اقتصادی صورت حال، تشویش ناک اشاریے

ایم آئی خلیل  ہفتہ 6 ستمبر 2014

ورلڈ اکنامک فورم نے پاکستان کی اقتصادی صورت حال میں اگرچہ قدرے بہتری کی نشان دہی کی ہے، لیکن مجموعی طور پر فورم نے پاکستان کی اقتصادی صورت حال پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ دنوں فورم کی طرف سے ایک رپورٹ 2014-15ء کے لیے جاری کی گئی جس میں اس بات کا اظہار کیا گیا کہ 2 سال مسلسل کمی کے بعد گزشتہ سال سے پاکستان کی پوزیشن مستحکم رہی ہے، تاہم اس نے مسابقت کے بنیادی اور اہم سبقوں میں انتہائی کم مارکس حاصل کیے ہیں، اس طرح اہم مسابقتی سبقوں میں کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیکیورٹی کی صورت حال کو انتہائی ابتر اور بھیانک قرار دیا گیا ہے اور اسے عدم تحفظ کے حوالے سے یمن اور لیبیا کے بعد رکھا گیا ہے یعنی 144 ممالک میں سیکیورٹی کے حوالے سے پاکستان کو 142 واں نمبر دیا گیا ہے۔ یہاں ایک بات کی طرف ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے عرب بہار کے نام سے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں جو لہر دوڑ رہی ہے اور مختلف ممالک میں مظاہرین کے احتجاجی جلسے اور جلوسوں نے مختلف ممالک میں سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا کر دی تھی جس کے باعث کئی ممالک کے حکمران جو کہ ایک طویل عرصے سے اقتدار پر تھے ان کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ مثلاً تیونس، لیبیا و مصر وغیرہ لیکن جن ممالک میں حکومتیں برقرار بھی ہیں لیکن پاکستان میں حالیہ دھرنوں سے قبل کئی سال کے بعد عالمی مالیاتی ادارے اور دیگر ادارے ممالک عالمی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے اس بات کا برملا اظہار کر رہے تھے کہ ملکی معیشت میں گزشتہ 5 سال کے بعد قدرے بہتری کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں۔

یہاں عرب بہار کا ذکر کیا جا رہا تھا کہ جس کے باعث متاثرہ ممالک کی معیشت کو زبردست زک پہنچا ہے۔ لیکن پاکستان میں سیکیورٹی کی صورت حال کو جس لحاظ سے ابتر اور بھیانک قرار دیا گیا ہے اس کی وجہ احتجاجی سیاست نہیں تھی بلکہ نائن الیون کے بعد ایک طویل عرصے سے ملک کی سیکیورٹی کی صورت حال انتہائی ابتر تھی لیکن کچھ عرصے قبل شمالی وزیرستان میں ایکشن لینے کے باعث صورت حال میں بہتری پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی۔ جس کے باعث بیرونی سرمایہ کاروں، تاجروں کا اعتماد قدرے بحال ہوا ہی تھا کہ اب لاہور میں گزشتہ ماہ پیدا ہونے والی صورت حال، لاہور جانے والے راستوں کی ناکہ بندی اور اس کے بعد اسلام آباد میں کشیدہ صورت حال نے ملک کی سیکیورٹی کی صورت حال کو مزید ابتر کر دیا ہے اب ان تما م حالات کے معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم کے جاری کردہ گلوبل کمپٹیٹیو رپورٹ میں ڈبلیو ای ایف نے کہا ہے کہ ملک میں افراط زر کی شرح میں کمی کی وجہ سے پاکستان کی میکرو اکنامک صورت حال میں معمولی بہتری آئی ہے مگر اب بھی اس کی پوزیشن مایوس کن یعنی 137 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے انفرادی اسٹرکچر کو 119 واں نمبر دیا گیا ہے جب کہ بجلی کے ڈھانچے کو 133 واں نمبر دیتے ہوئے پسماندہ قرار دیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت کے قیا م کے بعد چین اور ترکی سے کئی معاہدوں کے نتیجے میں انفرا اسٹرکچر اور بجلی کے منصوبوں کے لیے کئی پراجیکٹ شروع کیے گئے اور عنقریب چین کے تعاون سے مزید کئی معاہدوں کے امکانات ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کا انحصار ملک کی سیکیورٹی کی صورت حال پر ہوتا ہے۔

ادھر بھارت نے کئی بجلی کے منصوبے شروع کر دیے ہیں پاکستان کے تمام تر اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے ان منصوبوں کو مکمل کر رہا ہے۔ جب کہ پاکستان اسی تگ و دو میں ہے کہ کسی طرح سے اگر بڑے ڈیمز تعمیر نہیں ہو رہے تو بجلی کی فوری ضوریات کے لیے بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث تھرمل ذرایع سے اور کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کی جائے۔ اس طرح ابھی تک سستی بجلی کے حصول کے لیے کسی قسم کی واضح منصوبہ بندی موجود نہیں ہے اگر کوئی منصوبہ بنایا بھی جاتا ہے تو عالمی مالیاتی اداروں کی عدم دلچسپی اور فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث یہ منصوبے ناقابل عمل ہو کر طوالت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملک میں صحت اور تعلیم کے شعبے میں اس کی کارکردگی 144 ممالک میں بد ترین ہے۔

اگر صرف صحت اور تعلیم کے شعبے کی کارکردگی کو مد نظر رکھیں تو گزشتہ 2 عشروں سے ملک میں تعلیم کو مہنگا سے مہنگا کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر انٹرسائنس پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ یونیورسٹیز میں داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں کیوں کہ سرکاری اداروں میں سیٹیں رکھنے سے قاصر ہیں اس کے علاوہ پرائمری تعلیم میں ہی یہ حال ہے کہ پہلی دوسری تیسری کلاس تک پہنچتے پہنچتے 50 فی صد یا اس سے زائد طالب علم تعلیم کا سلسلہ ترک کر دیتے ہیں جس کی مختلف وجوہات پیش کی جاتی ہیں۔ وجہ کوئی بھی ہو غربت، تعلیم کا کم معیاری ہونا، اساتذہ کی عدم دلچسپی، طلبا کا تعلیم سے فرار ہونا، تعلیم کے حصول میں مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کرنا اس کے علاوہ بہت سی وجوہات ہیں۔ ہر صوبے کی حکومت وہاں کی وزارت تعلیم اور وفاقی حکومت نیز وزارت تعلیم اور دیگر متعلقہ ادارے اس بات کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتے کہ ان تمام شکایات کا سد باب کیا جائے، تعلیم کا ماحول بہتر بنایا جائے۔

سیکڑوں اسکول ایسے ہیں جن کی عمارت نہیں ہے یا ٹوٹی پھوٹی ہیں، اساتذہ غائب ہیں یا وہاں پر گائے بھینس باندھ دیے جاتے ہیں یا پھر با اثر افراد کے لیے اسکول کو اوطاق یا بیٹھک بنا دیا جاتا ہے ان تمام معاملات کا فوری تدارک کرنے کے لیے کسی قسم کے رویوں، رائے کی بھی ضرورت نہیں ہے صرف عزم اور ولولے کی ضرورت ہے کیوں کہ تعلیم یافتہ پاکستان ہی ملکی معاشی ترقی کا ضامن بن سکتا ہے۔ آخر ہم تعلیم کے معاملے میں 144 ویں نمبر پر کیسے موجود ہیں۔ اسی طرح صحت کا شعبہ ہے جس کے لیے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں، ادویات فراہم کی جاتی ہیں لیکن مریض ان تمام سہولیات سے پھر بھی محروم ہی رہتا ہے ایسی وجوہات کی بنا پر صحت کے شعبے میں بھی ہمارا نمبر 144 واں ہی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں پاکستان کا نمبر 137 واں رہا ہے اور اس کی شرح سب صحارن افریقہ خطے کے علاوہ سب سے زیادہ قرار دی گئی۔ افریقی سب صحارن خطے میں واقع ممالک میں آمد و رفت کی انتہائی ناکافی سہولیات میں دور دراز علاقوں میں رہائش پذیر افراد کا مختلف شہروں میں واقع طبی مراکز تک پہنچنا بعض اوقات محال ہو جاتا ہے جب کہ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ پیسہ اسی بات پر لگا دیا جاتا ہے کہ سڑکیں تعمیر کی جائیں ان کا معیار بہتر بنایا جائے ان کی فوری مرمت کی جائے اور گاؤں دیہات کو سڑکوں سے فوری طور پر ملانے کے اقدامات پر زور دیا جاتا ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود لوگوں کو صحت کے مراکز تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سڑکیں اکثر ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتی ہیں کیوں کہ جو فنڈز مختص کیے جاتے ہیں وہ تعمیر و ترقی کے علاوہ بعض اوقات تقسیم کے لیے بھی ہوتے ہیں اسی طرح تعلیم اور صحت دونوں مسائل حل نہیں ہو رہے، جس ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد روزگار کے حصول میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ جن شعبوں میں ہم بد عنوانیوں، کرپشن وغیرہ ترک کر کے بہتری لا سکتے ہیں ان میں بہتری لا نے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔ بصورت دیگر کئی عشروں سے پاکستان کی معیشت کے بارے میں یہی رپورٹیں چھپ رہی ہیں کہ ملکی اقتصادی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے، عالمی فورم ملکی اقتصادی صورت حال کو مایوس کن قرار دے رہے ہیں، کچھ تو ان باتوں کا ازالہ کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔