آسیبی پلنگ

اقبال خورشید  جمعرات 4 ستمبر 2014

آرام گاہ میں چھایا سکوت ایک مکمل کہانی ہے۔

یہ ایک بادشاہ کی بپتا ہے، جس نے کٹھن مراحل سے گزر کر اپنی سلطنت حاصل کر لی۔ سلطنت، جو کچھ عشروں قبل چھین لی گئی تھی۔ اُسے جلا وطن کر دیا گیا۔ تخت پر دشمن برا جمان ہو گئے۔ اُس نے صبر کیا۔ خاموشی سے منتظر رہا اور پھر وہ لمحہ آیا، جب صبر کا پل جھولی میں آن گرا۔ اُس نے زریں تخت، جس پر ہاتھی دانت کا کام تھا، دوبارہ حاصل کر لیا، وہ بھرپور طاقت کے ساتھ برسر اقتدار آیا۔ عوام اس کے ساتھ۔ اختیارات اس کے پاس۔ یوں لگتا تھا، جیسے برسوں اس کی حکومت قائم رہے گی۔ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ کوئی ریاست کا بال بھی بیکا نہیں کر پائے گا۔

بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ راوی چین ہی چین لکھنے کو تیار تھا۔ مگر ہر کہانی کی طرح اس کہانی میں بھی ایک ڈرامائی موڑ آیا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد، غیر ملکی دوروں سے لوٹ کر، رعایا کی خبر گیری سے نمٹ کر وہ تھکا ہارا آرام گاہ میں داخل ہوا، اور خود کو شاہی پلنگ کے حوالے کر دیا۔

اور یہیں سے بگاڑ کا آغاز ہوا۔ وہ پلنگ کسی آسیب کے زیر اثر تھا، کوئی بددعا اس پر سایہ فگن تھی۔ وہ نیند کی اتھاہ گہرائی میں اتر گیا اور گزرتے پلوں کے ساتھ نیند گہری ہوتی گئی۔

ایسے میں کچھ شرپسند نوابوں نے بادشاہ پر تنقید شروع کر دی۔ اُس کے اقدامات پر سوالات اٹھائے۔ اعتراضات کیے۔ بادشاہ تک بازگشت پہنچی۔۔۔ مگر بازگشت خواب توڑنے میں ناکام رہی۔

شرپسند سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ دارالحکومت میں اکٹھے ہونے لگے۔ دھرنے پر بیٹھ گئے۔ مطالبہ کیا کہ بادشاہ تخت چھوڑ دے۔ کھڑکی سے آتی کچھ آوازیں بادشاہ کے کانوں میں پڑیں، مگر دبیز آسیب رکاوٹ بن گیا اور یوں شرپسندوں کی شرپسندی اُسے جگانے میں ناکام رہی۔

کچھ روز تک وزیر، مشیر معاملات سنبھالتے رہے۔ انھوں نے شرپسندوں پر پھبتیاں کسیں۔ مذاق اڑایا۔ اُنھیں تعداد میں قلیل اور گمراہ ٹھہرایا۔ حملہ کروایا۔ مگر کوششوں کے مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ مشتعل لوگ دھرنوں پر بیٹھے رہے۔ اُنھوں نے موسم کی شدت سہی۔ گرمی اور حبس برداشت کیا۔ فٹ پاتھ پر سوئے۔ سڑک پر بیٹھ کر شکم بھرا۔

وقت گزرتا رہا۔ مظاہرین غیر آئینی مطالبات دہراتے رہے۔ مشیر آئینی پھبتیاں کستے رہے۔ دانش ور، بے روح دانائی کی جگالی میں مصروف رہے اور بگاڑ بڑھتا گیا۔ ریاست پر افواہوں کا کہرا چھانے لگا۔ دارالحکومت میں پرتشدد کارروائیوں کا آغاز ہو گیا۔ دھرنوں میں خون اور دھواں شامل ہوا۔ سالاروں میں مشورے ہونے لگے۔ شور بڑھتا گیا۔۔۔ اور آسیب مسکراتا رہا۔

دوستو، یہ ایک بے انت کہانی ہے۔ غیر مختتم۔ یہ الف لیلہ کے مانند دل چسپ نہیں۔ ممکن ہے، آپ اُوب جائیں۔ جمائیاں لینے لگیں۔ مگر یہ پھیلتی جائے گی۔ اسے منطقی انجام تک پہنچانے کا فقط ایک طریقہ ہے کہ بادشاہ کو جگا دیا جائے۔ مگر اتنا سہل نہیں کہ شاہی پلنگ آسیبی ہے۔

اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ بدقسمت بادشاہ کی کہانی ہے، تو آپ غلط ہیں۔ درحقیقت یہ شاہی پلنگ کی داستان ہے۔ جو ایسی مہلک نیند طاری کرتا ہے کہ ریاست کی گرتی دیواریں پکارتی رہ جاتی ہیں، مگر سونے والوں کی نیند نہیں ٹوٹتی۔

جب یہ تحریر آپ تک پہنچے گی، نہ جانے پُلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا ہو۔ شاید کئی زلزلے آ چکے ہوں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ سب جوں کا توں ہو۔ اندیشے، خدشات حقیقت کا روپ اختیار کرنے سے کتراتے رہیں۔

ملک کے باشعور طبقات کے لیے ’’عوامی امنگیں‘‘ ایک چیستان۔ ’’ملک نازک دور سے گزر رہا ہے‘‘؛ یہ نعرہ کثرت استعمال کی وجہ سے وقعت کھو بیٹھا۔ اُنھیں دھرنوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ہاں، جمہوریت کی فکر البتہ کھائے جا رہی ہے۔ جمہوریت، جو اپنی بدترین شکل میں بھی آمریت سے بہتر ہے۔ جمہوریت، جس کے نمایندے وزیر اعظم پاکستان ہیں۔ جمہوریت، جس نے اُنھیں عوام کی خدمت کے لیے تیسری بار یہ منصب عطا کیا۔۔۔ بدقسمتی سے آج اِس جمہوریت کا چہرہ گہنا گیا ہے۔ اگر کبھی بساط لپیٹی گئی، تو اس کی ذمے داری حکمرانوں پر بھی عاید ہو گئی، جو حقائق کا ادراک کرنے میں ناکام رہے۔ انجان بنے رہے۔ قدم قدم پر غلطیاں کیں، اور پھر اُنھیں دہرانے کا سلسلہ جاری رکھا۔

موجودہ مسئلے کو چند ماہ قبل حل کیا جا سکتا تھا، مگر شاید یہ اقتدار کا نشہ تھا یا پھر نا اہل مشیر کہ اِس جانب توجہ دینے کی زحمت نہیں کی گئی۔ ایک ایف آئی آر اور چند انتخابی حلقوں کا جائزہ شاید عوام کو اِس عظیم اذیت سے محفوظ رکھتے۔

عمران خان اور طاہر قادری کا طریقہ بلاشبہ غلط، جذباتی اور غیر آئینی، مگر حکمرانوں کی غفلت کو نظرانداز کرنا فقط جانب داری ہو گی۔ غیر سنجیدگی اور لاتعلقی، جو شاید ہیوی مینڈیٹ کی دین ہے، معاملات بگاڑتی چلی گئی۔ فوج کو اِس معاملے میں شامل کرنا ایک بھاری غلطی تھی کہ اِس شمولیت کے بعد ’’سہولت کاری‘‘ اور ’’ثالثی‘‘ کی لسانی بحث غیر متعلقہ ہو گئی۔ فیصلے پر تنقید ہوئی، تو پارلیمنٹ میں وہ موقف اختیار کیا گیا، جو بگاڑ میں اضافے کا باعث بنا۔ فوج اور حکومت کے درمیان جنم لینے والی خلیج نے اندیشوں کو ہوا دی۔ رہی سہی کسر تشدد نے پوری کر دی، جس میں خون کی بو شامل ہوئی، تو نظام کی شکست و ریخت واضح ہوتی گئی۔

ممکن ہے، حکومت اِس بحران سے نکل جائے۔ ممکن ہے، تاریخ ساز اجلاس میں، جہاں نہ تو دھاندلی کی شفاف تحقیقات کا وعدہ کیا گیا، نہ ہی انتخابی اصلاحات کا کوئی دعویٰ، ’’باغی‘‘ اور ’’جیالوں‘‘ کی تنقیدی تقاریر سے کچھ سبق حاصل کر لیا جائے۔ ممکن ہے، حالات سدھر جائیں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ حکومت وہ قوت، جس پر اُسے ناز تھا، کھو چکی ہے۔ اور اس کا سبب شاید انا کے خول بنے۔ وہ وزراء بنے، جو رات کے اندھیرے میں پولیس اہل کاروں کے کاندھے تھپتھپاتے اور دن کے اجالے میں انھیں پرتشدد کارروائیوں سے روکنے کا سوانگ بھرتے۔ ذمے دار وہ تجزیہ کار بھی ہیں، جنھوں نے جذبات میں لُتھڑی پیش گوئیاں کرتے ہوئے یہ سمجھے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ حقیقت سطح آب پر جنم لینے والی لہروں میں نہیں، زیر آب بہاؤ میں پنہاں ہوتی ہے۔ وہ یہ سمجھ نہیں پائے کہ سامنے پھیلے مناظر فقط التباس ہیں۔ فوٹو گراف۔ سطحی اور بے رنگ۔

تو شاہی پلنگ آسیب زدہ ہے، یا پھر ممکن ہے، کوئی بددعا بادشاہ کا تعاقب کر رہی ہو۔ مگر مسئلہ یہ نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اب سامعین اُوب چکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔