ہمیں کیا ہوگیا ہے

نادر شاہ عادل  اتوار 31 اگست 2014

آؤ کہ جشن مرگ ’’سیاست‘‘ منائیں ہم ! بظاہر سیاسی بحران مزید گہرا ہو گیا ہے ۔ بیقرار اور شب ہجر کے مارے میڈیا کی دہائی ہے کہ اکثریتی مینڈیٹ سرخرو رہا مگر سیاست دان اور جمہوریت پسند سرنگوں ہوئے ۔ سچ تو یہ ہے کہ پیدا شدہ صورتحال پر فرانز کافکا کا افسانہ ’’عرب اور گیدڑ‘‘ یاد آگیا ۔ اس مختصر افسانے میں پوری عالمی سیاست اور عرب سائیکی کا نچوڑ سامنے آیا۔ کہتے ہیں کہ کسی راجدھانی میں شور برپا ہوا تو ایک بزرجمہر قسم کے رتن دوڑے دوڑے محل میں داخل ہوئے اور عرض کی کہ’’ ’’جہاں پناہ ! آپ کے خلاف بغاوت ہوئی ہے۔‘‘

بہت خوب ، چلیے ما بدولت اس بغاوت کی قیادت کرتے ہیں ۔‘‘

مملکت ارض خداداد میں دو ہفتوں کے بعد انقلاب، آزادی ، لانگ مارچ اور بادشاہت کے خاتمہ کے لیے امکانی یلغار و احتجاج کا اچانک ڈراپ سین ہونے کا نیا منظر نامہ سجتے ہی پھر سے بدل گیا، پہلے ثالث بالخیر کے طور پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے روح رواں ڈاکٹر طاہر القادری کی ملاقات و مشاورت ہوئی ، طے پایا کہ جنرل صاحب بحران سے نکلنے کی بات چیت میں ضمانت کار کے طور پر اپنا کردار ادا کریں گے ۔

بعد میں نواز شریف نے قومی اسمبلی کے فلور پر اعلان کیا کہ نہ فوج نے ثالثی کے لیے کہا نہ ہم نے درخواست کی ۔ لفظ سہولت کارFacilitator سے مصالحت دھندلا گئی ۔ روایات وخرافات کی چشمک زنی ہے، سچ مضمحل ، خجل اور پورا نظم حکمرانی بیانیے کے شدید بحران و بے اعتباریت کا شکار ۔ شاید پینڈورا بکس کھلنے کو ہے ۔ لگتا ہے ایک بار پھر نواز حکومت پر سائیکو وار کے کالے گھنے بادل چھا رہے ہیں ۔ پہلے نہیں اب یقین سا ہونے لگا ہے کہ کچھ حکومتیں پیدائشی بد نصیب ہوتی ہیں ۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ایوان میں خوب گرجے برسے کہ سیاسی معاملات فوج اور عدلیہ سے حل کرانے کی روایت نہیں ہونی چاہیے ، وال سٹریٹ جرنل نے لکھا کہ نواز حکومت کی سیاسی طاقت گھٹ گئی، اب وہ بھارت دوستی اور دشت ِخارجہ امور میں دخل در معقولات نہیں کر سکیں گے۔

لیکن خاکم بدہن، پاکستان اب بھی ناکام ریاست نہیں ہے ۔ میرے دوست ! بس ایک مسئلہ ہے کہ مقناطیسی سیاہی کے ساتھ ساتھ اگر آئندہ الیکشن میں ووٹر کو مقناطیسی ضمیر کے قطرے بھی پلائے جائیں تو کوئی بوگس ووٹ بیلٹ بکس میں نہیں پڑے گا ۔ مسئلہ داخلی ، جبلی، عصبی ہے ، ہمارے اندر کا انارکسٹ مچل رہا ہے ، پندار محبت کا بھرم رکھنے والے کسی قانونی و آئینی بندش کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے حصار اور محکومی میں گم عوام اور مبصرین کئی گروپوں میں بٹ گئے ، چند کا خیال ہے کہ عمران و قادری کے ’’یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک‘‘ کا سفر بے نتیجہ نہیں رہا، انقلاب آوے ہی آوے ۔ انقلاب کی ایک نئی تشریح سامنے آئی ہے ، اب ضروری نہیں سماج کی کایا پلٹ میں برس ہا برس لگ جائیں، عمران و قادری انقلاب کی پلیٹ میں نیا پاکستان حاضر ہے ۔ قبول کرلو ۔

مگر دلچسپ سا سوال ہے کہ جرمنی نے حالیہ ورلڈ کپ فائنل میں موسٹ فیورٹ برازیل کو 7-1سے اس کے ’’ریڈ زون‘‘ میں عبرتناک شکست دی ،کیا اسے فٹ بال کی تاریخ کا ایک تحیر خیز انقلاب کہا جائے ؟ ن لیگ کی بحران ٹپاؤ حکمت عملی پر ایک منچلے نے خوب کہا کہ احتجاجی جماعتوں سے نمٹنے میں لتا منگیشکر کا یہ غنائیت بھرا گیت ہی پوری نواز ٹیم کو لے ڈوبا ’’ تم ہی کو دل کا راز بتائیں ، تم ہی سے راز چھپائیں ، ہمیں کیا ہوگیا ہے ۔‘‘

دوسری جانب میڈیا سے شاکی اور خوش حلقوں کا ملا جلا رد عمل ہے کہ جمہوریت کے خلاف بیمر، باؤنسر ، یارکر اور ریورس سوئنگ بیٹری بطور احتساب زبردست طریقے سے استعمال ہوئی ، بھاری مینڈیٹ والی حکومت کو کسی کا یہ قول یاد آنے لگا کہ ’’ آپ ایسا انقلاب نہیں لاسکتے جو جمہوریت کے استحکام کا سبب بن سکے، بلکہ آپ کے پاس ایسی جمہوریت ہونی چاہیے جو انقلاب کی نوید دے۔‘‘ قوم کو باور کرایا جائے کہ واقعی ہم نے ضبط اور صبر و تحمل کیا مگر دشمنوں نے جمہوری دیوی کے خون کی بوندوں سے سیاسی صنم کدے میں چراغاں کرلیا ۔ آزادی بھی تقریباً مل ہی گئی ۔ میڈیا میں رقم بانٹنے کا بم پھٹا ، تردید بھی آگئی، مگر دشت صحافت کے برہنہ پا عامل صحافی دم بخود کہ ان کی حمیت پر ایسا کاری وار کیوں؟ اور اس نازک موڑ پر ۔ دیکھئے کس سکندری سے انتخابی دھاندلی کا غلغلا مچا کہ کوئی اہم ریاستی ادارہ اور چوتھا ستون اس میں ملوث ہونے کے الزام سے بھی نہ بچ سکا ۔

منتخب وزیراعظم نواز شریف محاصرے میں ہیں ، سارا انتخابی عمل دھرنا پارٹیز کے نزدیک جعل سازی کا گورکھ دھندا ہے ۔ امپائر کی انگلی اٹھ گئی ، شاہراہ دستور کے پاس قبروں کی کھدائی رک گئی ،گورکن نیچے بیٹھ گئے، پاکستان عوامی تحریک کے کفن بردوش دستوں کی پیش قدمی جاری ہے، ان کے کارکن طائران لاہوتی نظر آنے لگے ، قادری و عمران خان انقلاب کا استعارہ بنائے گئے، ملک میں اب انقلاب ،بغاوت، دہشت گردی ، لشکر کشی ، جمہوریت ، انتخابات،اور سماجی تبدیلی پر بحث کے نئے در کھلیں گے۔

کوئی کہہ رہا ہے کہ تبدیلی آ تو گئی ، جمود ، دھاندلی ، بے عملی ، بے حسی اور ظلم سہنے کی روایت کو حقارت سے ٹھکرایا گیا، غیر معمولی احتجاج ہوا، دونوں جماعتوں کے پیروکاروں نے سٹبلشمنٹ سمیت ہر ریاستی ادارے کے صبر کا امتحان لیا ہے ، ایسی تقریریں ہورہی ہیں کہ کیا کسی جولیس سیزر ، نپولین ، والٹیئر، ایڈمنڈ برک یا چرچل نے کی ہونگی ۔ میڈیا کے سب سے بڑے فلسفی مارشل میکلوہن کا کہنا ہے کہ’’ آج ایکشن اور ری ایکشن ایک ہی وقت میں رونما ہوتے ہیں۔‘‘

چوتھا ستون اپنی ہئیت اور ہیبت دونوں میں یکتا ہے، کئی صحافی اس ستون سے اب لپٹ کر رونے یا اپنا سر پھوڑنے کو بھی تیار ہیں، سیاسی بحران جس موڑ پر آپہنچا ہے اس نے عوامی آسودگی ، معاشی و سماجی فلاح و بہبود کی تمام تر رومانویت اور نرگسیت کو اس قول فیصل میں ڈبو کر دو آتشہ کردیا ہے کہ اگر آپ سیاسی انقلاب کے حوالہ سے گرفتار الفت ہیں تو اپنے دل کا انشورنس کر لیں ۔

برٹرینڈ جووینل نے نہ معلوم کیا سوچ کر یہ پھبتی کسی کہ ’’ بھیڑوں کے معاشرے کو لازماً بھیڑیوں کی حکومت نصیب ہوتی ہے ۔‘‘ اوسط درجے کے ایکٹر امریکی سابق صدر رونالڈ ریگن یہ کہہ کر رخصت ہوئے کہ ، ’’ آج کی دنیا میں انقلاب جمہوریت ہے۔‘‘ زندہ ہوتے تو ان کو ریڈ زون میں لاتے کہ مکرر…ارشاد … مکرر۔ ایک قاری کا تبصرہ تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ڈی چوک اور شاہراہ دستور پر دھرنا دیا، کیا بھارت کے مدراسی مذہبی دانشور ذاکر نائیک اس سے زیادہ لشکر کے ساتھ لوک سبھا یا راجیہ سبھا کے سامنے مرن بھرت رکھنے کا رسک لے سکتے ہیں ؟ پلیز نو کمنٹ۔ عظیم امریکی صحافی والٹر لیپمان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی حکومت اور مستحکم نظام شاذ و نادر ہی کسی انقلابی تحریک یا دھڑن تختہ کا نشانہ بن سکتا ہے، عموماً کرپشن اور کمزور فیصلوں سے حکومتی انحطاط اور زوال کا عمل شروع ہوتا ہے ، بعد میں ان ہی غلطیوں کے کھنڈر پر چلتے ہوئے انقلابی اندر آکر اس خلا کو پر کرتے ہیں جو پیدا ہوچکا ہوتا ہے ۔ انقلابوں کا ایک بنیادی راز ہمت مرداں سے مشروط ہے، جو بھی کرلے!

لیجیے ایک زور دار تھیسس جس میں ایک فلسفی کہتا ہے کہ ’’ جو شخص ایک ریاست پر پہلا پتھر پھینکتا یا اسے زک پہنچاتا ہے ، وہی اس کی بربادیوں کی نذر ہوجاتا ہے، اسے عوامی غیظ وغضب کے ثمرات کبھی نہیں ملتے، فرانس کے انقلابی دانشور والٹیر نے کہا کہ’’ میں اپنے اطراف جس چیز پر نظر ڈالتا ہوں وہ ایک ناگزیر انقلاب کے بیج بونے کا عمل ہے، اگرچہ مجھے اس چیز کو دیکھنے کی مسرت حاصل نہیں ، مگر روشنی اتنی قریب ہے کہ وہ موقع ملتے ہی پہلا وار کریگی اور اس کے بعد ایک شور قیامت برپا ہوگا ۔ نوجوان نسل خوش نصیب ہے کہ وہ اس خوشنما منظر کو دیکھ پائیگی۔‘‘

اب کیا برا ہے کہ ان سطور کا اختتام دو عظیم انقلابیوں ولادی میر لینن اور فریڈرک اینگلز کے اس الفاظ پر ہو کہ ’’حکمراں طبقات کو لرزہ براندام ہونے دو ۔ کمیونسٹ انقلاب کے طفیل پرولتاریہ کو کچھ کھونا نہیں ، اسے تو غلامی کی زنجیروں سے نجات ملے گی، ان کے سامنے ایک دنیا ہے جس کے وہ فاتح ہونگے۔ دنیا کے محنت کشو ایک ہوجاؤ۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔