فصلی بٹیروں کی بزدلی

نصرت جاوید  ہفتہ 6 ستمبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں انقلاب تو کیا ابھی تک نواز شریف کا استعفیٰ بھی نہیں آیا مگر تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان صاحب چینی انقلاب کے رہنما ماؤزے تنگ کی طرح اپنی ہی جماعت کے چند رہنماؤں کے اسی طرح خلاف ہو گئے ہیں جیسے وہ 1960ء کی دہائی کے آخری دو سالوں میں ہو گئے تھے۔ اپنی بات کی وضاحت کے لیے مجھے تاریخی پس منظر سمجھانا ہو گا۔

عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد امریکا کی قیادت میں تمام سرمایہ دارانہ ممالک اس کے خلاف یکجا ہو گئے تھے۔ ماؤزے تنگ کو اپنے ملک میں صنعت کو فروغ دینے کے لیے سوویت یونین اور اس کے اتحادیوں پر مکمل انحصار کرنا پڑا۔ چین مگر بے تحاشہ آبادی والا ایک زرعی ملک تھا جسے اصل ضرورت کاشت کاروں کو جدید زرعی نظام کے ذریعے خوش حالی سے متعارف کروانا تھا۔ زمین کو جاگیرداروں کے تسلط سے آزاد کروانے کے بعد اسے مگر بے زمین کسانوں میں تقسیم نہ کیا گیا۔ تمام زمینیں دیہاتوں کے لیے بنائے ’’کمیونز‘‘ کی اجتماعی ملکیت بنا دی گئیں۔

پورے گاؤں کے بوڑھوں، نوجوانوں اور عورتوں کو باہم مل کر انھیں آباد کرنا تھا۔ کتابی اور رومانی باتیں اپنی جگہ مگر تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کوئی کسان اس وقت تک زمین کو پوری دلجمعی سے کاشت نہیں کرتا جب تک اسے پورا یقین نہ ہو کہ اس کی محنت کا پھل اسے Cash کی صورت میں صرف اپنی ذات اور خاندان کے لیے خرچ کرنے کو ملے گا۔ جبر کے تحت چینی کسان بددلی سے مشترکہ ملکیت قرار دی جانے والی زمین پر کام کرتے رہے۔ اس بددلی کی بدولت چین اپنی تیزی سے بڑھتی آبادی کے لیے بالآخر بنیادی خوراک بھی پوری طرح پیدا نہ کر پاتا اور 1966ء سے وہاں شدید قحط سالی ہونا شروع ہو گئی۔

دریں اثناء ماسکو چین کی بھارت کے ساتھ 1962ء میں ہوئی جنگ سے کافی پریشان ہو چکا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس جنگ کی وجہ سے امریکا اور کمیونزم کے دوران لڑائی میں ’’غیر جانبدار‘‘ سمجھا جانے والا بھارت بتدریج امریکی کیمپ میں چلا جائے گا۔ ماسکو کے خدشات بے بنیاد نہ تھے کیونکہ بھارت چین جنگ کے فوراََ بعد امریکی صدر کینیڈی نے اس خطے میں اپنے ملک کے تاریخی حلیف -پاکستان-کو قطعی نظرانداز کرتے ہوئے بھارت سے دوستانہ روابط استوار کرنا شروع کر دیے تھے۔ان ہی روابط کی وجہ سے بالآخر 1965ء کی پاک۔بھارت جنگ ہوئی جس کا اختتام تاشقند میں ہوئے ایک معاہدے کے ذریعے ہوا اور ہمارے صدر ایوب خان کو الطاف گوہر سے ’’جس رزق میں آتی ہو…‘‘ والی کتاب لکھوانا پڑی۔

چیئرمین ماؤ حقیقت میں ’’نظریاتی‘‘ سے کہیں زیادہ مگر ایک قوم پرست رہنما تھے۔ انھیں ماسکو کی اپنے معاملات میں مداخلت زیادہ پسند نہ آئی اور بالآخر انھوں نے ’’روسی ترمیم پسندوں‘‘ کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ اس بغاوت کے بعد ان کا ملک اقتصادی حوالوں سے پوری دنیا میں بالکل تنہاء ہو گیا۔ چین میں قحط سالی کے ساتھ ہی ساتھ اس کے تمام بڑے شہروں میں بیروزگاری اور غربت خوفناک حد تک پھیلنا شروع ہو گئی۔ سیاست کے انتہائی ذہین ماہر ہوتے ہوئے چیئرمین ماؤ نے یہ بات بھانپنے میں ہرگز دیر نہ لگائی کہ چینی عوام کے دلوں میں پلتا ہوا غصہ بالآخر ان کی ذات اور حکمران جماعت کو اپنا نشانہ بنا لے گا۔ بڑی ہوشیاری سے موصوف نے لہذا ’’خود تنقیدی‘‘ کی ایک پُر جوش تحریک چلا دی۔ اس تحریک کے نتیجے میں غصے سے بپھرے ہوئے نوجوان ’’ریڈ گارڈز‘‘ کی صورت ابھرے جنھیں چیئرمین ماؤ نے “Bombard the Headquarters” کا حکم بھی دے ڈالا۔

چیئرمین کی اندھی عقیدت میں مبتلا ان نوجوانوں نے چن چن کر ان سب رہنماؤں کو نشانہ بنایا جنہوں نے برسوں تک پھیلے لانگ مارچ کے دوران چیئرمین ماؤ کے غلامانہ وفادار رہتے ہوئے چینی انقلاب برپا کیا تھا۔ چوٹی کے ان رہنماؤں کے دفاتر کے باہر یہ نوجوان بڑے بڑے پوسٹر چسپاں کر دیتے۔ ان پوسٹرز کے ذریعے ان رہنماؤں پر مختلف النوع فردِ جرم عائد کی جاتی۔ بنیادی الزام یہ لگتا کہ اپنی سرکاری حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گئے دنوں کے انقلابی اب ’’بورژوا اور بیوروکریٹک‘‘ رویہ اختیار کر چکے ہیں۔ اپنی جوانیاں انقلابی جدوجہد میں صرف کرنے والے ہزاروں ایسے رہنماؤں کو سچے جھوٹے الزامات کے ذریعے بدنام کرنے کے بعد سزا کے طور پر دور دراز کے دیہاتوں میں زمینوں پر ہاریوں کی طرح مشقت کرنے یا قصبات میں قائم چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں میں بے ہنر مزدوروں کی طرح کام کرنے کو بھیج دیا جاتا۔

ایک دہائی سے زیادہ تک پھیلے اس پورے عمل کو ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کا نام دیا گیا جس نے چینی سماج کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ چینی بالآخر خوش نصیب ٹھہرے کہ ماؤ بوڑھے اور بیمار ہو گئے اور ڈینگ سیاؤپنگ جیسے لوگوں نے کمیونسٹ پارٹی اور حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر لوٹ کر چین کو اس راستے پر لگایا جس کے حیران کن نتائج ہم ان دنوں دیکھ رہے ہیں۔ چینی عوام کی اکثریت مگر ابھی تک ثقافتی انقلاب کے دنوں میں بھگتی ہوئی ذلت اور اذیت نہیں بھول پائی۔

عمران خان بھی چیئرمین ماؤ کی طرح ان دنوں بہت ناراض اور اداس ہیں۔ 14 اگست کو جو سوچ کر وہ اسلام آباد روانہ ہوئے تھے کئی دن گزرنے کے باوجود ابھی تک ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔ کپتان مگر دل سے پسپائی کو تیار نہیں۔ واپسی کا ایک حوالے سے باعزت راستہ اسے مل رہا ہے لیکن اسے اپنانا اس کی انا کے لیے بہت تکلیف دے ثابت ہو رہا ہے۔ اپنی انا کو لگنے والی ٹھیس کا مگر عمران خان خود کو بھی ذمے دار ٹھہرانے کو تیار نہیں۔ ماؤ کے ریڈ گارڈز کی طرح انھوں نے بھی تحریک انصاف کے Tigers ڈھونڈ کر ان کے ساتھ براہ راست مکالمہ شروع کر دیا ہے۔

ان کے سامنے وہ برسر عام اعتراف کر بیٹھے ہیں کہ ان کی جماعت میں کئی ’’فصلی بٹیرے‘‘ مئی 2013ء کے انتخابات کے قریب گھس آئے تھے۔ عمران خان اور ان کے ’’نظریاتی‘‘ کارکنوں کے کرشمے اور محنت شاقہ کی بدولت یہ ’’بٹیرے‘‘ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ کر مگر ’’بزدل‘‘ ہونا شروع ہو گئے۔ وہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دے کر ظلم کے نظام کو آخری دھکا دے کر مسمار کرنے کو پوری طرح تیار نہیں ہو پا رہے۔

اپنی جماعت میں گھس آئے ’’فصلی بٹیروں‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے ابھی تک ان کے نام لے کر نشان دہی نہیں کی۔ مگر تحریک انصاف کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ’’سب سمجھتے ہیں مگر سب چپ ہیں‘‘ والا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ Tigers کے دل میں آگ مگر بھڑکا دی گئی ہے۔ جلد ہی وہ شعلہ جوالہ کی صورت اختیار کر لے گی۔ دیکھنا پھر بھی یہ ہو گا کہ تحریک انصاف کے ’’ریڈ گارڈز‘‘ اپنی جماعت کے ’’فصلی بٹیروں‘‘ کے خلاف ان کے دفتروں یا گھروں کے باہر پوسٹر چسپاں کر کے مظاہرے کریں گے یا صرف فیس بک اور ٹویٹر ہی کو اپنے غصے کے اظہار کا ذریعہ بنائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔