(پاکستان ایک نظر میں) - میداں کا پاکستان

حمیرا زکریا  بدھ 3 ستمبر 2014
میں ماسی میداں ہی رہوں گی مجھے کوئی بھی محترمہ حمید بیگم نہیں کہے گا،چاہے پاکستان پرانا رہے یا نیا بن جائے۔ فوٹو فائل

میں ماسی میداں ہی رہوں گی مجھے کوئی بھی محترمہ حمید بیگم نہیں کہے گا،چاہے پاکستان پرانا رہے یا نیا بن جائے۔ فوٹو فائل

جب سے میں نے آنکھ کھولی اسی گھر میں ماسی میداں کو ہشاش بشاش کام کرتے دیکھا، بابا کی صبح کی چائے ہو، یا کچن کے سارے برتن ،گھر بھر کے کپڑے،اور ساری صفائی ،یہ ماسی میداں کے اولین فرائض میں شمار ہوتے تھے۔وہ خاموشی سے آتی اپنا کام کرتی،کھانا کھاتی اور کچھ دیر برآمدے میں بچھی چارپائی پر کچھ گھڑی آرام کرتی اور اپنی راہ لیتی۔زندگی ایک ہی جمود میں چلتی رہتی لیکن اس میں تبدلی اس وقت واقع ہوئی جب ملکی حالات میں پرانے چہروں نے نئے انداز سے انٹری ماری۔ مخصوص چینلز تھے جن پر ڈرامے ہم باری باری دیکھتے تھے اور اگر ایک فرد کا پسندیدہ ڈرامہ لگا ہے تو کیا مجال دوسرا کوئی آکر ریموٹ کنٹرول تھامے۔

مگر پھر ایک دن گھر کے اس نظام میں بھونچال آ گیا جب بابا اور بھائی اپنے وقت پر کسی نیوز چینل کو دیکھ رہے تھے اور اس کے بعد تو چراغوں میں روشنی ہی نہ رہی، ہمیں بھی انتظار تھا کہ اب یہ سلسلہ ختم ہوا اب ہوا، مگر مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی۔اب ہمیں بھی اس سارے ایڈونچر میں مزا آنے لگا،ہم صبح سویرے اٹھتے،اپنے اپنے کام کر کے تیار ہو کر ٹیلی ویژن کے آگے بیٹھ جاتے اور ہمارے ساتھ ماسی میداں بھی آ کر بیٹھ جاتی اور ہو جاتے تبصرے شروع۔آغاز میں تو باری باری ہم میں سے ایک ایک آتا اور کچھ دیر رک کر دیکھتا اور اپنی راہ لیتا مگر پھر میں نے نوٹ کرنا شروع کیا کہ ہم میں اتفاق پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے اور اب کوئی بھی ریموٹ کنٹرول کے پیچھے لڑتا نہیں ہے۔ شام کے بعد تو اور بھی بازار گرم ہو جاتا، ہم سب اکٹھے ہو کر وہ دھیما چوکڑی مچاتے کہ بس۔ رات گئے تک یہ بحث زورو شور سے جاری رہتی کہ اب کیا ہوگا؟

رات کا آخری پہر ہوگا جب ایک دم سے لائیٹ چلی گئی تو ہم اپنی اپنی چارپائیوں پر آ کر لیٹ گئے ۔اتنے میں ماسی میداں نے بہت چبھتا ہوا سوال کیا کہ ایک کہتا ہے کہ وہ نیا پاکستان بنائے گا، پھر پرانے پاکستان کا کیا ہوگا؟ مجھے حیرت کا ایک جھٹکا لگا میں نے تھوڑا مصنوعی غصے سے کہا کہ ماسی سو جاؤ،صبح تمہیں سارے گھر کے کام کرنے ہیں۔ اس نے خود کلامی کے انداز میں کہا کہ ہاں میں نے تو اس پاکستان میں بھی یہی کچھ کرنا ہے۔میں نے اس کی اس بات کا جواب نہیں دیا شاید اس بات کا جواب کوئی تھا بھی نہیں۔اگلے دن نماز عصر کے بعد پھر دنگل شروع ہوا اب ماسی میداں بھی آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کرتی کہ اب ہمیں یوں لگنے لگا تھا کہ جیسے اسے تھوڑا سا بناؤ سنگھار کروا کے اگر کسی بھی چینل پر بٹھا دیا جائے تو اس کے حالات حاضرہ پر تبصرے اعلی سے اعلی اینکر کو بھی مات دے سکتے ہیں۔

میں نے اسے اس اسے پہلے خاموش ہی دیکھا تھا،وہ اپنا کام کرتی اور اسی خاموشی سے اپنے گھر چلی جاتی ۔ماسی میدں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اب اسے بڑے بڑے بوٹوں کی دھمک سنائی دے رہی ہے۔ اس کے اس جملے پر ہم اتنا ہنسے کے دیکھو سہی،یہ تو واقعی میں اب کسی بھی چینل پر جا کر سب کے منہ بند کر سکتی ہے۔وہ ایک دم اور بھی اپنی قیمتی آرا ء سے ہمیں مستفید کرتی مگر اس دن کسی سیاسی پارٹی نے کوئی ریلی نکالی تھی اور موٹر سائیکلوں کا ایک ہجوم بد تمیزی تھا جو ہم اس چینل پر دیکھ رہے تھے،ایک کے بعد ایک اور پھر سارے نیوز چینل بدل کر دیکھ لئے مگر ایک ہی منظر تھا، اچانک ماسی میداں کی نظر اسی ریلی پر سب سے آگے آگے والے موٹر سائیکل سوار پر پڑی جس نے اترتے ہی ایک سپاہی کو مارنا شروع کر دیا تھا اور کیمروں کا رخ بھی اس بریکنگ نیوز کی طرف تھا۔

ایک دم سے ماسی میداں نے کہا کہ یہ تو اس کا بیٹا ہے،اس کے بعد ماسی ایک پل بھی نہ رکی اور اگلے دن شام کو آئی مگر اب اس میں وہ بات نہیں تھی۔اس نے بتایا کہ اس کا ایک ہی بیٹا ہے ،اور یہی سب امیدوں کا مرکز تھا اس کے کالج کے اخراجات کے لئے گھروں میں جا کر تک دن رات کام کرتی ہوں۔دن رات تمہارے سامنے ہوں،میری محنت مزدوری کی کمائی میں ایک لقمہ بھی حرام کا نہیں ہے پھر میرے ساتھ یہ کیا ہو گیا؟ پوچھوں تو کہتا ہے وہ نیا پاکستان بنانے جا رہا ہے۔ میں اسے سمجھاتی ہوں کہ ہمارے نصیب نہیں بدل سکتے ہیں میں ماسی میداں ہی رہوں گی مجھے کوئی بھی محترمہ حمید بیگم نہیں کہے گا،چاہے پاکستان پرانا رہے یا نیا بن جائے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔