(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - ریویو؛’’سنگھم‘‘ کی واپسی

اقبال خورشید  جمعـء 29 اگست 2014

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

بھئی آرٹ فلمیں ہمیں بھاتی تو ہیں، پر دل کے قریب وہ فلمیں ہیں، جن میں ’’آرٹسٹ ٹچ‘‘ کے ساتھ بنیادی تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا گیا ہو۔ ہم تو منی رتنم کے مداح۔ اُسے مہان ڈائریکٹر گردانتے ہیں۔ اور اس کی فلمیں نیاگن، ممبئی، دل سے، یوا اور گرو کو وقت کا بہترین مصرف خیال کرتے ہیں۔ اور وشال بھردواج کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ مقبول، اوم کارا، کمینے، کیسے کیسے شاہ کار دیئے۔ البتہ یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ کمرشل فلمیں بھی ہمیں خوب لطف دیتی ہیں۔ یار دوست ناک بھوں چڑھاتے ہیں، تو چڑھاتے رہیں، مگر ہمیں کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مصالحہ فلم بھی وقت کا برا مصرف نہیں۔ بھئی، کچھ دیر کو ذہن اردگرد پھیلے انتشار کو بھول جاتا ہے۔ کچھ قہقہے، کچھ گانے، تھوڑا ایکشن، اس میں برائی ہی کیا ہے۔

کمرشل فلموں کی بات ہو، تو روہت شیٹھی کا نام ضرور آتا ہے کہ موصوف گول مال سے شروع ہونے والے اپنے سفر میں خاصا پیسہ کما چکے ہیں۔ اور جب پیسہ آتا، تو عزت بھی مل ہی جاتی ہے۔ یہی دنیا کا دستور۔ کچھ ہدایت کار کمرشل فلمیں بناتے سمے بھی منطق کا دامن تھامے رکھتے ہیں، البتہ گاڑیوں کو ہوا میں اڑانے والے روہت ان جھنجھٹوں میں نہیں پڑتے۔ دھماکے دار فلم بناتے ہیں، اور باکس آفس پر راج کرتے ہیں۔ پانچ بار سو کروڑ کی حد عبور کر چکے ہیں۔

کچھ روز ہوئے، ان کی فلم سنگھم ریٹرنز آئی۔ اُن دنوں ہمارے ہاں انقلاب اور آزادی مارچ کا چرچا تھا۔ عمران خان اور طاہر قادری سے اختلاف اپنی جگہ، مگر ان کے دھرنے تفریح کا خاصا سامان رکھتے تھے۔ وقت اچھا گزر جاتا تھا۔ اسی دوران ڈھائی گھنٹے پر مشتمل سنگھم ریٹرنز دیکھی، تو خیال گزرا، دونوں فلموں میں کون سے زیادہ پرلطف ہے۔ دھرنے یا سنگھم؟

فوٹو: فیس بک

اس سوال کو فی الحال جانے دیتے ہیں، توجہ فلم پر مرکوز رکھتے ہیں۔ کچھ برس پہلے جب سنگھم آئی، تو خوب چرچا ہوا۔ فلم نے 100 کروڑ کئے۔ اجے اور روہت سینہ پھلائے سڑکوں پر گھومتے رہے۔ تب سے خبر گرم تھی کہ فلم کا اگلا حصہ بھی آئے گا، مگر چنائی ایکسپریس کا جشن منانے کے بعد ہی روہت اس جانب متوجہ ہوئے۔ رواں برس فلم ریلیز ہوئی۔ اب تجزیہ کرنے بیٹھے ہیں، تو بتا دیں کہ یہ پہلے پارٹ سے تو بہتر نہیں۔ اُس میں تو پرکاش راج جیسا بڑھیا اداکا ر منفی کردار نبھا رہا تھا، اس کا بھلا کیا موازنہ۔ مگر یہ بھی دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ سنگھم کی واپسی نے کمرشل فلموں کے مداحوں کو مایوس نہیں کیا بلکہ اجے دیوگن کے چاہنے والے تو بغلیں بجا رہے ہوں کہ فلم ٹھیک ٹھاک بزنس کر چکی ہے۔


فوٹو: فیس بک

فلم کا اسکرپٹ ویسا ہی ہے، جیسا روہت کی فلموں کا ہوتا ہے۔ ہاں، بہ طور ہدایت کار ان میں نکھار آتا جارہا ہے۔ کہانی تو اشتہارات دیکھ کر آپ کو پتا چل ہی گئی ہوگی۔ اجے نے بھرپور اداکار کی۔ کرینہ کے کردار کی ناقدین تعریف تو کر رہے ہیں، مگر ہمارے نزدیک یہ ویسا ہی تھا، جیسا کمرشل فلموں میں ہیروئن کا ہوتا ہے۔ باقیوں نے کام اچھا کیا۔ خصوصاً ٹی وی شو سی آئی ڈی سے شہرت پانے والے دیا نے۔ موسیقی بری نہیں تھی۔ ہم تو پانچ میں تین اسٹاد دیتے، مگر روہت ہمارا دوست ہے۔ تو آدھا اسٹار اور دیا۔ ریٹرنگ ٹھہری3.5۔

فوٹو: فیس بک

یاد آیا، فلم کے ساتھ ایک فساد بھی نتھی ہے۔ انتہا ہندو اس پر بہت ناراض ہوئے۔ کہنے لگے، فلم میں ہندومت کا تو مذاق اڑا گیا ہے، اسکرپٹ رائٹر مسلمان ہیں، اور ان کا مقصد ہندوؤں کو نیچا دکھانا ہے۔ سچی بات ہے، انتہاپسندی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ایک جعلی گرو جی کو ولن کے روپ میں پیش کرنا اگر ہندومت کا مذاق اڑانا ہے، تو شاید ہندوستانی تاریخ کی بہت سی فلمیں متنازع ٹھہریں۔ اور درگاہوں پر فلمائی جانے والی قوالیوں کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہوگی۔ اس طرح کے اعتراضات افسوس ناک ہیں۔

خیر، ہم سنگھم ریٹرنز کی بات کر رہی تھے، جس نے ہمیں خاصی تفریح فراہم کی۔ البتہ ہم اب بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ کون سی فلم زیادہ پُرلطف تھی، سنگھم ریٹریز یا وہ جو اسلام آباد میں پیش کی گئی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اریویولکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

iqbal khursheed

اقبال خورشید

اقبال خورشید فکشن نگار، صحافی اور کالم نویس ہیں۔ اُن کے نوویلا ”تکون کی چوتھی جہت“ کو محمد سلیم الرحمان، ڈاکٹر حسن منظر، مستنصر حسین تارڑ اور مشرف عالم ذوقی جیسے قلم کاروں نے سراہا۔ انٹرویو نگاری اُن کااصل میدان ہے۔ کالم ”نمک کا آدمی“ کے عنوان سے روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔