سانحہ ماڈل ٹاؤن!! ایف آئی آر درج کرنے میں غیر ضروری تاخیر کی گئی

اجمل ستار ملک  جمعـء 5 ستمبر 2014
قانونی و آئینی ماہرین کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔  فوٹو: شہباز ملک/ایکسپریس

قانونی و آئینی ماہرین کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: شہباز ملک/ایکسپریس

17 جون کو ہونے والے سانحہ ماڈل ٹاون کے حوالے سے عدالت کے احکامات پر مقدمہ درج ہو چکاہے اور مدعی پارٹی کے اعتراضا ت پر دوبارہ عدالتی حکم پر اس میں ان کی مطلوبہ دفعات بھی شامل کی جاچکی ہیں۔ حالیہ بحران اور مقدمہ کے قانونی پہلوؤں پر گفتگو کرنے کیلئے گزشتہ دنوں مختلف قانونی و آئینی ماہرین کو ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

محمد رمضان چودھری (وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل)

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس کو ہم جمہوری کہتے ہیں جہاں آئین کی بالا دستی ہے۔ یہاں رول آف لاء ہے یعنی قانون کی حکمرانی ہے۔ جبکہ آئین کہتا ہے کہ سب برابر ہیں اس لئے سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہئے۔ ہمیشہ خرابیاں اسی وقت پیدا ہوتی ہیں جب بڑے لوگ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور انا کا مسئلہ آڑے آ جاتا ہے۔ جب وہ لوگ جنہوں نے قانون پر عملدرآمد کروانا ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جب میں اسی تناظر میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کو دیکھتا ہوں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی ذی شعور اس سانحہ کا دفاع نہیں کر سکتا۔

ایک ایسی جگہ جہاں بہترین گورننس کا دعویٰ کیا جاتا ہے اس صوبے میں ایک ایسا واقعہ ہو جاتا ہے جس میں 14 بیگناہ افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے جبکہ 90 افراد کو زخمی کر دیا جاتا ہے۔ جہاں تک میرا تجربہ ہے تو پولیس کبھی ایسے واقعات میں خود گولی نہیں چلاتی۔ جب تک کوئی اسے حکم نہیں دیتا۔ بہر حال ایک واقعہ ہو جاتا ہے خواہ کسی کی غلطی سے بھی ہو۔ اس میں 14 لوگوں کی لاشیں اور 90 زخمی افراد تو موجود ہیں۔ اور ان کے ورثاء اگر ایف آئی آر درج کروانے جائیں تو پولیس افسر پابند ہے کہ اس کی استدعا پر ایف آئی آر درج کرے۔

اور اس کو درج کرنے کے بعد تفتیش کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اور اگر کوئی ٹھوس ثبوت اور شہادت مل جائے تو ملزموں کی گرفتاری کا عمل آ سکتا ہے اور اگر  ثبوت نہ ہو تو گرفتاری نہیں ہو گی اور آخر کار 14 روز کے اندر چالان مکمل کر کے عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔ جو گنہگار ہو گا اسے سزا ہو جائے گی۔ یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ کتنی سزا دیتی ہے۔ جبکہ جو بیگناہ ثابت ہو گا وہ باعزت بری ہوجائے گا اور ایک بات قابل ذکر ہے کہ باعزت بری ہونے والے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس پارٹی کے خلاف ہر جانے کا دعویٰ دائر کر دے جس نے اسے اس کیس میں غلط طور پر ملوث کیا ہوگا۔

ایک اور بات اہم ہے کہ کیس کی تفتیش کے دوران بھی اگر کوئی بیگناہ ہو تو اس کا نام پرچے میں سے خارج کیا جا سکتا ہے۔ اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھ کر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ اس وقوعہ کی ایف آئی آر درج کرنے میں 73‘ روز کی تاخیر میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ رول آف لاء کا ایک سیدھا سادھا طریقہ کیوں نہیں اختیار کیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے اور میں تو اسے مجرمانہ غفلت قرار دوں گا کیونکہ محض اس وجہ سے جب احتجاج شروع ہوئے تو پورے کا پورا ملک دو ماہ سے زائد عرصہ سے اعصابی تناؤ کا شکار بن گیا۔ اور پورے ملک کی معیشت جام ہو گئی اور ادارے کام نہیں کر رہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس غیر ضرروی تاخیر پر بھی ارباب اختیار کو نوٹس لینا چاہئے۔ آپ اندازہ کریں کہ جب آپ نے ایف آئی آر درج کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پھر آئی جی کے گھر بیٹھ کر پولیس کو گھر بلا کر درج کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ سیدھے طریقے سے تھانے میں بیٹھ کر درج کرتے۔ آپ کے اس عمل سے بھی شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوںکہ رول آف لاء پر زور دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہم کہتے ہیں کہ قانون کو اپنا راستہ لینے دیں۔ بڑے چھوٹے کی بات نہ کی جائے۔ اگر بڑے لوگوں کے نام اس میں آ گئے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ ویسے بھی قانون سے بالاتر کوئی نہیں۔

یہاں یہ بھی وضاحت کرتا چلوں کہ استعفیٰ کی باتیں ہو رہی ہیں تو قانون کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب یا کوئی اورمحض ایف آئی آر کی بنیاد پر استعفیٰ دینے کے پابند نہیں ہیں۔ جب تک ان کو سزا نہیں ہوتی اس وقت تک قانون کے مطابق کوئی ان سے استعفیٰ نہیں مانگ سکتا۔ قانون میں کہیں ایسا نہیں ہے۔ تاہم دوسری طرف دیکھا جائے تو ایک اخلاقیات کا قانون بھی ہے۔ کیونکہ آپ جتنے مرضی سینئر اور ایماندار افسران پر مشتمل مشترکہ انوسٹی گیشن ٹیم بنالیں۔

کل کو یہ اعتراض آئے گا کہ وہ سب آپ کے ماتحت تھے۔ آپ ہی ان کی تعیناتیاں کرنے والی اتھارٹی تھے۔ اس لئے اس تفتیش کی شفافیت پر اعتراضات اٹھیں گے۔ اس لئے میں کہوں گا کہ اگر آپ نے اس ملک میں جمہوریت رکھنی ہے۔ ا گر آپ نے یہاں قانون کی حکمرانی رکھنی ہے اور اگر آپ نے اداروں کو مضبوط کرنا ہے توپھر آج وقت ہے کہ آج قانون کو اپنا راستہ بنا لینے دیں۔ اگر آج قانون کاراستہ روکا گیا تو پھر اس گاڑی کو دوبارہ پٹڑی پر آنے میں بہت عرصہ لگ جائے گا۔

جہاں تک حالیہ بحران کا تعلق ہے تو اس میں ہم نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ ہم اس سارے سلسلے میں مکمل طور پر غیر جانبدار رہیں گے اور اس حوالے سے ہم اپنی خود مختاری‘ غیر جانبداری پر کسی بھی صورت کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریںگے۔ نہ تو ہم کسی کی حکومت گرانے کے لئے نکلیں گے اور نہ ہی کسی کی حکومت بچانے کے لئے نکلیں گئے۔ ہم صرف آئین اور قانون کی بات کریں گے۔ گزشتہ دنوں اس سلسلے میں تمام ریاستی اداروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ہم نے ہڑتال کی کال دی اور پیغام دیا کہ ہم ریاستی اداروں کے ساتھ ہیں۔

میں آج بھی دوبارہ اسی بات کا اعادہ کر رہا ہوں کہ وکلاء برادری اس سارے تناظر میں غیر جانبدار ادارہ ہے۔ ہم کسی طرح سے فریق نہیں ہیں۔ ہم صرف قانون کی حکمرانی کی بات کریں گے۔ ہم ریاستی اداروں کی مضبوطی چاہتے ہیں۔ ہم نے اپنی محترم عدلیہ سے بھی درخواست کی کہ اس سارے مسئلے میں بالکل غیر جانبدار رہنا چاہئے یہ ایک سیاسی لڑائی ہے اس لئے اسے سیاسی فورم پر ہی حل ہونا چاہئے۔ ہماری عدلیہ ایک مقدس ادارہ ہے لہٰذا براہ کرم عدلیہ کو نہ اس میں گھسیٹا جائے نہ اسے ملوث کیا جائے۔ہماری عدلیہ کو اس سیاسی جھنجھٹ سے دور رہنا چاہئے ماضی میں بدقسمتی سے سابق چیف جسٹس نے کچھ ایسے متنازعہ سیاسی فیصلے دیئے جس کا خمیازہ آج قوم بھگت رہی ہے۔

ان کی بوئی ہوئی فصل آج ہم کاٹ رہے ہیں۔ اس لئے ہماری موجودہ عدلیہ پر بھاری ذمہ د اری ہے کہ وہ موجودہ صورتحال میں بالکل غیر جانبدار رہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ کا ادارہ بھی بہت مقدم ہے۔ اسی پارلیمنٹ کی وجہ سے ملک میں جمہوریت ہے۔ اسی جمہوریت کا حسن ہے کہ آج میرے جیسا غریب آدمی بھی پاکستان بار کونسل کا وائس چیئرمین ہے۔ اس لئے ہم پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم سیاستدانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ خدارا فوج کو سیاست سے دور رکھیں۔ اس اہم ترین ادارے کو ان باتوں میں نہ گھسیٹا جائے۔

نہ تو وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ فوج کو سیاسی بحرانوں کے حل کے لئے بلائے اور نہ ہی دیگر سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ فوج کو ان سیاسی معاملات میں ملوث کرنے کی کوشش کریں۔ فوج ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنے والا اہم ریاستی ادارہ ہے۔ جس طرح ہم نے عدلیہ سے درخواست کی ہے اسی طرح ہم اپنی افواج پاکستان سے بھی گزارش کریں گے کہ ان سیاستدانوں کو اپنے مسائل اپنے سیاسی پلیٹ فارم پر حل کرنے دیں۔ اگر سیاستدان ناکام ہوتے ہیں تو پھر اپنی ناکامی کا اعتراف کریں۔

ایک طرف حکومت آرٹیکل 245 کا نفاذ کر رہی ہے اور فوج کو طلب کر رہی ہے جس سے شاید وہ ثابت کر رہے ہیں کہ سول ادارے ناکام ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف احتجاج والی پارٹیاں بھی فوج کی طرف دیکھنا شروع کر دیں تو ایسے حالات میں فوج کیا کرے؟ اس لئے میں درخواست کرتا ہوں کہ اس طرح کے معاملات میں فوج کو نہ گھسیٹا جائے اور اگر آپ سب کی کوتاہیوں اور ناکامیوں کی وجہ سے کل کو فوج کو آنا پڑ گیا تو پھر اس کو الزام نہیں دے سکیں گے۔ اس لئے میں کہوں گا کہ تمام اداروں کو آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنا اپنا کام کرنے دیں۔

شفقت چوہان (صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن)

سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب حکومت کو اس وقت ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے بیریئر ہٹانے کی بات ہی نہیں کرنا چاہئے تھی جس کے نتیجے میں وہ افسوسناک واقعہ رونما ہوا اور 14 افراد موت کی آغوش میں چلے گئے اور کئی زخمی ہو گئے۔ اور پھر میرے خیال میں جو بھی حالات تھے اس واقعہ کی ایف آئی آر میں غیر ضروری تاخیر سے کام لیا گیا۔ چونکہ قانون کے مطابق مدعی کا حق ہوتا ہے کہ اس کی د رخواست پر مقدمہ درج ہونا چاہئے۔

حکومت کو اسے بھی روٹین میں ڈیل کرنا چاہئے تھا۔ کیونکہ قانون سب کے لئے برابر ہے۔ بہرحال اب تو مقدمہ درج ہو چکا ہے اور مدعی کی درخواست کے مطابق دفعات بھی شامل کی جا چکی ہیں۔ اس لئے اب اس پر قانون کے مطابق عملدرآمد بھی ہو گا۔ اب اس کی تفتیش کے لئے ایک اعلیٰ سطحی تفتیشی ٹیم بننی چاہئے اور میرا خیال ہے کہ شاید ایک ٹیم تشکیل دی جا چکی ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ وہ ٹیم میرٹ پر اس کی تفتیش کرے گی۔جیسا کہ یہاں پہلے بھی کہا گیا ہے کہ عدلیہ کو سیاسی معاملات میں نہ گھسیٹا جائے۔

ہم نے بار ایسوسی ایشنز کے پلیٹ فارم سے ایک تو متفقہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ کسی بھی ماورائے آئین اقدام کے خلاف ہم متحد ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشنز کا ایک کنونشن بھی منعقد کیا گیا۔ اب لاہور ہائی کورٹ بار‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان ہائیکورٹ بار الگ الگ پٹیشن دائر کر چکی ہیں جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان دھرنوں میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے عدلیہ کے سامنے واضح طور پر مؤقف اپنایا ہے کہ ہم کبھی بھی عدلیہ کو سیاسی معاملات میں آنے کا نہیں کہیں گے اور ہمارا کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ہم بار ایسوسی ایشنز ہیں اور آئین کا تحفظ کرنا اور قانون کی حکمرانی پر ڈٹ جانا ہی ہمارا کام ہے۔ ہم چاروں ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشنز نے پہلی دفعہ ایک ساتھ ہڑتال کی کال دی اور اپنا یہ پیغام دیا کہ آئین کے خلاف کوئی بھی اقدام قبول نہیں کیا جائے گا۔ جہاں تک ان دھرنوں میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی بات ہے تو یہ لوگ بھی کہتے ہیں کہ دھرنے دینا انکا بھی بنیادی حق ہے۔ تو عدلیہ اس پر کہہ چکی ہے کہ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ جہاں سے آپ کا حق شروع ہوتا ہے وہیں سے دوسرے کے حقوق کا احترام کرنے کی آپ کی ذمہ داری بھی شروع ہو جاتی ہے۔

ہمیں کہا جاتا ہے کہ وکلاء بھی تو لانگ مارچ کرتے رہے ہیں توانہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے آمریت کے خلاف لانگ مارچ کئے تھے۔ ہم جمہوری نظام کے خلاف نہیں تھے۔  میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ آپ دس بیس ہزار افراد کے ساتھ آئیں اور نظام کو ختم کرنے کی باتیں کرنا شروع کر دیں۔ اس طرح تو کل کو کوئی دوسرا بھی آجائے گا۔

اس طرح سے جمہوری نظام کیسے چل سکے گا؟ اس لئے میں کہتا ہوں کہ فرض کر لیں کہ ہماری موجودہ جموریت لولی لنگڑی ہے۔ اس کے اندر بے شمار نقائص ہیں لیکن اسے ختم کرنے کی بجائے اس کی بہتری کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہماری خواہش ہے کہ آئین کا ہر حالت میں تحفظ ہونا چاہئے اور تمام ادارے اپنی اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کریں اور پارلیمنٹ میں جو پہلی بار اتفاق رائے دیکھنے میں آیا ہے وہ بھی قابل تحسین ہے۔

اعظم نذیر تارڑ (ممبر پاکستان بار کونسل)

مدعی کا قانونی حق ہے کہ وہ وقوعہ کے بارے میں رپورٹ کرے۔ اس کیس میں بھی منہاج القرآن کے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن نے ایک تحریری درخواست دی اور انہوں نے درخواست میں جو کچھ تحریر کیا وہی من و عن اس ایف آئی آر کا متن ہے۔ جس طرح کسی بھی مقدمہ کے اندراج کے لئے درخواست دینا مدعی کا حق ہوتا ہے بالکل اسی طرح قانون کے تحت اس مقدمہ کی دفعات لگانا پولیس کی ذمہ داری اور اختیار ہوتا ہے کہ وہ درخواست پڑھ کر دیکھیں گے کہ کون کون سی دفعات لگتی ہیں۔ البتہ اگر مدعی کو کسی دفعہ کے لگنے یا نہ لگنے پر اعتراض ہو تو اسے دوبارہ عدالت سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔

جیسا کہ اس کیس میں بھی ہوا ہے۔ کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے جب اعتراض آیا کہ اس پرچے میں دہشت گردی کی دفعات کو شامل نہیں کیا گیا اور انہوں نے متعلقہ عدالت سے دوبارہ درخواست کی کہ وہ جائزہ لے۔ چنانچہ عدالت نے ان کی درخواست کا جائزہ لے کر دوبارہ حکم جاری کیا کہ ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات کو بھی شامل کیا جائے چنانچہ اب وہ دفعات بھی ایف آئی آر کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہاں ایک کنفیوژن کو بھی کلیئر کرنا چاہتا ہوں کہ عدالت نے پرچہ درج کرنے کے فیصلے میں جو کہا ہے کہ ملزمان کو گرفتار نہ کیا جائے تو یہ پہلے سے قانون موجود ہے۔ عدالت نے صرف پولیس کو remind کروایا ہے۔

اس سلسلے میں ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے بے شمار فیصلے بھی موجود ہیں جن میں سپریم کورٹ نے جسٹس آف پیس‘ اندراج مقدمہ‘ تفتیش کی تبدیلی‘ پولیس کا ہراساں کرنا وغیرہ کے بارے میں واضح گائیڈ لائن دی ہیں اور واضح کیا ہے کہ لوگ ایف آئی آر کے اندراج سے گھبراتے ہیںاور سمجھتے ہیں کہ ایف آئی آر کے اندراج کا مطلب ہے کہ انہیں مجرم قرار دے دیا گیا ہے اور اب پولیس آ کر انہیں گرفتار کر لے گی۔ حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ ساری دنیا میں قانون موجود ہے اور ہمارے ہاں بھی یہی قانون ہے۔ تفتیشی کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ تفتیش کی حتمی رپورٹ پیش کرنے تک وہ ملزم کی گرفتاری کو التوا میں رکھے۔

اور یہ قانونی اختیار اسے آج نہیں بلکہ ڈیڑھ سو سال سے حاصل ہے جب سے ضابطہ فوجداری بنا ہے۔ اس لحاظ سے موجودہ کیس میں عدالت نے صرف مقدمے کی حساسیت کے پیش نظر پولیس کو یاد دلایا ہے کہ ضابطہ فوجداری اسے اختیار دیتا ہے کہ اپنے اطمینان تک ملزم کو گرفتار نہ کرے۔ میں سمجھتا ہوںکہ پولیس جب ایف آئی آر درج ہوتے ہی ملزموں کی گرفتاری شروع کر دیتی ہے تو وہ دراصل اختیارات سے تجاوز کر رہی ہوتی ہے۔ جہاں تک اب اس مقدمے کے اگلے مرحلے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں قانون تو یہی کہتا ہے کہ کسی بھی مقدمے کی تفتیش کر کے عبوری یا حتمی چالان 14 روز کے اندر اندر عدالت میں پیش کرنا ہوتاہے۔

پہلی تفتیش مقامی پولیس نے کرنا ہوتی ہے۔ جبکہ اعلیٰ پولیس افسران مقدمے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے تفتیش کے لئے پینل بھی مقرر کر سکتے ہیں اور جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بھی بن سکتی ہے۔ جہاں تک اس مقدمہ میں سزاؤں کا تعلق ہے تو ایف آئی آر میں درج دفعات میں 302 کی سزا موت ہے اور عمر قید ہے۔ دفعہ 324 یعنی اقدام قتل کی سزا دس سال تک قید ہو سکتی ہے اور اس کی کم سے کم حد متعین نہیں ہے۔

اسی طرح دفعہ 148 اور149 یعنی اجتماعی طور پر جرم سرزد کرنے کی سزا تین سال تک قید ہے اور بعد میں جو دفعہ یعنی دہشت گردی کی شامل کی گئی ہے اس کی سزا بھی وہی ہے جو 302 کی ہے بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ یہ بہت ہی حساس نوعیت کا اہم ترین کیس ہے اس لئے میرٹ پر اس کی تفتیش ہونی چاہئے۔ جہاں تک حالیہ بحران کا تعلق ہے تو اس خطے میں سول ملٹری تعلقات ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں جو آزادی اظہار رائے اس خطے میں ملی ہے اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔

میں سمجھتا ہوں کہ سیاستدانوں کے لئے یہ کڑے امتحان کا وقت ہے۔ ان کو یہ ثابت کرنا چاہئے کہ وہ سیاسی بحرانوںکو خود حل کر سکتے ہیں۔ ماضی میں انہوں نے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچیں اور اداروں کودعوت دی اور خمیازہ سب نے بھگتا۔ اس لئے تمام فریقین کو یہ سمجھنا چاہئے کہ آپس میں مل بیٹھ کر انا کو ایک طرف رکھ کے ایک میز پر بیٹھ کر معاملات حل کرنے میں بہتری ہے۔ جہاں تک وکلاء برادری کا تعلق ہے تو ہم بالکل غیر جانبدار رہے ہیں اور ہم نے متفقہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ ماورائے آئین کوئی اقدام ہوا تو وکلاء اس کی مخالفت کریں گے۔

رانا اسد (سابق سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن)

میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے مقدمہ درج کرنے میں غیر ضروری تاخیر سے کام لیا ہے۔ اگر یہ مقدمہ بروقت درج کر لیا جاتا تو شاید اس طرح کی گھمبیر صورتحال نہ پیدا ہوتی جو بعد میں پیدا ہوئی۔ اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے اس ایف آئی آر پر اعتراض لگا دیا گیا کہ اس میں دہشت گردی کی دفعات شامل نہیں ہیں۔ بعد میں عدالت نے وہ دفعات بھی شامل کروانے کا حکم جاری کر دیا۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ جب ایف آئی آر میں دفعہ 302 لگ گئی تو باقی دفعات کی اتنی اہمیت نہیں رہتی۔

بہر حال میں یہ بات بھی برملا کہنا چاہوں گا کہ مذکورہ واقعہ میں پولیس نے بہت زیادتی کی۔ اور انہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ اس بات کی تصدیق جوڈیشل کمشن کی رپورٹ میں بھی کی گئی ہے کہ پولیس اور اس کے افسران کی زیادتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے جو پرچہ درج کرنے میں تاخیر سے کام لیا ہے شاید حکومت جوڈیشل کمشن کی رپورٹ کا انتظار کرتی رہی کہ اس کے فیصلے کے بعد اس پر کارروائی شروع کریں گے۔

ایک اور بات کا ذکر کرنا چا ہوں گا کہ اس ایف آئی آر میں ایسے لوگوں کو بھی نامزد کر دیا گیا جو شاید وقوعہ کے وقت وہاں پر تھے ہی نہیں۔ یعنی وزیراعظم اور وفاقی وزراء تک کو نامزد کر دیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں مدعی کی طرف سے درخواست میں جھوٹے الزامات بھی عائد کر دیئے جاتے ہیں جس کا بعدازاں ملزمان فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہر حال اب جیسا کہ پرچہ درج ہو چکا ہے۔ اور مدعی کی درخواست پر اس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی جاچکی ہیں۔

اب اگلے مرحلے میں مقدمہ کی تفتیش شروع ہو چکی ہوگی۔ اور اس کے بعد جو ذمہ داران ہوں گے انہیں سزا ہو سکتی ہے اور جو بیگناہ ہوں گے انہیں بری کر دیا جائے گا۔ جہاں تک عدالت کی جانب سے ملزمان کو گرفتار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تو اس سلسلے میں باقاعدہ قانون موجود ہے کہ محض ایف آئی آر کی بنیاد پر کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا عدالت نے محض اس قانون کی موجودگی کا احساس دلایا ہے کہ ملزمان کو صرف ایف آئی ار کی بنیاد پر گرفتار نہ کیا جائے۔ پولیس صرف اس صورت میں گرفتاریاں کر سکتی ہے کہ اسے خدشہ ہو کہ ملزم کہیں فرار نہ ہو جائے۔ اس لحاظ سے عدالت نے صحیح فیصلہ دیا ہے۔

حالیہ بحران کے حوالے سے اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ فوج اور دیگر اداروں کو سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ ہماری 2007-2008 کی وکلاء تحریک کا مقصد ہی یہ تھا کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہو۔ اس وقت سیاسی جماعتیں تو سامنے نہیں تھیں۔ ہم نے آمریت کا مقابلہ کیا اور بڑی مشکل سے یہاں جمہوریت کو بحال کیا۔ اور 2008ء کے انتخابات ہوئے۔ اس کے بعد 2013ء کے انتخابات ہوئے اور ایک سال بعد کہا جائے کہ ہم جمہوریت کو نہیں چلا سکے اور ہم ثالثی، ضامن یا سہولت کار بننے کے لئے دیگر اداروں کو درمیان میں لے آئیں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ سیاستدانوں کی نااہلی ہے۔

اس میں فوج یا دیگر اداروں کا اپنا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ تو سیاستدان انہیں زبردستی ملوث کرتے ہیں کہ آئیں اور مسائل کو حل کروائیں، بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں کی انا اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس طرح کے اقدامات ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل ہونا چاہئے کیونکہ سیاست میں تو آپ کو ایک دوسرے کو بہت سی رعایات بھی دینی پڑتی ہیں۔ سیاست میں آپ کو دوسرے کے نقطہ نظر کا احترام کرنا پڑتا ہے اور اپنے ہر عمل کا خیال کرنا پڑتا ہے کہ اس کے ریاست پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ہم زبردستی ایسے اداروں کو اپنے سیاسی معاملات میں گھسیٹ لاتے ہیں پھر وہ مجبوراً مداخلت کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔