۔ حالانکہ وہاں الیکشن کمیشن دس دن بعد الیکشن کے نتائج کا اعلان کرتا ہے۔

میں الیکشن کمیشن کی مثال اس لیے دوں گا کیونکہ وہاں الیکشن کمیشن اتنا مضبوط ہے کہ کوئی سرکاری افسر الیکشن کے دنوں میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرے گا۔ ان کا الیکشن کمیشن اتنا بااختیار ہے کہ تمام ادارے اس کی ڈسپوزل پر ہوتے ہیں ‘چاہے وہ عدلیہ ہو، انتظامیہ ہو یا کوئی اور ادارہ ہو۔اور اگر کوئی معمولی سابھی اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے توبھارتی الیکشن کمیشن کے پاس ان ملازمین کو برخاست کرنے کے بھی اختیارات ہوتے ہیں۔

بھارتی الیکشن کمیشن کی ’’کریڈیبلٹی‘‘ اس لیے ہے کہ وہ شفاف انتخابات کو یقینی بناتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں الیکشن کمیشن کا کام صرف نوٹیفکیشن جاری کرنا اور نگرانی کرنا ہے ۔باقی سارا کام نچلی سطح پر ہوتاہے جس میں الیکشن کمیشن کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ہمارے ہاں صرف الیکشن کمیشن ہی ایسا ادارہ نہیں جس کے پاس اختیارات کی کمی ہے اس کے علاوہ بھی ہمارے ہاں ملک کی پارلیمنٹ سمیت بہت سے ادارے ایسے ہیں جنہوں نے کبھی آزادانہ کام نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے ملک میں کرپشن بڑھتی گئی اور سب سے زیادہ کرپشن سیاستدانوں نے کی جنہوں نے جمہوریت کا نام لے کر سوائے اپنی ذات،اپنے خاندانوں اور اپنے عزیز واقارب کو فائدہ پہنچانے کے اور کچھ نہیں کیا لیکن عام آدمی کے لیے تو زندگی اجیرن ہی رہی ہے چاہے کوئی بھی شخص حکومت میں آجائے

سب سے زیادہ اذیت غریب عوام نے اس وقت محسوس کی جب کوئی جمہوری حکومت ہمارے ملک میں آ جائے کیونکہ جمہوری حکومتوں نے عام آدمی کو میرٹ اور انصاف سے بالکل محروم کردیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں شروع میں ’’لینڈ ریفارمز‘‘ نہیں ہوئیں اور جاگیردار طبقہ حکومت پر قابض ہوگیا۔ جاگیردار طبقے نے بیوروکریسی کے ساتھ گٹھ جوڑ قائم کیے اور انہوں نے آپس میں رشتہ داریاں بنائیں۔

اسی طبقے نے ملک میں’’سٹیٹس کو‘‘ تبدیل نہیں ہونے دیا۔ سارے اختیارات انہی کے پاس ہیں۔جب بھی ان کے خلاف آواز اٹھتی ہے تو یہ لوگ ایک دم اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ اور ایسا پہلی دفعہ ہے کہ ان کو ملک کی دو سیاسی جماعتوں نے چیلنج کیا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ احتجاجی جماعتوں کی یہ بات بالکل درست ہے کہ سیاستدان ملک کی پارلیمنٹ سے اتنی زیادہ مراعات حاصل کرتے ہیں حالانکہ پارلیمنٹ میں ان کی خدمات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ 75 فیصد پارلیمنٹرین پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت ہی نہیں کرتے لیکن مراعات وہ ساری لیتے ہیں۔عام آدمی کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اقتدار میں کون بیٹھا ہے ۔ عام آدمی کی زندگی ان کی وجہ سے اجیرن بن گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں زیادہ تر شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔

اگر آپ ایک شخصیت کو ہٹا دیں تو پوری کی پوری پارٹی کا وجود ہی ختم ہوجاتا ہے۔ہمارا پہلا الیکشن پاکستان بننے کے 23 سال بعد 1970 میں ہوا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے بعد کوئی بھی الیکشن شفاف نہیں ہوا۔ 1970 کے انتخابات میں بھی عوام کے مینڈیٹ کو نہیں مانا گیا۔ اسی لیے ملک دولخت ہوگیا۔ پاکستان میں ہمیشہ سیاستدانوں کی حماقتوں کی وجہ سے مارشل لاء لگتے رہے ہیں اور سیاستدان اپنے آپ کو عوام کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے کیونکہ سیاسی جماعتوں کو یہ پتا ہے کہ عوام کے ووٹ سے وہ اقتدار میں نہیں آتے۔ لہٰذا عوام کو سکون پہنچانا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتا۔ جن لوگوں کو وہ اپنا آقا سمجھتے ہیں وہ انہی کے مقاصد کی تکمیل کرتے رہے ہیں۔

آپ سیاسی جماعتوں کے سٹرکچر کو دیکھ لیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ وہ کتنی جمہوریت پسند جماعتیں ہیں۔تمام سیاسی پارٹیوں میں ان کے لیڈر کو عقل کل سمجھا جاتا ہے۔ وہ لیڈر اپنی پارٹی میں’’ فلاسفر کنگ ‘‘کی حیثیت رکھتا ہے۔سیاسی پارٹیوں میں لیڈر سے کوئی اختلاف رکھنے کی جراٗت نہیںکرسکتا۔ پارٹی لیڈر اپنی مرضی پوری پارٹی پر تھوپ دیتا ہے۔ ہر پارٹی کا رکن اپنے لیڈر کی خوشامد کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست میں اس قدر منافقت ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے اراکین باہر ’’آف دی ریکارڈ‘‘ اپنے لیڈروں کو برا بھلا کہتے ہیں مگر اپنے لیڈروں کے سامنے ان کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں۔ اگر آپ دیہاتی علاقوں میں چلے جائیں تو وہاں کے ایم این اے، ایم پی اے لوگوں کو خود ہی جیل میں بھجواتے ہیں اور پھر وہی ایم این اے ‘ایم پی اے ان کو چھڑوا بھی دیتے ہیں۔ یہی سیاستدان بیوروکریسی کے ذریعے غریبوں کو تنگ کرتے ہیں اور پھر ان پر احسان کرکے ووٹ لیتے ہیں ۔

افسوس کی بات ہے کہ اب بھی جنوبی پنجاب میں انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں۔ پاکستان میں 70 فیصد لوگوں کو پینے کا صا ف پانی میسر نہیں ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں بھی آپ دیکھ لیں کہ 11 سیاسی پارٹیاں اس ملک میں’’ سٹیٹس کو ‘‘کو بچانے میں مصروف ہیں۔کوئی الیکشن ریفارمز کی طرف نہیں جارہا ہے۔سوال یہ ہے کہ ان سارے مسائل کا حل کیا ہے۔ سب سے پہلے تو ملک میں انتخابی اصلاحات لائی جائیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ شخصیات کی بجائے پارٹیوں کو مضبوط کیا جائے۔ یہ ضروری نہیں کہ ایک لیڈر پارٹی کا سربراہ بن کر ساری عمر اس پارٹی کو چلائے۔ اگر ہم اس ملک میں جمہوریت کا استحکام چاہتے ہیں تو ہمیں الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ انتخابات کی شفافیت کو ممکن بنانے کے لیے بائیومیٹرک سسٹم متعارف کروایا جائے اور احتساب کے لیے فعال ادارہ بنانے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر فرزانہ ارشد (سیاسی تجزیہ نگار)

میں جمہوریت کو ہی ہر مسئلے کا حل سمجھتی ہوں اور جمہوری رویے سے ہی ملک کو آگے لے جایا جاسکتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا پاکستانی سیاست میں تاریخی طور پر اہم کردار رہا ہے۔ اس وجہ سے یہاں ایک جمہوری کلچر کو صحیح انداز میں پنپنے ہی نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے ہمارے ہاں جمہوری روایات کا فقدان ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں بھی صحیح معنوں میں جمہوری نہیں ہیں۔

دنیا کی تمام بڑی جمہوریتوں میں امریکہ،انگلینڈ اور بھارت وغیرہ کا اگر جائزہ لیں تو وہاں جمہوریت مضبوط ہے جس کی وجہ سے عوام کو فائدہ پہنچتاہے۔وہاں کی سیاسی جماعتیں بہت جمہوری ہیں۔ ان کی قیادت بھی جمہوری روایات پر یقین رکھتی ہے۔ کوئی عام ورکر بھی جماعت کے اہم عہدے پر پہنچ سکتا ہے جس کی وجہ سے وہاں کی سیاسی جماعتوں کی بنیادیں بہت مضبوط ہیں اور ان کی جڑیں عوام میں پائی جاتی ہیں۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔

یہاں صرف جماعت اسلامی ہی ایک ایسی جماعت ہے جس کے اندر باقاعدگی سے الیکشن ہوتے ہیں، آپ صرف اسی جماعت کو جمہوریت پسند جماعت کہہ سکتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو ووٹ حاصل کرنے کی پاور اس جماعت کے پاس نہیں ہے۔ جن جماعتوں کے پاس ووٹ لینے کی پاور ہے ان جماعتوں میں اس طرح کی جمہوریت نہیں ہے جیسی حقیقت میں ہونی چاہیے۔ دونوں بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پچھلے 30-35 برسوں سے اقتدار میں ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ ان جماعتوں کے اندر انتخابات نہیں کروائے جاتے۔

اگر کروائے بھی جائیں تو صرف برائے نام ہی ہوتے ہیں اور ان کی قیادت تک تبدیل نہیں ہوتی۔دراصل ان سیاسی جماعتوں میں شخصیات کی اجارہ داری ہے اور ان سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنی جماعتوں میں آمرانہ رویہ رکھتے ہیں اور پارٹی کے کسی رکن کو ان کے خلاف بات کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ میرے خیال میں جمہوریت ہی ایک ایسا سلسلہ ہے جس سے ملک کی ترقی وابستہ ہے لیکن اس کے لیے سیاستدانوں کو اپنے رویے بھی جمہوری کرنے ہوں گے۔

الیکشن کو شفاف بنانے کے لیے اس طرح کی اصلاحات کرناہوں گی جس سے ایسا سسٹم واضع ہو کہ آئندہ انتخابات میں عوام کام نہ کرنے والی پارٹیوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیں اور کسی پریشر گروپ کی دھمکیوں کی بجائے عوام کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ ایسی پارٹیوں کا احتساب کریں۔ اس کے علاوہ میرے خیال میں اسمبلیوں کی آئینی مدت بھی چار سال کردی جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔