غزہ اسرائیل کے مذموم عزائم کا قبرستان بن گیا

عبدالقیوم فہمید  اتوار 7 ستمبر 2014
جنگی جرائم کے مرتکب اسرائیلی حکمران شکست کے غم سے نڈھال ہو گئے ۔ فوٹو : فائل

جنگی جرائم کے مرتکب اسرائیلی حکمران شکست کے غم سے نڈھال ہو گئے ۔ فوٹو : فائل

فلسطین کے ساحلی علاقے غزہ کی پٹی پر08 جولائی سے 26 اگست کی شام تک 51 روز جاری رہنے والی قیامت خیز اسرائیلی بمباری بالآخر ختم ہوئی اور جنگ زدہ 18لاکھ کی آباد ی نے ایک مرتبہ پھر سکھ کا سانس لیا ہے۔

فلسطینی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت حماس، اسلامی جہاد اور الفتح سمیت ایک درجن تنظیموں نے مشروط طور پر مزید 51 دن کے لیے جنگ بندی پراتفاق کیا ہے۔ اللہ کرے یہ عارضی سیز فائر کسی مستقل جنگ بندی معاہدے میںتبدیل ہو او ر مزید خون خرابے کو روکا جاسکے۔

اکاون دن تک اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر اپنی طاقت آزمائی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ جنگ کے دوران حملوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا جائزہ ہم الگ سے لیں گے۔ یہاں اس امر کی وضاحت کرنا مقصود ہے کہ آیا فریقین کن شرائط پر جنگ بندی پرمتفق ہوئے ہیں۔ جنگ میں کون فاتح اور کون ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا ؟ اور جنگ بندی کی کامیابی کے کتنے امکانات موجود ہیں؟ یہاں ان سوالوں کا جائزہ لیا جائے گا۔

جہاں تک غزہ کی پٹی میں طے پانے والی جنگ بندی کی شرائط کا تعلق ہے تو فریقین نے کسی حد تک ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی پالیسی کے تحت جنگ بندی کی ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی مزاحمت کاروں سے مطالبہ کیا کہ وہ یہودی کالونیوں پر راکٹ حملے بند کردیں۔ گوکہ اسرائیل کی جانب سے کئی دوسری شرائط بھی عائد کی گئی تھیں۔

مثلاً یہ کہ فلسطینی اسرائیل کے خلاف مسلح تحریک ختم کردیں، غزہ کی پٹی کو اسلحہ سے پاک علاقہ بنایا جائے اور تمام مسلح فلسطینی گروپ اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیں ۔آغاز کار میں مصر نے بھی ان تجاویز کی حمایت کی تھی لیکن فلسطینیوں نے جرات اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کے اصرار کے باوجود یہ تمام شرائط مسترد کر دیں۔ وہ غزہ کو اسلحہ سے پاک علاقہ نہیں بنائیں گے۔ غزہ کی پٹی میں موجود عسکری تنظیمیں غیر مسلح نہیں ہوں گی۔ حماس اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی اور فلسطینی آزادی کے لیے مسلح جدو جہد کا حق برقرار رکھیں گے۔

البتہ انہوں نے اسرائیل پر راکٹ حملے روکنے کی شرط مان لی ہے۔ یہ کوئی ایسی بڑی شرط نہیں۔ چونکہ جنگ بندی کے لیے دونوں طرف سے حملے روکنا بنیادی ضرورت ہے۔ اگر ایک فریق بھی حملے جاری رکھتا ہے تو یہ جنگ بندی ٹوٹ جائے گی اور دوسرے فریق کو اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانا ہوں گے۔

مذاکرات کی میز پر اسرائیل کو سب سے بڑی شکست یہ ہوئی کہ اسے غزہ کی پٹی کی آٹھ سال سے جاری ناکہ بندی ختم کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ یہ ایک ایسی شرط تھی جس پراسرائیل راضی نہیں تھا۔ اسرائیل کا موقف تھا کہ پہلے فلسطین میں حماس پر مشتمل قومی حکومت ختم کی جائے اور غزہ کی پٹی کو مکمل طور پر فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کیاجائے، اسرائیل کا یہ مطالبہ نہیں مانا گیا، اس کے علی الرغم صہیونی ریاست کو غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی ختم کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

اسرائیل میں دائیں بازو کے انتہا پسند حلقوں کو وزیراعظم نیتن یاھو پر جس بات کا سب سے زیادہ غصہ ہے وہ یہی ہے کہ مسٹر یاھو نے فلسطینیوں کی اہم شرائط مان لی ہیں اور اپنی شرائط نہیں منوا سکا ہے۔ فلسطینیوں کی جانب سے دوسرا مطالبہ غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی نوعیت کے ہوائی اڈے اور ایک بندرگاہ کے قیام کا اٹھایا گیا۔ اسرائیل نے اس مطالبے کو فوری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

تاہم امکان ہے کہ بات چیت کے ایک ماہ کے دوران یہ مطالبہ بھی مان لیا جائے گا۔ اسرائیل نے غزہ کے ماہی گیروں کو چھ کلو میٹر سمندر میں مچھلیوں کے شکار کی اجازت بھی دے دی ہے۔ سابقہ جنگ بندی معاہدوں میں بھی اسرائیل چھ کلو میٹر کا سمندری علاقہ غزہ کو دے چکا ہے لیکن عملًا اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ فلسطینی ماہی گیر وں کو دو کلومیٹر سے زیادہ سمندر میں اندر جانے کی اجاز ت نہیں دی گئی۔ تاہم اس بار مصر نے فلسطینیوں کو ضمانت دی ہے کہ اسرائیل غزہ کے ساحل سے چھ کلو میٹر پیچھے ہٹ جائے گا۔

جنگ کے دوران حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام شہید بریگیڈ کے کارکنوں نے اسرائیل کے ایک فوجی کو ارون شاؤل کو یرغمال بھی بنا رکھا ہے۔ ارون کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں پائی جاتی ہیں کہ وہ جنگ میں شدید زخمی حالت میں پکڑا گیا تھا جو بعد ازاں دم توڑ گیا تھا۔ تاہم حماس کی جانب سے اس کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ یوں ارون کی زندہ یا مردہ اسرائیل کو حوالگی بھی ایک اہم مطالبہ تھا۔

فلسطینیوں نے ارون کی حوالگی کو اسرائیلی جیلوں میں قید اپنے بھائیوں کی رہائی سے مشروط کیا ہے۔ اس موضوع پر پیش آئند ایام میں بات چیت ہوگی اور امکان ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کی کوئی بڑی ڈیل بھی طے پا جائے گی۔ عالمی سطح پر فلسطین، اسرائیل جنگ بندی کو سراہا گیا ہے مگر اسرائیل کے اندرونی حلقوں میں اس جنگ بندی کو اسرائیل کی مذاکرات کی میز پر شکست قراردیا جا رہا ہے۔

اسرائیلی عزائم خاک میں مل گئے
اسرائیل نے جن اہداف ومقاصد کے حصول کے لیے غزہ کی پٹی پر خونی یلغار شروع کی تھی وہ نہ آج پورے ہو پائے ہیں نہ ہی ماضی میںکبھی پورے ہوئے۔ سنہ 2008 اور 09 میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر جنگ اس لیے مسلط کی کہ تاکہ طاقت کے استعمال سے وہاں پر حماس کی منتخب حکومت ختم کی جائے اور حماس کے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے ایک فوجی گیلاد شالیت کو رہا کرایا جائے۔

اسرائیل کے یہ دونوں عزائم ناکام ہوئے۔ حماس کی حکومت ختم ہوئی اور نہ ہی گیلاد کو بازیاب کرایا جا سکا۔ الٹا اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا۔ اب کی بار اسرائیل نے طاقت آزمائی اس لیے کی تاکہ حماس کا دفاعی انفراسٹرکچر تباہ کیا جاسکے۔ غزہ کی پٹی میں کھودی گئی زیرزمین سرنگیں او ر بنکر ختم کیے جائیں اور مزاحمت کاروں کے راکٹوں کا ذخیر ہ تباہ کیا جاسکے۔ یہ تینوں مقاصد بھی بری طرح ناکام رہے۔ اسرائیل کی میدان جنگ میں شکست کی بات صرف فلسطینی نہیں بلکہ خود وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے نہایت قریبی ساتھی بھی برملا اپنی شکست کا اعتراف کر رہے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے مقرب سمجھے جانے والے اخبار’’یدیعوت احرونوت‘‘ نے اپنے اداریے میں لکھا کہ غزہ کی پٹی میں جہاں دو ہزار سے زائد فلسطینیوں کو قتل کرکے انہیں دفن کیا گیا وہیں اسرائیل کے مقاصد اور عزائم بھی غزہ میں دفن ہو کر رہ گئے ہیں۔ فضائی حملوں میں کسی درست ہدف کو نشانہ بنانا ویسے بھی جہاں مشکل ہوتا ہے، وہیں مقاصد کے حصول کا یہ کوئی اہم ذریعہ نہیں ہے۔ اسرائیل نے جب زمینی حملہ کیا تو اسے اندازہ ہوا کہ فلسطینی اس کے اندازوں سے کہیں زیادہ سخت جان واقع ہوئے ہیں۔ یوں نہ تو غزہ کی پٹی میں مزاحمت کاروں کے دفاعی انفرااسٹرکچر کو تباہ کیا جاسکا اور نہ ہی فلسطینیوں کے راکٹوں کے ذخیرے تباہ ہو سکے اور نہ غزہ کی پٹی میں بنائے گئے زیرزمین بنکر ختم کیے جاسکے ہیں۔ اسرائیل کے مقدر میں 70 فوجیوں کی لاشوں ، عالمی تنقید اور معاشی خسارے کے اور کچھ نہیں آسکا ۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیل کی داخلی سلامتی کے خفیہ ادارے’’شن بیٹ‘‘ کے سابق چیف جنرل ریٹائرڈ یووال ڈیسکن نے برملا اعتراف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح اسرائیلی فوج کو غزہ کے میدان جنگ میں شرمناک شکست ہوئی ہے۔

اسی طرح تل ابیب حکومت کو قاہرہ میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ جاری مذاکرات میں میز پر ہتھیار ڈالنا پڑے ہیں۔ وزیراعظم نیتن یاھو نے فلسطینیوں کی تمام شرائط مانی ہیں لیکن اس کے مقابلے میں فلسطینی اسرائیل ایک شرط بھی نہیں مان پائے۔ نیتن یاھو کو شکست کا اعتراف کرلینا چاہیے۔ مسٹر ڈیسکن کا مزید کہنا ہے کہ جنگ بندی سے خوف کا شکار یہودی آباد کاروں کو قدرے سکون کا سانس لینے کا موقع ملا ہے مگر جنگ میں حماس نے جس دفاعی قوت کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہمارے لیے ناقابل یقین ہے۔ کیونکہ یہودی آباد کاروں کو اب یقین ہو چکا ہے کہ آئندہ کسی بھی جنگ میں فلسطینی مزاحمت کار پورے اسرائیل کا نظام زندگی مفلوج کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں۔

غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جارحیت کے رد عمل میں عالمی سطح پر جہاں صہیونی ریاست پر طاقت کے اسلحہ کے بے دریغ استعمال کی مذمت کی جا رہی ہے وہیں فلسطینی مزاحمت کاروں کی اخلاقی برتری کا بھی اعتراف کیا جا رہا ہے۔ عالمی اداروں بالخصوص اسرائیل کی پشتیبان ریاستوں کی جانب سے بھی یہ بات تسلیم کی جا رہی ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے اپنی کارروائیوں کا ہدف صرف جنگ میں شریک فوجیوں کو بنایااور سولین کو کم سے کم نقصان پہنچایا گیا ہے جبکہ اسرائیلی فوج کے فضائی، بحری اور بری حملوں میں شہید ہونے والے 90 فی صد افراد عام شہری ہیں۔ ان میں اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔

غزہ جنگ کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو کی عوامی مقبولیت کے حوالے سے رائے عامہ کے جو جائزے سامنے آئے ہیں ان کے نتائج بھی نہایت خوف ناک ہیں۔ اسرائیلی اخبار’’معاریف‘‘ اور عبرانی ٹیلی ویژن 10 نے اپنی ویب سائیٹس پر حکومت کی مقبولیت کے حوالے سے رائے عامہ کے جائزے تیار کیے۔ ان جائزوں کے نتائج حیران کن حد تک ایک جیسے ہیں ۔ دونوں میں بتایا گیا ہے کہ جنگ سے قبل نیتن یاھو کی عوامی مقبولیت 83 فی صد تھی جو اب کم ہو کر 44 فی صد تک آ پہنچی ہے۔

یہ تمام اعدادو شمار اس با ت کا بین ثبوت ہیں کہ غزہ شہر اسرائیل کے مذموم عزائم کا قبرستان بن گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی عوامی مقبولیت میں 20 فی صد کا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ عالمی برادری نے بھی اس بار فلسطینیوں کی حمایت پر اسرائیل کو آڑے ہاتھوں لیا۔ یورپی ممالک میں پہلی مرتبہ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی موثر اور جاندار مہمات چلائی گئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صہیونی بائیکاٹ کی مہمات میں خود یورپی حکومتیں اور مقتدر حلقے بھی شامل ہیں۔

غزہ جنگ، حقائق اور اعدادو شمار
چونکہ امید کی جا سکتی ہے کہ تازہ جنگ بندی غزہ میں قیام امن کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گی لیکن 51 دن تک جاری رہنے والی اسرائیل کی سفاکانہ کارروائیاں، ان کے نتیجے میں ہونے والا فلسطینیوں کا جا نی و مالی نقصان اور اس کے رد عمل میں فلسطینیوں کے جوابی حملے اور ان میں ہونے والے نقصانات کا بھی ایک طائرانہ جائزہ پیش کیا جائے تو بے جانہ ہو گا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ نے اس حوالے سے ایک بریف نوٹ بھی جاری کیا ہے، جس میں دوطرفہ حملوں اور ان میں ہونے والے نقصانا ت کی مختصر تفصیلات دی گئی ہیں۔

08 جولائی سے 26 اگست تک 51 روز غزہ پراسرائیل کے وحشیانہ حملے جاری رہے۔ اسرائیلی فوج نے مجموعی طور پر 5263 فضائی، زمینی اور سمندری اطراف سے حملے کیے۔ رد عمل میں غزہ کی پٹی سے مزاحمت کاروں نے اسرائیلی تنصیبات پر4564 راکٹ حملے کیے۔ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں 2150 فلسطینی شہید اور 11 ہزار 128 افراد زخمی ہوئے۔

شہداء میں 579بچے، 263 خواتین اور 102 معمر اور زخمیوں میں 3374 بچے،2028 خواتین اور 410 معمر افراد شامل ہیں۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں 49 مرتبہ اجتماعی قتل عام کیا جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر530 افراد شہید ہوئے۔ کارپٹ بمباری سے 2358 عمارتیں کلی طور پر مسمار جبکہ 13 ہزار 644 عمارتوں کو اس حد تک جزوی نقصان پہنچا کہ وہ بھی قابل استعمال نہیں رہی ہیں۔

بمباری میں مساجد کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ اکاون دنوں میں 64 مساجد مکمل شہید اور 109 کو جزوی نقصان پہنچا۔ بمباری کے نتیجے میں غزہ کی پٹی سے 04 لاکھ 66 ہزار بے گھر ہوئے نیز غزہ کی پٹی میں ساڑھے تین ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔134 کارخانے مکمل طورپر تباہ کردیے گئے جس کے نتیجے میں 30 ہزار افراد بے روزگار ہوئے۔ گوکہ جوابی کارروائی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملے زیادہ جان لیوا تو ثابت نہیں ہوئے لیکن اسرائیلی معیشت کو چار ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔