آج پھر سقراط کا زمانہ ہے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 30 اگست 2014

مستقبل لکھا ہوا نہیں ہوتا اور نہ ہی مستقبل کوئی ایسی چیز ہوتا ہے جس میں آپ داخل ہوجائیں بلکہ مستقبل وہ چیز ہے جو ہم خود بناتے ہیں ہمیں کبھی پیچھے کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ ہم اس راستے پر نہیں جارہے ہیں۔ ہرکامیاب آدمی کے پیچھے لاتعداد ناکامی کے سال ہوتے ہیں ہمارا بہترین استاد ہماری غلطیاں ہونی چاہیں۔ ماریا روبنسن نے ٹھیک کہا ہے کہ کوئی بھی ماضی میں جاکر نئی شروعات نہیں کر سکتا لیکن ہم آج نئی شروعات کرکے ایک نیا اور خوشگوار مستقبل بنا سکتے ہیں۔

یہ زندگی کا اصول ہے کہ آپ نے وقت کے ساتھ ساتھ سفر کرنا ہے اگر آپ وقت کے ساتھ سفر نہیں کر یں گے تو وقت آگے نکل جائے گا اور آپ پیچھے رہ جائیں گے ۔ ڈیکارٹ نے کہا تھا ’’میں سوچتا ہوں اس لیے میں موجود ہوں‘‘ آئیں ہم بے باکی سے آتش نمرود میں کود پڑیں اور اپنے مسائل کا اسی طرح مطالعہ کریں کہ ہر جز کل میں سما جائے ہمارا علا ج فکرو نظر کے سوا کچھ نہیں انسانی کردار اور ایمان میں کبھی بھی اتنی گہری اور خطرناک تبدیلیاں نہیں ہوئیں جتنی آج کل ہو رہی ہیں، آج پھر سقراط کا زمانہ ہے۔

ہماری اخلاقی زندگی خطرے میں ہے آج ہم انسانیت کے چیتھڑے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں،آج ہم سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ زندگی کے سارے پہلوئوں کا جائزہ لے سکے، زندگی کے اس ڈرامے میں ہر شخص کو اپنا پارٹ تو یاد ہے لیکن وہ اس کے مطلب سے نابلد ہے زندگی بے معنی ہورہی ہے۔

کسی زمانے میں عظیم شخصیتیں سچائی کے لیے جان دینے کے لیے تیار رہتی تھیں۔ سقراط نے اس کے لیے دشمنوں سے بھاگنے کے بجائے جام شہادت پینا منظور کیا ، افلا طو ن نے اس کے لیے ایک ریاست قائم کرنے کی خاطر دومرتبہ اپنی جان خطرے میں ڈالی، مارکس اور پلیٹس کو تخت و تا ج سے زیادہ اس سے محبت تھی، برونو اس کا وفادار ہونے کے جرم میں آگ میں جلا دیا گیا۔ کسی زمانے میں کلیسا اور حکومتیں اس سے کانپتی تھیں اور اس کے نام لیوائوں کو اس لیے قید و بند میں ڈال دیتی تھیں کہ ان کی وجہ سے حکومتوں کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا تھا۔

دوسری طرف ہم ہمیشہ بہرے بنے رہے ہمارے سامنے سچ بار بار آکے چلاتا رہا دہائیاں دیتا رہا لیکن ہم میں کبھی اسے سننے کی ہمت اور جرأت نہ ہوسکی جب بھی وہ ہمارے سامنے آتا ہم اس سے خو فزدہ ہوکے اس سے ڈر کر بھاگ کر چھپ جاتے لیکن ہماری تمام تر بزدلی اور ڈر و خوف کے باوجود ہم سچ سے نہ چھپ سکے۔ آج سچ پوری قوت اورطاقت کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑا ہے اب ہمارے پاس نہ بھاگنے کی کوئی جگہ باقی بچی ہے اور نہ چھپنے کی ۔

آج سچ چیخ رہا ہے کہ ہم نے اپنے لوگوں کا کیا سے کیا حال کر دیا ، اپنے ملک کو تباہی اور دیوالیے کے دہانے لاکھڑا کر دیا ہے آج پورے ملک میں خاک اڑاتی پھر رہی ہے۔ بربادی وحشیانہ رقص میں محو ہے موت دیوانہ وار قہقہے لگا رہی ہے ،آج ہمارا ملک ایسا ملک بن گیا جہاں سیاست دان جمہوریت کے نام پر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں جہاں علما مذہب کے نام پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں مصروف ہیں۔

جہاں بزنس مین اپنے منافع کی خاطر لوگوں کو زندہ درگور کرنے تلا بیٹھا ہے جہاں جا گیردار ذرا سی بات پہ اپنی تسکین کی خاطر اور دھاک بٹھا نے کے لیے بے کس و بے بس کسانوں کی بیٹیوں کی عزت تار تار کر دیتے ہیں جہاں ڈاکٹر کو مریض کی زندگی بچانے کے بجائے اپنی فیس کی زیادہ فکر ہوتی ہے۔ جہاں شرافت ، تعلیم، تہذیب وتمدن، اخلاص، خلوص محبت کو کوئی ٹین ڈبے والا بھی نہیں خریدتا ، جہاں رشتوں کے لیے لڑکیوں کا معائنہ بھیڑ بکریوں کی طرح ہوتا ہے جہاں ہر جائز کام ناجائز طریقے سے انجام پاتاہے اور ہر ناجائز کام جائز طریقے سے ہوتا ہے۔

جہاں تھانے، نوکریاں، ٹھیکے سر عام بکتے ہیں جہاں کفن تابوتوں، رشوت، کمیشن کا کاروبار دن رات ترقی کرتا جا رہا ہے جہاں مزدوروں کا دن رات خون پیا جا رہا ہے ۔ جہاں ہر دو نمبر کام عروج پر ہے، جہاں عقل سے پیدل تہذیب و تمدن سے عاری سمجھ و دانش سے محروم نرے جاہل عقل مندوں، تعلیم یافتہ ، دانش مندوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں۔

جہاں ابن الوقتوں، مفاد پرستوں، لٹیروں کی چاندی ہی چاندی ہے جہاں عوام کے ٹیکسوں پر چند ہزار لوگ عیش و عشرت میں غرق ہیں جہاں ٹیکس دینے والوں کے گھروں میں ماتم برپا ہے وہیں اس ٹیکس کے روپوں سے چند لوگ عیاشیوں میں مصروف ہیں وہ یا ان کے پیارے بیمار پڑیں تو وہ اپنا علاج خیراتی اسپتال میں کروانے پر مجبور ہیں جہاں وہ بغیر دوائی یا دو نمبر دوائی کی وجہ سے سسک سسک کر جان دینے پر مجبور ہیں جب کہ وہ لوگ جو ان کے ٹیکسوں کی وجہ سے زندہ ہیں وہ بیمار ہوں تو اپنا علاج بیرون ملک کرواتے ہیں ۔

ٹیکس دینے والوں کے بچے پیلے اسکول سے پڑھیں اور ان لٹیروں کے بچے عالیشان، ایئرکنڈیشنڈ انگلش اسکولوں سے تعلیم حاصل کریں ، ٹیکس دینے والوں کے بچوں کے لیے مالی اور چپڑاسی کی نوکری نصیب بنا دی گئی ہے اور تمام اعلیٰ اور منافع بخش نوکریاں وہ اپنے پیاروں میں تقسیم کردیتے ہیں ۔ بے حسی کی حد ہوگئی ہے اگر جمہوریت اس کا نام ہے تو افسوس ہے ایسی جمہوریت پر۔

67 سالوں سے سنتے آرہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گذر رہا ہے عوام قربانیوں کے لیے تیار ہوجائیں بجلی ، پیٹرول ، گھی ، آٹا ، گیس ، چاول ، چینی میں اضافہ کرنا ناگزیر ہوگیا ہے، ساری کی ساری قربانیاں عام لوگ دیں اور عوام کے ٹیکسوں پر یہ زندہ صرف عیاشیاں ہی عیاشیاں کرتے رہیں۔ آپ ایک چھوٹا سا تجربہ کر کے دیکھ لیں آپ کسی ارکان پارلیمنٹ ، بیورو کریٹس، جاگیردار ، سر مایہ دار کے بچوں کی شادی یا موت میت میں جاکر معائنہ کرلیں آپ ان کی شان وشوکت ، ان کے کھانے، ان کے لباس ہیرے جواہرات دیکھ کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھیں گے۔

کیا یہ ملک اس لیے حاصل کیاگیا تھا کہ عوام قربانیاں دیتے رہیں فاقے کرتے رہیں خود کشیاں کرتے رہیں ، ماتم کرتے رہیں اور ان کے پیسوں پر چند ہزار لوگ عیاشیوں میںغرق رہیں ۔ حضرت علی کا قول ہے کفر کا معاشرہ قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں ۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ ظلم کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے ۔یہ طے ہے کہ اب انجام دور نہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔