وقت کرتا ہے پرورش برسوں

رئیس فاطمہ  اتوار 31 اگست 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ قابلؔ اجمیری کا یہ شعر اپنی تمام تر سچائیوں اور سفاکیوں کے ساتھ کبھی یوں بن کر میرے سامنے آ جائے گا کہ میری آنکھیں ہی نہیں بلکہ پورا وجود لہولہان ہو جائے گا۔ میں نے اکثر اپنے کالموں میں شادی شدہ خواتین کے ان منفی رویوں کی جانب قارئین کی توجہ دلائی ہے۔ جن کی وجہ سے بھرے پرے گھر ذرا سی نادانی اور جھوٹی انا کی تسکین کے لیے اجڑ جاتے ہیں۔

اور پھر وہی معاملہ ہوتا ہے کہ ’’اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت؟‘‘ جیسا کہ پچھلے ہفتے کے ایک کالم میں ایئرکرافٹ انجینئر ساجد کی بیوی کے خلع لینے کے بارے میں (مقدمہ ابھی شریعت کورٹ میں زیر سماعت ہے) بتایا تھا کہ اس کی بیوی نے محض ماں اور بھائی کی باتوں میں آ کر شوہر کو شادی کے فوراً بعد تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور وہ بے چارہ محض اپنی بیٹیوں کی خاطر سب کچھ جھیل رہا تھا۔ لیکن نقصان کس کا ہوا؟ صرف اور صرف دونوں بچیوں کا۔ کیونکہ ماں اور باپ یقینا دوسری شادی کریں گے۔ لیکن نہ سوتیلی ماں بچیوں کو قبول کرے گی نہ سوتیلا باپ۔

حالانکہ ساجد مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہونے دے گا۔ لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ ساجد اب بہت خوش اور پرسکون ہے اور کہتا ہے کہ وہ ایسا محسوس کر رہا ہے جیسے دوزخ سے نکل آیا ہو۔ روز روز کے جھگڑوں، ناجائز مطالبات اور خواہشات نے اسے ذہنی طور پر بہت نقصان پہنچایا تھا۔ اس کی توجہ اپنی انتہائی اہم جاب کی طرف بھی نہیں رہی تھی۔ لیکن اس کے باس اور ساتھی اس کی مشکلات کو سمجھتے تھے اس لیے تعاون بھی کیا۔

لیکن ابتدا میں قابلؔ اجمیری کے جس شعر کی سفاکی کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے۔ وہ معاملہ دگر ہے اور اس کی بنیاد بھی ماؤں کا اپنی بیٹیوں کو ددھیال والوں سے بدظن کرنا ہے۔ یہ ناسمجھ خواتین جانتی ہی نہیں کہ شادی کے بعد بیٹیوں کے کان بھرنے کا ہولناک نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے۔ مائیں مر جاتی ہیں، بچیاں اکیلی رہ جاتی ہیں۔ لیکن نفرت کے بیجوں کی نمو رکتی نہیں اور پھر وہ ہو جاتا ہے جس پر جاننے والے اور اہل محلہ دم بخود رہ جاتے ہیں۔

جمعہ 22 اگست کے بڑے اخبارات کے پچھلے صفحے پر ایک ہولناک خبر شائع ہوئی، جس کے مطابق کراچی کے ایک علاقے فیڈرل بی ایریا میں ایک گھر سے ایک 32 سالہ لڑکی کی کئی روز پرانی لاش برآمد ہوئی۔ اہل محلہ نے پولیس کو مطلع کر کے بتایا کہ مذکورہ مکان میں دو غیر شادی شدہ بہنیں رہتی ہیں۔ والدین کا انتقال ہو چکا ہے۔ کئی دن سے مکان سے تعفن اٹھ رہا ہے۔ اس لیے پولیس کو اطلاع دی۔ لیڈی پولیس اہل کار سمیت محلے والوں کی موجودگی میں جب گھر کھولا گیا تو چھوٹی بہن مردہ پڑی تھی اور بڑی بہن اسی گھر میں موجود تھی، لیکن اسے کسی طرح کا کوئی احساس تک نہ تھا۔ وہ خود بھی نفسیاتی مریضہ بن چکی تھی۔

پولیس اسے اپنے ساتھ لے گئی۔ وہ لڑکی جو مر گئی اور وہ جو بظاہر زندہ ہے دونوں میری ایک نہایت عزیز دوست کی بیٹیاں ہیں جو نہ جانے کس وجہ سے مر گئی۔ وہ تو میرے سامنے پیدا ہوئی تھی۔ نہایت ذہین، ٹیلینٹڈ، پڑھائی میں ہمیشہ A+ لینے والی، کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کرنے والی ایسی بے کسی کی موت مر گئی۔ موت طبعی تھی مگر کیوں اور کیسے یہ ہوا؟ پیسہ بھی تھا، گھر اپنا تھا، جائیداد کا کرایہ بھی آتا تھا۔ لیکن خبر کے مطابق سب نے یہی پڑھا ہو گا جو محلے والوں نے پولیس کو بتایا اور کرائم رپورٹر نے تھانے کی معلومات پہ اکتفا کیا۔ ہم بحیثیت قوم ہر شعبے میں اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ کراچی میں دس بارہ افراد کا حادثوں یا وارداتوں میں مرنا اب میڈیا کے لیے کوئی ’’خبر‘‘ نہیں رہی۔ یہاں تو اب روز کا مرنا معمولی بات ہے۔

یہ کوئی نہیں جانتا کہ دونوں بہنیں اس حال کو کیسے پہنچیں؟ جانتے تو سبھی اہل محلہ ہیں لیکن جو میں جانتی ہوں، جو ان بچیوں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ والدہ کی قریبی دوست جانتی ہیں، وہ کوئی اور نہیں جانتا۔ یہ ایک ایسا ہی حادثہ ہے جس کی پرورش ہماری عزیز دوست اور ان بچیوں کی ماں نے شاید انجانے پن میں کی۔ میں اور میری دو دوستوں نے جن میں ایک معروف صحافی اور دوسری ریٹائرڈ پروفیسر ہیں بہت کوشش کی تھی اسے سمجھانے کی کہ شوہر کے رشتے داروں سے نفرت کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔

ہم تینوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ اسے احساس دلائیں کہ میکے والوں نے جی بھر کے اس کا مالی استحصال کیا، سگے بڑے بھائی ، والد، والدہ، سگی بہن، فرسٹ کزن اور ان کی بیوی، بہنوئی، کوئی ایسا نہ تھا جس نے اسے چوٹ نہ پہنچائی ہو۔ لیکن یہ اللہ کی بندی کسی کی بات سننے کو تیار نہ تھی۔ اسے اپنی اعلیٰ تعلیم اور سماجی پس منظر پہ بہت ناز تھا۔ بدقسمتی سے شوہر جو نہایت سلجھے ہوئے اور وفادار انسان تھے۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ محترمہ ماسٹرز ڈگری ہولڈر تھیں، بہت خوبصورت اور چمکتے ہوئے گلابی گورے رنگ کی مالک تھیں۔

جب کہ شوہر ان تمام ظاہری خوبیوں سے عاری اور صرف میٹرک پاس تھے۔ یہ گھرانا حیدرآباد کا رہنے والا تھا اور خاصی اچھی مالی پوزیشن رکھتا تھا۔ البتہ یہ محبت کرنے والے لوگ تعلیم سے نابلد تھے۔ ایک طریقے سے یہ سب ہنرمند تھے۔ لیکن اپنی پڑھی لکھی بہو سے بہت پیار کرتے تھے اور اسے عزت دیتے تھے لیکن ہماری دوست نے کبھی ان کی محبتوں کا جواب محبت سے نہ دیا۔ یہاں ایسا نہیں تھا کہ ان کی والدہ نے سسرال والوں کے خلاف بھڑکایا ہو، بلکہ یہ وہ نفرت تھی جو ہماری دوست نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے گھر میں دیکھی تھی۔ والدہ کی منفی سوچ اور والد سے ہتک آمیز رویہ اسے وراثت میں ملا تھا۔

کاش میری دوست اور محسن زینب نے وقت کی اس سفاکی کا ادراک اپنی زندگی میں کر لیا ہوتا تو آج یہ ہولناک اور عبرت ناک خبریں اخبار کی سرخیاں نہ بنتیں۔ انسانی زندگیوں سے جڑے وہ الم ناک واقعات جو لاپرواہی کی بدولت بڑے سانحے میں بدل جاتے ہیں۔ میڈیا کو انھیں سامنے لانا چاہیے کہ لیڈروں کے بے مقصد ٹاک شوز کی بہ نسبت سماجی برائیوں کی بیخ کنی پہ مبنی ٹاک شوز کسی بھی چینل کی ریٹنگ میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔

انشا اللہ اگلے کالم میں کچھ اور تلخ حقائق آپ کے سامنے لاؤں گی۔ ہو سکتا ہے اس سے کچھ ماؤں، کچھ بیویوں اور کچھ بہوؤں کو عقل آ جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔