سفاک بے حسی کا ماحول

نصرت جاوید  بدھ 3 ستمبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

امریکی روزمرہّ میں اکثر Men Don’t Cry والا فقرہ دہرایا جاتا ہے۔ مرد ہونے کے ساتھ ہی ساتھ آپ صحافی بھی ہوں تو دل مزید سخت ہو جاتا ہے۔ پھر حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے بدنصیب ملک میں اکثر ایسے دن آتے رہتے ہیں جنھیں ہمارے سیاست دان اور ان کے کارہائے نمایاں پر تبصرہ کرنے والے جھٹ سے ’’پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن‘‘ قرار دے ڈالتے ہیں۔ رواں ہفتے کا پہلا دن بھی ایسے ہی دنوں میں شمار ہوا۔

علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے چاہنے والوں کے لیے ’’سیاہ ترین دن‘‘ یہ اس وجہ سے ٹھہرا کہ اس دن کی صبح اسلام آباد پولیس نے ان کے دھرنے کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ یہاں کی پولیس کے لیے اس دن کو سیاہ بنانے والا واقعہ ان کے ایک انتہائی ایمان دار اور جی دار افسر عصمت اللہ جونیجو کی مظاہرین کے ہاتھوں بے رحم پٹائی تھی۔ میری ذاتی زندگی کے حوالے سے مگر یہ دن بہت ظالم ٹھہرا تو صرف اس وجہ سے کہ میں ٹی وی اسکرین کے سامنے اکیلا بیٹھا تھا۔ اچانک خبر آئی کہ ’’پرامن‘‘ مظاہرین کا ایک گروہ پاکستان ٹیلی وژن کے مرکز میں گھس آیا ہے۔

14 اگست کے دن سے عمران خان اور طاہر القادری کے حریت پسندوں اور انقلابیوں نے اسلام آباد میں خوف اور افراتفری کی جو فضاء مسلط کر رکھی تھی اس کے تناظر میں ’’پر امن‘‘ مظاہرین کا اتنی آسانی سے پی ٹی وی کے مرکز میں گھس آنا میرے لیے کافی حیرت کا باعث تھا۔ دُنیا بھر میں کسی بھی حکومت کو بے بس اور لاچار دکھانے کے لیے باغی اور انقلابی سپاہ سب سے پہلے کمیونی کیشن کے ان مراکز پر قبضہ کیا کرتے ہیں جن کے ذریعے وہاں کی حکومت و ریاست اپنوں اور غیروں تک اپنے پیغام پہنچایا کرتی ہیں۔ 12 اکتوبر 1999 کے واقعات کے حوالے سے سب سے زیادہ طاقتور وہ Visuals تھے جن کے ذریعے چند فوجی جوانوں کو پاکستان ٹیلی وژن کے اسلام آباد مرکز کے بند دروازے پر چڑھتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ حالیہ تاریخ کے اتنے اہم ریفرنس کے باوجود نجانے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کیوں یاد نہ رہا کہ ان دنوں ایک نہیں دو انقلابی قائدین کے پُر جوش پیروکار پاکستان کے دارالحکومت میں بے چین گھوم رہے ہیں۔

میں یہ کالم مگر اسلام آباد کی ’’انقلابی‘‘ فضاء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہت سارے واقعات کے حوالے سے بے نقاب ہوئی مکمل نا اہلی اور بے بسی کو بیان کرنے کے لیے نہیں لکھ رہا۔ گزشتہ سال اگست میں اس شہر کا تقریباََ قلب سمجھے جانے والے بلیو ایریا میں سکندر نام کا ایک جنونی بھی تو گھس آیا تھا۔ پانچ سے زیادہ گھنٹوں تک اس نے تن تنہاء 24/7 ہمارے نیٹ ورکس کی اسکرینوں پر خوب رونق لگائے رکھی۔ اس کا رچایا ڈراما شاید کچھ اور طویل ہو جاتا ۔ مگر خدا بھلا کرے پیپلز پارٹی کے ایک مقامی رہنما زمرد خان کا جنہوں نے اپنی بہادری یا ’’پاگل پن‘‘ کی وجہ سے سکندر کو جپھہ ڈال کر زمین پر گرا دیا۔

مجھے اعتراف تو بس اتنا کرنا ہے کہ افغانستان، عراق اور لبنان جیسے ملکوں میں جدید ترین اسلحے کے ذریعے لڑی جانے والی جنگوں اور ان کی وجہ سے خلقِ خدا پر نازل قہر کی بے رحم گھڑیوں کو بہت قریب سے دیکھنے کے باوجود میری آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آئے تھے۔ میری آنکھیں کچھ ایسی شخصیات کے انتقال کے بعد بھی خشک رہیں جن کے بغیر میں اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ رواں ہفتے کا پہلا دن مگر ایک ظالم دن میرے لیے اس وجہ سے ٹھہرا کہ جب پاکستان ٹیلی وژن کے مرکز پر قبضے کے بعد ہمارے ریاستی ٹی وی کی اسکرین سیاہ ہو گئی تو میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔

میرا ذاتی غم مگر اس غصے سے بالآخر ختم ہو گیا جب مختلف چینلز کو دیکھتے ہوئے میں نے کئی جید دانشوروں کو انتہائی رعونت کے ساتھ یہ بیان کرتے دیکھا کہ مظاہرین کا پاکستان ٹیلی وژن پر قبضہ اس لیے ہوا کہ وہاں بیٹھے مبصرین مسلسل کئی دنوں سے انقلابی قائدین کی ’’اشتعال انگیز تحقیر‘‘ میں مصروف تھے۔ ریاستی ٹیلی وژن ویسے بھی نواز حکومت سرکاری پراپیگنڈے کے لیے استعمال کر رہی تھی۔ بڑی بھاری اصطلاحات کے ساتھ غریبوں کے Rage کو بیان کرتے ہوئے پی ٹی وی پر قبضہ کرنے والوں کی حمایت میں جواز گھڑنے والے ان جید دانشوروں نے مجھے تو حیران کر دیا۔ سقوطِ بغداد کے واقعات کے دوران 24/7 کا کوئی تصور نہ تھا۔ مگر مجھے یقین ہے کہ ان دنوں بھی ایسے کئی دانشور عالمانہ رعونت کے ساتھ ہمیں سمجھا دیتے کہ منگول سپاہیوں نے بغداد کے کتب خانوں میں جمع نایاب کتابوں کو دجلہ میں بہا کر اس کا پانی کچھ عرصے کو سیاہ کیوں کر ڈالا تھا۔

ہمارے ان سفاک دانشوروں کو ہرگز یاد نہ رہا کہ کئی برس سے دُنیا کے بے شمار لکھنے والے پاکستان کو ایک Failed State ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمیں ایک ناکام ریاست قرار دیتے ہوئے پھر ذکر شروع ہو جاتا ہے ہمارے ایٹمی اثاثوں کا اور مسلسل یہ سوال کہ وہ ’’محفوظ‘‘ ہیں یا نہیں۔ ’’پر امن‘‘ مظاہرین کا ایک گروہ ریاستی ٹیلی وژن پر قبضہ کرنے کے بعد اس کی اسکرین کو 40 سے زیادہ منٹوں کے لیے Blank کر ڈالے تو ناکام ریاست کی کہانیاں گھڑنے والوں کو اپنے دعویٰ کے ثبوت میں انتہائی مؤثر Visuals مل جاتے ہیں۔

CNN وغیرہ نے ہماری Blank Screen بھی اپنے نیوز بلٹنز میں بار ہا دکھائی مگر ہمارے 24/7 نیٹ ورکس پر بیٹھے بہت سارے جید دانشور کندھے اُچکا کر اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ پی ٹی وی کے اسلام آباد مرکز پر قبضہ کوئی سنسنی خیز واقعہ نہیں ہے۔ ریاستی ٹیلی وژن کی طرف سے انقلابی قائدین کے خلاف ’’اشتعال انگیز‘‘ زبان کا استعمال بلکہ اس قبضے کا جواز فراہم کرتا ہے۔

پاکستان میں ریاستی ٹیلی وژن 1964 میں متعارف ہوا تھا۔ میرا اس ادارے سے تعلق اس وقت سے شروع ہوا جب میری عمر صرف دس سال تھی۔ اپنے اس ادارے کے ساتھ بڑے گہرے رشتے کے بعد میں بڑے اعتماد سے یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ یہ ٹیلی وژن صرف خبروں اور حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں تک محدود نہیں رہا۔ پاکستان ایسے ملک میں جہاں ڈھنگ کا کوئی تھیٹر نہیں۔ فلمیں بننا بند ہو چکی ہیں اور تفریح کے اور سامان میسر نہیں، پی ٹی وی بلکہ ایک ایسا جزیرہ ثابت ہوا۔

جہاں تخلیق کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے کئی دیوانوں نے شبانہ روز محنت اور لگن سے متوسط طبقے کے گھروں کا تقریباََ ایک رکن بنا دیا تھا۔ ثقافت کے ایسے مرکز پر مظاہرین کے ایک گروہ کا قبضہ بغداد کے کتب خانوں کو تباہ کر ڈالنے کے مترادف تھا۔ ہیجان اور وحشت کے ماحول نے مگر ہمارے دل پتھر کر دیے ہیں۔ سفاک بے حسی کے اس ماحول میں ٹی وی اسکرین کو اکیلے میں دیکھتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے تو حیرت کی کوئی بات نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔