یہ بھی تو ممکن ہے!

مقتدا منصور  جمعرات 4 ستمبر 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب وہی کچھ ہوگیا ، جس کا خدشہ کئی روز سے کیا جا رہا تھا ۔مظاہرین نے پارلیمنٹ ہاؤس سمیت کئی اہم ریاستی عمارتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرکے اپنے غیر منطقی ہونے کا ثبوت دے دیا ۔ روایتی سوچ کی حامل پولیس کو جب فری ہینڈ ملا تو اس نے مظاہرین کے ساتھ وہ بہیمانہ سلوک کیا جو اس کی روایت کا حصہ ہے۔ ساتھ ہی ذرایع ابلاغ کے نمایندوں کو بھی جی بھر کر زدوکوب کرکے اگلے پچھلے قرض بھی اتاردیے ۔

دوسری طرف تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی نے ملتان میں پریس کانفرنس کے دوران بعض ایسے انکشافات کیے،جو نئے تضادات کو جنم دینے کا سبب بن رہے ہیں ۔یوں یہ کھیل اب ایک ایسے نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے،جہاں ادارہ جاتی تصادم کے خطرات ہر آنے والے دن بڑھ رہے ہیں ۔ یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ اگر ابھی نہیں تو شاید آیندہ چند ماہ بعد ہی سہی،  مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی مشکلات اور خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

اگرحقیقت پسندانہ اندازمیں جائزہ لیا جائے تو موجودہ صورتحال کا دائرہ جی ٹی روڈ تک محدود نظر آتا ہے ۔جس کی بنیادی وجہ وسطی پنجاب میں معاشی اور سماجی کشمکش کے نتیجے میں جنم لینے والی سیاسی بے چینی ہے ۔ دراصل وسطی پنجاب میں قیام پاکستان کے بعد جو مڈل کلاس وجود میں آئی تھی، وہ 1980 کی دہائی کے آنے تک ایک نئی بورژوازی (سرمایہ دار)میں تبدیل ہونے لگی ۔ یہ بورژوازی اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی مفادات کے حصول کے لیے اقتدار و اختیار پر کنٹرول چاہتی ہے ۔اس لیے اس کا ٹکراؤ اسٹبلشمنٹ سے ہو رہا ہے، جو روایتی طور پر روزِ اول سے اقتدار واختیار کا منبع چلی آ رہی ہے ۔

گویا یہ کہنا کسی طورغلط نہ ہوگا کہ اقتدار پر بالادستی کے لیے پنجابی بورژوازی پنجابی اسٹبلشمنٹ کے مدمقابل آگئی ہے ۔ لہٰذا اس لڑائی میں دیگر قومیتوں کا کوئی کردار نہیں ہے ۔کیونکہ ان قومیتوں میں ابھی تک طاقتور بورژوازی پیدا نہیں ہوسکی ہے ۔البتہ سندھ میں تقسیم ہند کے بعد گجرات اور مہاراشٹرسے جو بورژوازی ہجرت کرکے آئی تھی،اس کی جڑیں اس دھرتی میںپیوست نہ ہونے کی وجہ سے قومی بورژوازی نہیں بن پائی اور 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد پسپائی پر مجبور ہوگئی۔ یہی سبب ہے کہ1977کے بعد سے سیاسی سرگرمیوں کا محور شہری سندھ سے وسطی پنجاب منتقل ہوگیا۔حالانکہ قیام پاکستان سے1977 تک ان سرگرمیوں کا محور کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہر ہوا کرتے تھے ۔

شریف برادران 1980کی دہائی میں وسطی پنجاب کی بورژوازی کے نمایندے کے طور پر ابھر کر سامنے آئے، جن کی اس وقت کی اسٹبلشمنٹ نے بھٹو مظہر (Phenomenon)سے جان چھڑانے کی خاطر کھل کر سرپرستی کی۔مسلم لیگ ن کی قیادت نے پنجاب میں اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران ایک طرف اسٹبلشمنٹ کو باورکرایا کہ تابعدار قسم کے منتظم کا کردار اداکرسکتے ہیں ۔جب کہ دوسری طرف انھوں نے ابھرتی ہوئی بورژوازی کوکاروباری سرگرمیوں کے لیے ان گنت سہولیات فراہم کی۔

جس کے نتیجے میں وہ پنجابی بورژوازی کے طاقتور نمایندے بن کر ابھرے۔لہٰذا اس بورژوازی کے علاوہ اربن مڈل کلاس نے بھی پیپلزپارٹی کے مقابلے میں ان کی کھل کر حمایت کی اور انھیں وزارت عظمیٰ پر فائز کرکے نئی معاشی راہیں تلاش کرنے کی ذمے داری سونپنے کا فیصلہ کیا ۔

پنجاب کی سرزمین سے ابھرنے والی اس نئی بورژوازی کو اپنی معاشی سرگرمیوں کے پھیلاؤ کے لیے نئے میدانوں کی ضرورت تھی تاکہ وہ عالمی سطح پر مسابقت کا حصہ بن سکیں ۔ ادھر دنیا کے رجحانات اور طرز عمل میں بھی تیزی کے ساتھ تبدیلی رونماء ہو رہی تھی۔

جس کی وجہ سے بورژوازی کے پھیلاؤ کے امکانات روشن ہورہے تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجر بورژوازی نے معیشت کو سرمایہ دارانہ شکل دینے کی کوشش کی تھی ۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ اپنے کردار میں گماشتہ (Comprador) ہونے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکی اورسقوط ڈھاکہ کے بعد پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئی ۔ بھٹو مرحوم نے Mixed Economyکا تصور پیش کیا، جو زیادہ تر تنخواہ دار مڈل کلاس کے مفادات کا احاطہ کرتی تھی ۔

جس کی وجہ سے اس کا دائرہ کار محدود تھا۔یوں جلد ہی یہ تجربہ ناکام ہوگیا ۔دراصل جدید دنیا میں معاشی سرگرمیوں کے پھیلاؤکے لیے آزاد مالیاتی پالیسیاں،پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات اور دفاعی اخراجات میںمناسب کمی بنیادی ضرورتیں ہوتی ہیں ۔جب کہ پاکستان میں پاک بھارت تعلقات اورجنرل ضیاء کے دور میں تیار ہونے والی افغان پالیسی سمیت خارجہ پالیسی، جوہری انتظام اور مالیاتی پالیسی شروع ہی سے اسٹبلشمنٹ کی گرفت میں چلی آرہی تھیں ۔

1990ء میں پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد میاں صاحب کے سامنے پاکستانی بورژوازی کے اہداف کی تکمیل کے لیے معیشت کو جدید سرمایہ دارانہ نظام کے قالب میں ڈھالنے کا چیلنج درپیش تھا ۔ساتھ ہی بحیثیت ریاست کےChief Executive اپنے اختیارات کا مکمل استعمال کرنے اورتمام ریاستی اداروں کو احکامات کی تعمیل کا پابند بنانے کے خواہش مند تھے ۔ اپنے منیجرل (Manageral)مزاج کی وجہ سے ان میں لچک اورمصالحانہ روش کا فقدان ہے۔

یہی سبب ہے کہ انھوں نے اپنے مزاج کے مطابق بعض ایسے فیصلے کیے،جو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات کو کشیدہ بنانے کا سبب بن گئے اور انھیں اقتدار سے ہاتھو دھونا پڑے۔ دوسری بار 1997 میں وہ بھاری مینڈیٹ لے کر آئے۔اب انھیں یہ گمان تھا کہ وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کرسکیں گے۔مگرعجلت پسندی ، غیر سیاسی سخت گیر مزاج  اس بار مختلف اداروں  کے ساتھ ان کے اختلافات کا سبب بن گئی۔ یوں 12اکتوبر1999 کو انھیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔

اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان کے نجی شعبے میں  الیکٹرونک میڈیا کی آمد نے بورژوازی کو ایک نئی قوت اور طاقت دی۔جس کا اس نے 2007 کی عدلیہ بحالی تحریک میں بھرپور مظاہرہ کیا۔بڑا صوبہ اور تعلیم کی بہتر صورتحال کے باعث الیکٹرونک میڈیا میں پنجاب کا حصہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ  ہوگیا۔اس صورتحال نے چھوٹے صوبوں بالخصوص سندھ اور بلوچستان کے صحافیوں میں نئی سوچ پیدا کردی ہے۔

دوسری طرف 2007 میں اپنی واپسی پر مسلم لیگ ن کی قیادت کو اس مرتبہ پنجابی بورژوازی کے علاوہ ذرایع ابلاغ میں موجود پنجابی پروفیشنلزکی بھی حمایت حاصل ہوگئی۔اس حمایت نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو یہ باور کرایا کہ اب وہ ناقابل تسخیرہو چکے ہیں۔اس لیے انھوں نے بعض ایسے اقدامات شروع کردیے،جو ان کے لیے حالیہ نئے مسائل ومصائب کا سبب بن گئے۔

دوسری طرف بعض اہم حلقے جو مسلم لیگ ن کی قیادت کے بارے میں شکوک وشبہات رکھتے تھے، انھیں محدود کرنے کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے لگ گئے۔ان کی نظر میں پیپلز پارٹی ہارا ہوا گھوڑا تھا، جس پر مزید داؤ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس لیے وہ ایک ایسی سیاسی جماعت کی تلاش میں تھے، جوسماج کے مختلف طبقات کی نمایندگی کے علاوہ اسٹبلشمنٹ کے مفادات کی نگہبانی بھی کرسکے۔ایسی جماعت جو مسلم لیگ(ن) کا صحیح نعم البدل ہوسکتی ہو۔یہی سبب ہے کہ دسمبر2011 میں لاہورمیںکامیاب جلسے کے بعدجب تحریک انصاف بالائی متوسط طبقے کے نوجوانوں کی مقبول جماعت کے طورپر ابھر کر سامنے آئی،تو مختلف جماعتوںسے  Electablesنے اس کی جانب رخ کرنا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تحریک انصاف کا مقبول ترین جماعتوں میں شمار ہونے لگا۔لیکن پنجابی بورژوازی مسلم لیگ ن کی پشت پر ہی رہی کیونکہ اسے عمران خان پر اعتبار نہیں تھا ۔ چنانچہ جیسا کہ اندازہ تھا، مئی2013 کے عام انتخابات میں کانٹے کا رن صرف پنجاب میں پڑا ۔

سندھ اور بلوچستان میں روایتی جماعتیں ہی کامیاب ہوئیں۔ البتہ خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی کی جگہ تحریک انصاف نمایندہ جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ۔ تحریک انصاف میں موجود تھنک ٹینک پنجاب کے انتخابات کا جائزہ لیتے ہوئے پنجابی بورژوازی کے کردار کو فراموش کر بیٹھا،جو ایک اہم اور طاقتور ریاستی شراکت دارہونے کے علاوہ ہنوز مسلم لیگ(ن) کی پشت پر ہے  دوسری بات جس پر توجہ دینے کی ضرورت تھی، وہ یہ کہ پاکستانی سماج گزشتہ 30برسوں کے دوران خاصا آگے جاچکا ہے اور سول سوسائٹی خاصی مضبوط ہوئی ہے ۔

جب کہ اسٹبلشمنٹ ابھی تک سرد جنگ کی سوچ سے باہر نہیں آسکی ہے۔اس لیے وہ معاشرے کو سرد جنگ کی نفسیات سے نہیں نکلنے دینا چاہتی۔ یہی وہ تضاد ہے، جس نے  پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔چونکہ یہ تضادات صرف وسطی پنجاب میں پیداہوئے ہیں، اس لیے اس کے مظاہر وہیں نظر آرہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔