سرسری تم جہان سے گزرے؟

رئیس فاطمہ  اتوار 7 ستمبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

گزشتہ دو کالموں میں جس سانحے کی طرف توجہ دلائی گئی تھی، اس پر قارئین کا بھرپور ردعمل بھی ملا۔ سراہا بھی گیا اور اس کے ساتھ ساتھ چند اور ایسے ہی دلدوز واقعات ای میل اور فیس بک پہ مجھے بھیجے گئے۔ خاص طور سے نام ور محقق عقیل عباس جعفری نے بھی ان واقعات کو پبلک کے سامنے لانے میں مدد کا وعدہ بھی کیا۔

دراصل سوسائٹی میں بگاڑ پیدا ہونے اور اس کی خرابیوں کو دور نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ (Ignorance) یعنی ’’مٹی ڈالو‘‘ والا بدترین رویہ ہے۔ کوئی خود پر تنقید پسند نہیں کرتا۔ اگر کوئی اپنی تحریر اور تجزیے میں ان خرابیوں کے ذمے داروں کا تعین کرے تو سیاق و سباق کے ساتھ سب کچھ قلم زد کر دیا جاتا ہے۔ گویا ہر ادارہ اور اس سے منسلک لوگ بھی اب ایک ’’مقدس گائے‘‘ کا رتبہ حاصل کر چکے ہیں۔ اور جنھیں واقعی مقدس گائے ہونے کا اعزاز حاصل تھا، انھوں نے کسی حد تک اپنے رویوں اور طرز عمل پہ نظر ثانی کی ہے۔ لیکن کچھ دوسری قوتوں اور اداروں نے گردنوں میں لوہے اور اسٹیل کے سریے فٹ کر کے خود کو ایک دیوتا سمجھنا شروع کر دیا ہے۔

دیوتا کے پجاریوں نے بھی خوب خوب فائدے اٹھانے کے گر اور ہتھکنڈے سیکھ لیے۔ نتیجہ سامنے ہے کہ ہم پوری دنیا میں اپنا وقار تو پہلے ہی کھو چکے تھے، اب اپنے متکبرانہ رویے اور خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے سے بدنام بھی ہو رہے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، وہی صورت حال آج تمام اداروں کی ہے۔ اپنی اصلاح تو درکنار یہاں تو بے حد حساس اور اہم اداروں سے وابستہ لوگ بھی ’’سب اچھا ہے‘‘ کی پالیسی پہ عمل پیرا ہیں۔ جتنی تنخواہ ملتی ہے، اتنا ہی کام کرو۔ بلکہ بالکل نہ کرو۔ کیونکہ کام کرنے والوں کو اب احمق سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ چیک اینڈ بیلنس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ میڈیا نے اپنا کردار بڑی خوبی سے نبھایا ہے۔ ہاں اگر سنجیدہ ٹاک شوز کے اینکرز خواتین و حضرات خود کو غیر جانبدار رکھتے اور کسی پارٹی کے نقیب اور حصہ نہ بنتے توان کا وقار شاید سب سے زیادہ بلند ہوتا۔ لیکن افسوس کہ ایک درمیانے درجے کی ذہانت رکھنے والا بھی سارا کھیل باآسانی سمجھ جاتا ہے۔ اینکرز کے پارٹی بن جانے کی وجہ سے ان پر عوام کا اعتماد اور بھروسہ بھی بہت کم ہوا ہے۔ لوگوں نے حیرت سے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔ جب پنکچرز لگانے والے، چڑیاں اڑانے والے نہایت زیرک اور جینئس (بزعم خود) کا اصل چہرہ سامنے آئے۔

اینکرز کو اپنی حدود کا اندازہ ہونا چاہیے۔ لیکن وہ مہمانوں کو ایک طرف ہٹا کر خود فیصلہ ساز بن کر عدالتیں لگانے لگتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چور یہ کسی پر بھی الزام تراشی کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ صرف حق ہی نہیں بلکہ ’’جمہوری حق‘‘۔ کیونکہ اس ملک میں جمہوریت نام ہے زور زبردستی اور بادشاہت کا۔ یعنی کسی حکمران یا وزیر کے گھر کے باہر بندھی بھینس کو بھی جمہوریت کہنے پہ مجبور ہیں۔ کشکول گلے میں لٹکا کر گلی گلی بھیک مانگنے والا بھی گداگری کو اپنا جمہوری حق سمجھتا ہے۔

خیر چھوڑیے، اس وقت جس رویے کی طرف اپنی صحافی برادری کی توجہ دلانا چاہتی ہوں وہ بہت گمبھیر ہے۔ گزشتہ چند سال میں یہ مسئلہ زیادہ نمایاں ہوا ہے۔ اور اس مسئلے سے جڑے کرائم رپورٹرز کا کردار بہت اہم ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 70 کی دہائی تک خواتین رپورٹروں کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ خواتین صحافیوں کی ذمے داریاں صرف ڈیسک تک محدود تھیں۔ بعض جرائم اور واقعات ایسے ہوتے تھے جن کی تفتیش کے لیے مرد رپورٹرز کا جانا ممکن نہیں تھا۔ پھر آہستہ آہستہ خواتین کی آمد شروع ہوئی۔ مختلف حساس واقعات کی کوریج اور کہیں اندر چھپے ہوئے سچ کو یہ خواتین رپورٹرز بڑی آسانی سے باہر لے آتی تھیں۔

نازک اور حساس معاملات کی جان کاری کے لیے ان کا گھروں میں جا کر رپورٹ یا فیچر بنانا بہت آسان ہوتا تھا۔ خواتین رپورٹرز اور کیمرہ مین کو مختلف اداروں اور شیلٹر ہومز میں بھیج کر بڑے اچھے فیچر شایع کیے گئے، جن سے لوگوں کو آگاہی ملی کہ گھروں سے بھاگنے والی لڑکیوں، اپنے خاوندوں کو قتل کر دینے والی سفاک عورتوں نے یہ جرائم کیوں اور کیسے کیے۔ اور اب زندگی انھیں کن عذابوں کے جہنم میں دہکا رہی ہے۔ لیکن افسوس کہ اب یہ سلسلہ بڑے شہروں میں ختم ہو گیا ہے البتہ دیہاتوں اور قصبوں میں جنم لینے والے ہولناک واقعات اور ان کے محرکات اخبارات میں آتے رہتے ہیں۔ بڑے شہروں میں انھیں اہمیت نہیں دی جاتی۔

مجھے کہنے دیجیے کہ اب ہمارے صحافی بھائیوں اور دیگر ذمے دار حضرات کا رویہ سو فی صد ’’مٹی ڈالو‘‘ والا ہو گیا ہے۔ اسی سال مارچ کے مہینے میں دو شاعرات کی لاشیں گھر میں سے تعفن اٹھنے کے باعث سامنے آئیں۔ دو غیر شادی شدہ بہنیں 74 سالہ سراج المہر اور 70 سالہ صالحہ سلطانہ گلشن اقبال کے علاقے 13-D میں مردہ پائی گئیں۔ دونوں اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ بڑی بہن معذور ہو گئی تھیں۔ سنا ہے وہ آرٹس کونسل بھی آتی تھیں۔ لیکن ان کی اندوہناک موت پر کسی شاعر کسی ادیب یا کسی عہدیدار کی آنکھ سے آنسو ٹپکنا تو درکنار کسی نے ان کا نوٹس بھی نہ لیا۔ فیس بک پہ عقیل عباس جعفری نے جب وہ خبر لگائی تو لوگوں کو پتہ چلا کہ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ اور کن کے ساتھ ہوا؟ اس کے باوجود افسوس کا اظہار کرنے والوں کی تعداد انگلیوں پہ گنی جا سکتی تھی۔

افسوس کہ اب وہ رویہ ناپید ہوچکا ہے، جب ایک ذمے دار صحافی کے قلم اور خبر کے نشتروں سے معاشرے کی گلی سڑی رگوں کی صفائی ہو جاتی تھی۔ اب تو ایک انتہائی سنگ دلانہ رویے سے ہم دوچار ہیں۔ انسانوں کی غیر طبعی اموات کی خبریں یوں لگتی ہیں جیسے سڑک کے کنارے کتے بلیاں گاڑیوں کے پہیے تلے کچل کر ہلاک ہوئے پڑے رہتے ہیں۔ صحافت کو صنعت بنے ہوئے بہت زمانہ گزر گیا۔ لیکن ہر شعبے کی کچھ نہ کچھ اخلاقیات ضرور ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہ شعبے پہچانے جاتے ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کے مالکان اپنے اسٹوڈنٹس کو اپنا کلائنٹ کہتے ہیں اور اساتذہ کو ملازم سمجھتے ہیں۔ اسی لیے پرائیویٹ اسکول مالکان اپنے ملازموں کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ ان کے ’’کلائنٹس‘‘ (اسٹوڈنٹس) کو کام نہ کرنے پر کوئی بھی سزا دیں۔ میر صاحب نے کہا تھا:

سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا، جہان دیگر تھا

یہی حال خبر news کا بھی ہے کہ تین مہینے کے وقفے کے بعد پھر ایک سانحہ رونما ہوتا ہے۔ بند گھروں سے دو بہنوں کی لاشیں۔ اس کے بعد دوسرا سانحہ ایک بہن مردہ دوسری زندہ۔ لیکن نیم پاگل۔ کیا کسی رپورٹر، فیچر رائٹر یا کرائم رپورٹر نے کھوج لگانے کی کوشش کی کہ ان سانحوں نے کیسے جنم لیا؟ کاش کوئی بھی ذمے دار صحافی اپنی سماجی ذمے داری سمجھتے ہوئے ان محرکات کو سامنے لاتا جن کی بنا پر یہ سب ہوا؟ لیکن انقلاب، آزادی اور جمہوریت کی ڈگڈگی سننے اور بجانے سے فرصت ملے تو کسی اور طرف بھی دیکھیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔