جنگ ختم نہیں، مؤخر ہوئی ہے

نصرت جاوید  جمعرات 4 ستمبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

قطعی طور پر سیاسی معاملات کبھی کبھار ایسے مراحل میں داخل ہو جاتے ہیں جنھیں سمجھنے کے لیے صرف جنگ کی منطق استعمال کرنا پڑتی ہے۔ 14 اگست 2014ء سے اسلام آباد میں جاری دھرنوں کو بھی آپ صرف فیصلہ کن جنگوں کے تناظر میں سمجھ سکتے ہیں۔

جنگوں میں سب سے اہم فریقین کے چند طے شدہ اہداف ہوا کرتے ہیں۔ میں اس بات پر اصرار کرتا ہوں کہ ان دھرنوں کا حتمی ہدف صرف نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کروانا نہیں تھا۔ اصل مقصد 2013ء کی مئی میں ہوئے انتخابات کو ’’جعلی‘‘ ثابت کرنا تھا۔ موجودہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے برقرار رہنے کا اس وقت ہرگز کوئی جواز باقی نہ رہتا اگر ان کے نتائج کو ایک بار ’’منظم دھاندلی‘‘ ثابت کر دیا جاتا۔ عمران خان اسپتال سے صحت یاب ہو کر جب اس قومی اسمبلی میں تشریف لائے تو ان کا حتمی ہدف یہی ایک پوائنٹ تھا۔ فیصلہ کن جنگ لڑنے سے پہلے آپ مگر اپنے حریف کو مختلف جھانسوں سے جنھیں ماہرینِ حرب Deception Plan پکارا کرتے ہیں مخمصے کا شکار بنایا کرتے ہیں۔ وہ طے ہی نہیں کر پاتا کہ اس کے دشمن کا حتمی ہدف کیا ہے۔

قومی اسمبلی کے ’’صرف چار حلقوں‘‘ کا آڈٹ ایسا ہی ایک جھانسہ تھا۔ بظاہر بے ضرر دِکھنے والے اس مطالبے کا حقیقی مقصد نامزد کردہ چاروں حلقوں میں سازشی منصوبہ بندی کے ساتھ مبینہ طور پر منظم دھاندلی کو ثابت کرنا مقصود تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر ایسی دھاندلی ثابت ہو جاتی تو اپوزیشن کی دوسری جماعتیں اور خاص کر پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے چند سرکردہ رہ نما بھی اپنے حلقوں سے آئے نتائج کے آڈٹ کی دہائی دینے پر مجبور ہو جاتے۔ یہاں مجھے یہ دعویٰ بھی کر لینے دیجیے کہ 1985ء سے خود کو محلاتی سازشوں کے بارے میں اپنے تئیں ماہر بنے چوہدری نثار علی خان اس منصوبے کو سمجھ ہی نہ پائے۔

عمران خان کی حلف اٹھائے جانے کے بعد ہوئی طویل تقریر کے فوراََ بعد انھوں نے اپنے ساتھیوں اور قیادت سے کوئی مشورہ کیے بغیر قومی اسمبلی کے اسپیکر سے جواب دینے کے لیے مائیک مانگ لیا۔ میں اس دن قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں موجود تھا۔ وزیر داخلہ کی جوابی تقریر سنتے ہوئے مجھے یہ طے کرنے میں کوئی دیر نہ لگی کہ چوہدری صاحب درحقیقت Trap میں آ گئے ہیں۔

مئی 2013ء کے انتخابی عمل کا شدت سے دفاع کرنے کے بجائے انھوں نے کمال اعتماد اور فراخ دلی سے بلکہ 4 کے بجائے 40 حلقوں کے نتائج کا آڈٹ کرنے کی پیش کش کر ڈالی۔ یہ پیش کش کرتے ہوئے انھوں نے انتخابی عمل کے دوران استعمال ہوئی سیاہی کا مناسب ذکر کیے بغیر یہ اعتراف بھی کر ڈالا کہ قومی اسمبلی کے بے شمار حلقے ایسے ہیں جہاں پول ہوئے 50 سے 60 ہزار ووٹوں کی مناسب تصدیق ممکن ہی نہیں۔ وزیر داخلہ کے اس اعتراف کا عمران خان تواتر کے ساتھ اپنی تقریروں میں حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے اپنے بیان کی وضاحت کے لیے بعد ازاں ایک دو پریس کانفرنسیں بھی کیں مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔

وزیر داخلہ کی نیت پر کوئی شبہ کیے بغیر میں خالصتاََ سیاسی وجوہات کی بناء پر ان کے تحریک انصاف کے ساتھ اس ضمن میں دوستانہ رویہ اختیار کرنے والے رویے کو سمجھ سکتا ہوں۔ چوہدری صاحب کی اصل ترجیح ان دنوں طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا تھی۔ عمران خان کئی برسوں سے خود بھی اس سوچ کے شدید حامی تھے۔ لہذا حکومت اور عمران خان باہم مل کر طالبان کے خلاف آپریشن والے مطالبے کی شدت میں کمی لا سکتے تھے۔ بات مگر مذاکرات کرنے یا نہ کرنے والے سوال تک محدود نہ تھی۔ شمالی وزیرستان میں کوئی فوجی آپریشن نہ کرنے کا اصل جواز پورے پاکستان میں پھیلے Sleepers  Cells  کے ذکر کے ذریعے پیش کیا جاتا تھا۔

ان Cells کا مسلسل ذکر کرتے ہوئے پاکستانی عوام کی اکثریت کو یہ سمجھا دیا گیا کہ جیسے ہی پاکستانی ریاست شمالی وزیرستان میں اپنی رٹ بحال کرنے کے ارادے سے داخل ہو گی تو پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں دہشت گردی کے ڈرامائی واقعات ہونا شروع ہو جائیں گے۔ Sleepers Cells کا خوف پھیلانے کے بعد پھر کہانی یہ بھی چلائی گئی کہ شمالی وزیرستان میں گھسنے سے پہلے ان Cells کا خاتمہ کیا جانا ضروری ہے۔ اسی مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک نام نہاد قومی سلامتی پالیسی وضع ہوئی جس کا حقیقی مقصد پاکستان کے تمام جاسوسی اداروں کو امریکا کے Homeland Security  نام پر بنے ادارے کے اندر اکٹھا کرنا تھا۔

وہ قائم ہو جاتا تو وزیر داخلہ پاکستان میں انٹیلی جنس کے تمام اداروں کے حتمی سربراہ بن جاتے۔ نیت درست اور ارادے نیک تھے کہ مگر قومی سلامتی پالیسی کے مجوزہ ادارے کی تشکیل نے قومی سلامتی کے چند دوسرے حلقوں میں شدید شبہات پیدا کر دیے۔ ایک حوالے سے وہ کش مکش شروع ہو گئی جسے انگریزی میں لکھنے والے ریاستی اداروں کے مابین Turf Wars پکارا کرتے ہیں۔ ایسی کش مکش کے تیز تر ہونے سے کہیں پہلے مگر شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہو گیا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے مطالبے کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمران خان کو اس آپریشن کی شدید مخالفت کرنا چاہیے تھی۔ ایسی مخالفت کے ’’سنگین نتائج‘‘ کا مگر انھیں بخوبی علم تھا۔ انھیں لیکن سیاست میں بھی تو رہنا تھا۔ اسی لیے آپریشن اور اس کے خلاف اپنے کئی برس پرانے موقف کو بھلا کر وہ ’’چار حلقوں‘‘ کی دہائی دینا شروع ہو گئے۔

اسی دہائی کو مگر خلقِ خدا کی اکثریت نے کوئی پذیرائی نہ بخشی۔ بات بنتی اور ہدف حاصل ہوتا نظر نہ آیا تو جون کے مہینے میں لندن میں ملاقاتوں کے طولانی دور شروع ہو گئے جن کے نتیجے میں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک بار پھر پاکستان لوٹ کر اس ملک کو ’’ظلم اور کفر پر مبنی جمہوری نظام‘‘ سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کے عزم کا اظہار کر دیا۔ ان کے اس اعلان نے یقینی طور پر نواز حکومت کو حواس باختہ کر دیا۔ حواس کھو دینے کے اسی عالم میں سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو گیا اور اس کے لیے 14 اگست کے دھرنوں کو روکنے کے تمام اخلاقی جواز ختم ہو گئے۔ اخلاقی قوت سے محروم ہونے کے بعد نواز حکومت اس قابل ہی نہ رہی کہ ریاستی جبر اور سیاسی اقدامات کی آمیزش کے ساتھ اسلام آباد آتے دھرنوں کو کماحقہ Tackle کر سکتی۔

نواز شریف ان دھرنوں کو جھیل پائے تو صرف اس وجہ سے کہ اسلام آباد میں در آئے Storm Troopers اس شہر میں داخل ہونے کے بعد بے پناہ عوامی ہجوم کے ساتھ مکمل انتشار کے طاقتور نمونے نہ دکھا پائے۔ دھرنوں کے دن پھیلتے چلے گئے اور بالآخر اس مقام پر پہنچے جسے ماہرینِ حرب Saturation Point  کہا کرتے ہیں۔ اس مقام پر جامد ہو جانے کے بعد بھی دھرنے والے اپنے اہداف حاصل کر سکتے تھے اگر پاکستان قومی اتحاد کی 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کی طرح لاہور، کراچی، فیصل آباد اور ملتان وغیرہ میں ’’محض لاٹھی گولی کی طاقت‘‘ پر چلتی حکومت کو بے نقاب کیا جا سکتا۔

اسی ناکامی کے بعد تحریک انصاف اور منہاج القرآن کو واپسی کے باعزت راستے درکار تھے۔ میرے اس کالم کے لکھنے تک حکومت اور پارلیمان میں بیٹھی اپوزیشن باہم مل کر ایسے ہی راستے فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بظاہر معاملات بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ ’’جنگ‘‘ ابھی بھی ختم نہیں ہوئی تھوڑی دیر کے لیے مؤخر ہو گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔