دُکھوں کے اصل ذمے دار

نصرت جاوید  بدھ 26 ستمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اسلام آباد میں مقیم امیر اور طاقتور لوگوں کے ڈرائنگ روموں میں ’’باخبر‘‘ مشہور ہونے کے لیے بہت ضروری ہے کہ آپ آتی جاتی منتخب حکومتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات کا اظہار کرنے سے اجتناب برتیں۔

آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ ہماری ریاست کے قطعی فیصلے اسلام آباد کے دفاتر میں نہیں راولپنڈی کی لال کُرتی کے اُس پار بیٹھے لوگ کیا کرتے ہیں۔

ایک بہت بڑا فیصلہ ساز ادارہ اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ اور آب پارہ چوک کے درمیان بھی قلعہ بند ہوا بیٹھا ہے۔ وہاں کے افسران کی اکثریت کسی نہ کسی حوالے سے آپ کے رشتے دار ہے۔

شادیوں کے ذریعے قائم ہونے والی قربت موجود نہ ہو تو چند افسران اسکول کے زمانے سے آپ کے جگری یار ہوتے ہیں۔ ’’قومی سلامتی کے امور‘‘ پر غور کرتے ہوئے وہ جب کبھی پریشان ہو جاتے ہیں تو آپ سے رجوع کرتے ہیں۔

چونکہ اسلام آباد میں مقیم سفارتکاروں کی ایک بہت بڑی تعداد آپ کے ساتھ گالف کھیلنے کے بعد رات کا کھانا کھانے کے لیے آپ کے ہاں آ جاتی ہے، اس لیے آپ کو اکثر یہ خبر بھی رہتی ہے کہ ہمارے دشمن ملک پاکستان کے خلاف خصوصی اور عالم اسلام کی تباہی کے لیے عمومی طور پر کیسے اور کس طرح کی سازشوں کے جال بچھا رہے ہیں۔

میں تقریباََ 30 سال تک ایسے ’’باخبر‘‘ لوگوں کو تقریباََ روزانہ ہی بھگتا رہا۔ پچھلے چند برسوں سے تھک سا گیا ہوں۔ گوشے میں قفس کے مجھے کافی آرام و سکون ملتا ہے۔

اتفاق کی بات مگر یہ بھی ہے کہ مجھے ہفتے اور اتوار کے دونوں روز ’’باخبر‘‘ لوگوں کی صحبت کو بھگتنے کا موقع ملا۔

دونوں دن سوال یہی تھا کہ جمعے کو ’’عشقِ رسولﷺ‘‘ کے نام پر پشاور سے کراچی تک جو آگ لگی اس کے ’’پیچھے‘‘ کون تھا۔ اس بات پر تو فوری اتفاق پایا گیا کہ ’’مکار و ہوشیار‘‘ آصف علی زرداری نے راجہ پرویز اشرف کو یہ دن منانے کا حکم جاری کیا تھا۔

یہ الگ بات ہے کہ راجہ صاحب کو ہڑتال کرانے کے احکامات صادر فرما کر موصوف پہلے دبئی پھر لندن اور بالآخر نیویارک پہنچ گئے۔

میں نے ڈرتے ڈرتے یاد دلانے کی کوشش کی کہ ’’چالاک زرداری‘‘ کافی احکامات صادر فرمایا کرتے ہیں۔ گیلانی صاحب کے دنوں میں اکثر احکامات نرگس سیٹھی صاحبہ کے دفتر میں موجود ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے جاتے یا درشتگی کے ساتھ ایوان صدر سے فون کرنے والوں کو بتا دیا جاتا کہ صدر زرداری کے احکامات کی تعمیل ممکن نہیں۔

’’باخبر‘‘ لوگوں نے میری اس بات کی تردید نہ کی بلکہ ارشاد فرمایا کہ گیلانی صاحب کو سپریم کورٹ کے خلاف ڈٹ جانے کا مشورہ دے کر انھی باتوں کی وجہ سے ان سے ’’جان چھڑائی‘‘ گئی ہے۔ راجہ صاحب اس ’’حقیقت‘‘ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ روبوٹ کی طرح سر جھکائے تعمیل پر تعمیل کرتے رہیں گے۔

اسی لیے تو فاروق نائیک صاحب کی دانش مندانہ حکمت عملی کے ذریعے ان کے لیے وزیر اعظم کے عہدے پر مزید کئی ہفتے قائم رہنے کا انتظام بھی کر لیا گیا ہے۔

بجائے راجہ صاحب کی ’’عاجزانہ تابعداری‘‘ کے تاثر کو چند واقعات کے ذریعے جھٹلانے کے میں نے بڑے خلوص سے یہ جاننے کی کوشش شروع کر دی کہ ’’مکار و ہوشیار زرداری‘‘ کو جمعے کو آگ و خون کے مناظر دکھانے سے کیا فائدہ ہوا۔

میری ناقص رائے میں اندرون و بیرون ملک تاثر تو یہی پھیلا کہ ان کے زیر سرپرستی چلنے والی حکومت بہت کمزور ہے۔ اسلام آباد سے بھی کہیں زیادہ تباہی پشاور اور کراچی میں نظر آئی۔

ان دونوں شہروں میں پیپلز پارٹی کی اپنے بڑے ہی طاقتور اتحادیوں کی حمایت سے بنی حکومتیں قائم ہیں۔ ان حکومتوں کی مشتعل ہجوموں کے ہاتھوں بے بسی تو آصف علی زرداری کی کمزوری کو بے نقاب کرنے کا سبب بنی ہے۔

میری اس رائے کے اظہار کے بعد میں جن محفلوں میں بیٹھا تھا وہاں موجود لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے۔ محض چند نے میری اس رائے سے اتفاق کیا۔ مگر ’’باخبر‘‘ لوگوں کی اکثریت نے دوسروں کی ذلت سے لطف اُٹھانے والی مسکراہٹوں کے ساتھ مجھے سمجھانا چاہا کہ ’’جن لوگوں‘‘ نے آصف علی زرداری سے جمعے کو ہڑتال کرانے کا فیصلہ کرایا ’’وہ یہی تو چاہتے تھے۔‘‘

گستاخانہ فلم کے یوٹیوب پر آ جانے کے بعد مصر، تیونس اور لیبیا میں جو کچھ ہوا اس نے امریکی ریاست کے فیصلہ ساز اداروں پر اثر رکھنے والے لکھاریوں کو ایسے مضامین لکھنے پر مجبور کر دیا جن کے ذریعے اصرار کیا جا رہا ہے کہ ’’اپنی ترکیب میں خاص قوم رسول ہاشمی ﷺ کو آمریت ہی راس ہے۔ ‘‘

یہ جمہوریت کے قابل ہی نہیں۔ ’’وحشیانہ جذبات‘‘ سے بھرے لوگوں کا ایک ہجوم ہے جسے صرف ڈنڈے اور وردی والا آمر ہی قابو میں رکھ سکتا ہے۔ جمعے کو پاکستان میں ہونے والے پر تشدد واقعات نے ان لکھاریوں کی سوچ کو مزید تقویت دی ہے۔ امریکا کو پیغام مل گیا ہے کہ پاکستان کے ذریعے افغانستان سے اپنے فوجیوں کی عزت و جان بچا کر نکلنا چاہتے ہو تو آصف علی زرداری اور اس کے ’’نااہل اور بدعنوان حواری‘‘ کسی کام نہ آ سکیں گے۔

ان ہی اداروں اور قوتوں سے رجوع کرنا پڑے گا جو 1950 کی دہائی سے “Deliver” کررہے ہیں ۔

جس رعونت بھری قطعیت کے ساتھ مجھے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی، اس کے بعد مجھے مزید کوئی سوال کرنے کی جرأت ہی نہ ہوئی۔ ویسے بھی دونوں محفلوں میں جہاں میں ہفتے اور اتوار کو گیا، کھانا بہت لذیذ تھا۔ میں نے ’’مائیک‘‘ باخبر لوگوں کے ہاتھوں میں ہی رہنے دینے پر اکتفا کیا۔

یہ الگ بات ہے کہ آج صبح سے میں اس سوچ میں مبتلا ہوں کہ ہمارے ہاں کے غیر ملکی یونیورسٹی سے پڑھے، لاکھوں کروڑوں کا دھندا کرنے والے طاقتور لوگ سامنے نظر آنے والی بنیادی حقیقتوں کو دیکھ کیوں نہیں پا رہے۔ جمعے کو جو کچھ نظر آیا، وہ اس ملک میں پہلی بار نہیں ہوا۔ میں 1947 سے شروع نہ کرنا چاہوں گا۔

صرف وہ مناظر یاد کر لیجیے جو نواب اکبر بگٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد سندھ اور بلوچستان میں نظر آئے۔ عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے دوران معاملات قابو میں رہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ احتجاجی قافلوں کی ر ہنمائی ایک جیپ کیا کرتی تھی جس میں ان دنوں معزول چیف جسٹس بیٹھا کرتے تھے اور ڈرائیور کی نشست اعتزاز احسن کی ہوا کرتی تھی۔

پشاور، راولپنڈی اور کراچی میں سڑکوں پر ٹائر جلانے، بینکوں کو لوٹنے اور سینما گھروں کو جلانے والوں کا کوئی ’’والی وارث‘‘ نہ تھا۔ وزیر اعظم نے دن کا آغاز ضیاء الحق مارکہ شیروانی پہن کر وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں بنے ہال میں ایک ’’قومی کانفرنس‘‘ سے خطاب سے کیا اور پھر کہیں نظر نہ آئے۔

قوم کی غیرت کو روزانہ کسی نہ کسی ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر جھنجھوڑنے والے اس روز سڑکوں پر قیادت کرتے نظر نہ آئے۔ لال حویلی کے مکین نے لوگوں کی ایک ’’ٹکڑی‘‘ سے خطاب کر کے اخباروں کے لیے تصویر بنائی۔

عمران خان صاحب کو البتہ ان کے مداحین ایسے یک و تنہا رہنما کے طور پر پیش کر رہے ہیں جو جمعے کو ’’عوام میں گھلا ملا نظر آیا۔‘‘ تبدیلی کے نشان والے انٹرنیٹ کی دنیا کے بادشاہ ہیں۔ ان کے ہیرو نے ایک ٹرک پر کھڑے ہوکر آٹھ منٹ کی جو تقریر کی وہ آسانی سے کمپیوٹر پر سنی جا سکتی ہے۔

اس کے ابتدائی چند منٹوں میں عمران خان نے پورا زور لگا کر سمجھانا چاہا کہ وہ مغربی دنیا سے بہت واقف ہیں۔ اسے گستاخانہ حرکتوں سے روکنے کے لیے ایک طویل المدت حکمت عملی درکار ہے جو صرف ان کے پاس ہے اور جلد ہی اسے بروئے کار بھی لائیں گے۔

یہ کہنے کے بعد پانچ منٹ تک وہ یہ بتانا شروع ہو گئے کہ غیر ملکی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ 6 اکتوبر کے دن ان کا جنوبی وزیرستان کم از کم ایک لاکھ پاکستانیوں کے ساتھ پہنچ جانا ڈرون حملوں کو روکنے میں کیسے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ تقریر کرنے کے بعد وہ بھی پتہ نہیں کہاں چلے گئے۔

سیدھی سی بات ہے۔ پاکستان کے عوام کی بے پناہ تعداد بھوک اور بے روزگاری سے تنگ آ چکی ہے۔ آزاد عدلیہ اور میڈیا کے ذریعے انھیں اب پتہ چل گیا ہے کہ ’’نااہل اور بدعنوان سیاستدان‘‘ ان کے دُکھوں کے اصل ذمے دار ہیں۔ وہ کسی بھی طور پر خوش حال نظر آنے والے لوگوں سے نفرت کرتی ہے۔ اسے اپنے غصے کے اظہار کا ذرا سا موقع ملے تو وہی کچھ کرتی ہے جو جمعے کو ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔