دھرنے اور ماضی کی باتیں

نصرت جاوید  ہفتہ 30 اگست 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

لمحہ بہ لمحہ ڈرامائی انداز میں بدلتے ہوئے حالات میں محصور بیٹھے اب کیا ہو گا ٹائپ کالم لکھنا کم از کم میرے تو بس کی بات نہیں۔ دیدہ ور میں ہوں نہیں اور نہ کسی ایسے مرشد نے کبھی سر پر دستِ شفقت رکھا جو اپنے کشف و وجدان کی دولت سے مالا مال قلب پر مستقبل کی جھلکیاں دیکھ لیتے ہیں۔ ’’باخبر‘‘ شخصیات اور اداروں کے ہمارے شعبے میں بہت سارے چہیتے پہلے ہی سے موجود ہیں۔ قطار میں لگ بھی گیا تو باری آنے تک بہت دیر ہو جائے گی۔

سیاسی معاملات پر کئی برس تک عام مشقتی کی طرح رپورٹنگ کرنے کے بعد سیکھا ہے تو بس اتنا کہ جب کوئی ٹھوس خبر ہاتھ نہ لگے مگر لکھنا بھی ضروری ٹھہرے تو ایک کونے میں دبک کر بیٹھ جائو۔ یوگی آسن جما کر خود کو موجود سے جدا کر کے کچھ سکون حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاسی امور پر لکھنے والوں کو ایسا کرنے کی سہولت میسر نہیں۔

بہتر یہی ہے ذرا ٹھنڈے انداز میں اس بات پر غور کر لیا جائے کہ ’’آزادی‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ پاکستان کو ایک ہی دن میسر آ گئے تو پھر کیا ہو گا۔ اس سوال کے بارے میں کئی بار سوچا مگر کوئی قابلِ ذکر نقشہ دریافت نہ ہو پایا۔ ذہن جب دور کی کوئی رنگین کوڑی نہ ڈھونڈ پائے تو زیادہ بہتر ہے کہ ماضی کو یاد کر لیا جائے۔

زیادہ Safe کھیلنے کے چکر میں پاکستان کے ماضی کا کوئی حوالہ دینے سے جان بوجھ کر اجتناب برت رہا ہوں اور پناہ لے رہا ہوں اپنے ہمسایہ ملک ایران کی حالیہ تاریخ کے چند واقعات بیان کرنے میں۔ زیادہ تفصیل میں جائے بغیر تمہید بس اس حقیقت کے بیان سے شروع ہوتی ہے کہ ایران کوئی نوزائیدہ ملک نہیں ہے۔ یہ صدیوں پرانا ملک ہے جس کی تہذیب بہت قدیم اور تاریخ سیکڑوں انقلابی واقعات سے بھری پڑی ہے۔

ترکی کی طرح یہ ملک بھی سامراجی نظام کے عروج کے دنوں میں براہِ راست کسی غیر ملکی قوت کا محکوم نہیں رہا۔ اس کے زوال کے ایام میں البتہ روس، برطانیہ اور فرانس اسے بالواسطہ کنٹرول کرنے کی کاوشوں میں مصروف رہے۔ روس چونکہ اس کا ہمسایہ ملک بھی تھا اس لیے یہاں کے لوگوں نے اس کے فوجی تسلط سے بچنے کے لیے زیادہ تر برطانیہ کی پشت پناہی کو ترجیح دی۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد برطانیہ کی جگہ امریکا نے لے لی۔ امریکا نے مگر اس ملک پر تسلط کی راہ ڈاکٹر مصدق کی قوم پرست حکومت کا سی آئی اے کے ذریعے تختہ الٹنے کے بعد نکالی تھی۔

مصدق کے بعد امریکا نے ایران کو مطلق العنان بادشاہت میں واپس دھکیل دیا۔ شاہ کی مطلق العنان حکومت کے خلاف مزاحمت مگر مسلسل موجود رہی۔ پہلے پہل وہاں کی تودہ پارٹی اس مزاحمت کا ہراول دستہ تھی۔ سرد جنگ کی وجہ سے شاہ نے امریکا اور اسرائیل کی مدد سے عمومی طور پر کمیونسٹ گردانی جانے والی اس جماعت کو وحشیانہ ریاستی تشدد کے ذریعے بالآخر مکمل طور پر مفلوج کر دیا۔ کمیونسٹوں کا خاتمہ کرنے میں ریاست کو آسانی اس لیے بھی ہوئی کہ انھیں روس کے ایجنٹ سمجھا جاتا تھا اور روس وہ ہمسایہ تھا جس سے ایرانی عوام کی اکثریت تاریخی طور پر ہمیشہ خائف رہی تھی۔

تودہ پارٹی کی ناکامی کی دوسری اہم وجہ یہ بھی رہی کہ ایرانی عوام کے بہت لبرل ہوئے حلقے بھی ہمیشہ اپنے مسلک کے ساتھ جذباتی طور پر وابستہ رہے۔ وہاں کا دکاندار اور تاجر طبقہ اس مسلک کے علماء کو ایک منظم انداز میں کئی صدیوں سے گراں قدر سرمایہ بھی مہیا کرتا رہا۔ ایران کے شہری متوسط طبقات کے ایسے جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ڈاکٹر علی شریعتی جیسے دانشور نمودار ہوئے۔

انھوں نے ایرانیوں کے Collective Unconscious اور عوام میں مقبول مذہبی اور ثقافتی علامات کو پوری طرح سمجھتے ہوئے ایک ایسا مسحور کن بیانیہ مرتب کیا جس نے سوچنے سمجھنے والے نوجوانوں کے قلب کو گرما دیا۔ ایسے ہی نوجوان بالآخر مجاہدینِ خلق کی صورت ہمارے سامنے آئے۔ شاہ ایران کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز بھی انھوں نے کیا تھا۔ ان کی شاندار جدوجہد نے شاہ ایران کی حکومت کو کئی حوالوں سے مجبور اور بے کس ضرور ثابت کر دیا مگر ’’ایک دھکا اور دو‘‘ کے لیے جو عوامی لہر درکار ہوتی ہے وہ ان نوجوانوں کو میسر نہ آ سکی۔

امام خمینی کی اصل ذہانت مدرسوں اور مساجد کے نظام کو ایسی  Mass Mobilization کے لیے استعمال کرنے کے ذریعے آشکار ہوئی۔ بالآخر شاہ ایران کو اپنے ملک سے فرار ہونا پڑا۔ امام خمینی وطن لوٹ آئے۔ گاندھی کی طرح انھوں نے اپنے لیے کوئی سیاسی عہدہ حاصل نہ کیا اور قم کے خانقاہی مدرسے میں قائم اپنے حجرے میں جا کر بیٹھ گئے۔ ایرانی عوام کی بے پناہ اکثریت نے انھیں مگر انقلاب کا ’’روحانی قائد‘‘ تسلیم کرلیا۔

امام خمینی کے وطن لوٹ آنے کے بعد مجاہدینِ خلق سے وابستہ نوجوانوں اور بنی صدر جیسے انقلابی Technocrats نے مگر یہ فرض کر لیا کہ غیر ملکی یونیورسٹیوں سے مختلف شعبوں کے Experts بن جانے کی وجہ سے ’’روحانی امور‘‘ بھلے امام خمینی اور ان کے پیروکاروں کے ہاتھ رہیں، روزمرہّ کے ریاستی امور چلانے کے لیے ان کی پیشہ وارانہ مہارت مسلسل درکار رہے گی۔ یہ مہارت بتدریج انھیں تمام ریاستی امور طے کرنے کے ضمن میں مکمل بااختیار اور مقتدر بنا دے گی۔ ایسا مگر نہ ہو پایا۔

انقلاب کے بعد کسی ملک میں ’’طاقت کا سرچشمہ عوام‘‘ بن جائیں تو اصل سیاسی قوت ان ہی لوگوں کے پاس رہتی ہے جو عوام کو ایسے جذباتی نعروں سے جن کی بنیاد مذہبی اصولوں پر ہو ہمہ وقت متحرک کر سکیں۔ امام خمینی دریں اثناء نئے آئین کے تحت ’’ولایتِ فقہیہ‘‘ بھی بن چکے تھے اور اس سے بھی زیادہ ظلم یہ ہوا کہ صدام حسین نے ایران پر حملہ کر دیا۔ ’’عرب اور عجم‘‘ کی ایک اور جنگ چھڑگئی۔

انقلابی Technocrats اس جذباتی فضاء میں یک و تنہا ہو گئے۔ سیکڑوں لوگوں کو غداری کے الزام میں سر عام موت کی سزائیں ہوئیں۔ جو بچ رہے وہ ان دنوں امریکا اور فرانس جیسے ملکوں میں بیٹھے قدیم ایرانی شاعری سنتے ہیں اور اپنا انقلابی ماضی یاد کرتے ہوئے دُکھ بھری کہانیاں، نظمیں اور ڈرامے وغیرہ لکھتے رہتے ہیں۔

میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب انقلاب کے بعد ہمارے ’’روحانی قائد‘‘ بن جائیں گے۔ اگرچہ انگریزی زبان میں لکھنے والے کئی جید کالم نگار مسلسل دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی صورت میں بالآخر پاکستان کو اسلام کا ایک Soft اور Moderate چہرہ نصیب ہو گیا ہے۔ علامہ صاحب کے دھرنے میں شریک خواتین کی مؤثر تعداد کو Women Empowerment وغیرہ بھی کہا جا رہا ہے۔

میں نے ڈاکٹر شریعتی اور ان کے پیروکاروں کو یاد کیا تو صرف یہ سوچتے ہوئے کہ ’’آزادی مارچ‘‘ میں ساون بھادوں کے دُکھ سہتے میرے نوجوان بچے ’’انقلاب‘‘ آ جانے کے بعد کیا کریں گے۔ معاملہ ان کا کچھ اس لیے بھی سنگین نظر آ رہا ہے کہ اب علامہ صاحب کو ’’98 فی صد‘‘ کی نمایندگی کی دعوے دار جماعت کی کھلی حمایت بھی میسر آ گئی ہے جسے پاکستان کے معاشی Hub میں ایک نہیں ہزار دھرنے جمانے کے ہنر پر کامل قدرت حاصل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔