پاکستان تمام ای سی او ممالک سے آزاد تجارتی معاہدے کرے، صدر ایف پی سی سی آئی

بزنس رپورٹر  اتوار 7 ستمبر 2014
ٹرین کارگو سروس سبسڈائز بنیادوں پر شروع، تجارت وسرمایہ کاری بڑھانے کیلیے ویزا سہولتیں، براہ راست پروازیںچلائی، سیاحتی صنعت کو فروغ دیا جائے، پریس کانفرنس  فوٹو: این این آئی/فائل

ٹرین کارگو سروس سبسڈائز بنیادوں پر شروع، تجارت وسرمایہ کاری بڑھانے کیلیے ویزا سہولتیں، براہ راست پروازیںچلائی، سیاحتی صنعت کو فروغ دیا جائے، پریس کانفرنس فوٹو: این این آئی/فائل

کراچی: وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت پاکستان (ایف پی سی سی آئی) اور ای سی اوچیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر زکریا عثمان نے وفاقی وزارت تجارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈ (ای ڈی ایف) سے پاکستان میں ای سی او سیکریٹریٹ کے قیام کے لیے فنڈز کا اجرا کرے، پاکستان کو 3 سال کے لیے ای سی او کی صدارت کی منتقلی قومی اعزاز ہے اور اس پلیٹ فارم کے توسط سے یورپ و دیگر ممالک کے لیے پاکستانی مصنوعات کی برآمدات کو تیز رفتاری کے ساتھ بڑھایا جاسکتا ہے۔

یہ بات انہوں نے ہفتہ کو فیڈریشن ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہی، اس موقع پر حاجی شفیق الرحمان، شیخ شکیل ڈھینگڑا، شوکت شیخ ودیگر بھی موجود تھے۔ زکریا عثمان نے کہا کہ ای سی او اسلامی ممالک کی فیڈریشن آف چیمبرز کا ایک مضبوط بلاک ہے جس میں ترکی، ایران، افغانستان، پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک شامل ہیں، حکومت اور نجی شعبے کو چاہیے کہ وہ یورپی منڈیوں تک رسائی کے لیے مشرقی ایشیا کا روٹ اختیار کریں تو ٹرانسپورٹیشن اخراجات میں کمی کے علاوہ یورپین یونین کے جی ایس پی پلس کا بھی بھرپور انداز میں فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ زیرالتواای سی اوٹرین پروجیکٹ کو دوبارہ متحرک کیا جائے گا کیونکہ یہ منصوبہ پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے اور چترال سے تاجکستان کی مسافت صرف 200 کلومیٹر ہے۔

اگر کراچی یا لاہور سے ای سی او ٹرین کارگو سروس سبسڈائز بنیادوں پرشروع کر دی جائے تو پاکستانی مصنوعات کا نہ صرف تیزرفتاری سے بیرون ملک تعارف ہو گا بلکہ ملکی برآمدات میں کئی گنا اضافہ بھی ہوجائے گا کیونکہ اب تک دنیا نے وسطی ایشیائی ریاستوں کی مارکیٹوں کی چھان بین نہیں کی جس کا پاکستانی برآمدکنندگان فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ای سی اوچیمبر کی صدارت کی منتقلی کے بعد پاکستان کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ای سی او کے 10 ممالک کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے کرے۔ انہوں نے بتایا کہ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان ای سی او ممالک اور ڈی ایٹ ممالک کا مرکز ہے اور اگر مربوط حکمت عملی اختیار کی جائے توپاکستان اس مرکزی حیثیت کا بھی تجارت وسرمایہ کاری میںبھرپور فائدہ اٹھاسکتا ہے۔

پاکستان میں ای سی او چیمبر کے حالیہ اجلاسوں میں آربیٹریشن ایکٹ، باہمی سرمایہ کاری، سیاحت، ٹرانسپورٹیشن سمیت دیگر اہم امور زیربحث آئے اور دوران اجلاس تمام رکن ممالک کے نمائندوں نے اپنے اپنے ملکوں کی حکومتوں پر ویزا پروسیس آسان کرنے پر زور اور مخصوص اسٹیکرز جاری کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ زکریا عثمان نے بتایا کہ ای سی او بلاک میں دنیا کی آبادی کا 6 فیصد اور مسلم آبادی کا 26 فیصد ہے جہاں کی فی کس آمدنی 4 ہزار ڈالر ہے اور لاتعداد قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، افسوس اس امر پر ہے کہ ای سی او کے رکن ممالک کی باہمی تجارت صرف 7 فیصد تک محدود ہے حالانکہ ای سی او ریجنل بلاک میں تیل اور گیس کے ذخائر باقی دنیا کے تناسب سے 8 فیصد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ای سی او ممالک میں سیاحتی انڈسٹری کے فروغ کے بھی وسیع مواقع ہیں لیکن اس کے لیے تمام ای سی او ممالک کی حکومتوں کو مشترکہ طور پر کردار ادا کرنا ہوگا اور ہررکن ملک میں ہفتہ سیاحت منعقد کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ باہمی روابط کے فروغ کے لیے رکن ممالک کے درمیان ویزا کی سہولتوں اور براہ راست فلائٹ کنکشنز بھی وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ جب تاجر برادری کے درمیان باہمی کاروباری روابط بڑھیں گے تو ان ممالک کے درمیان تجارتی حجم میں بھی اضافہ ہو گا، ای سی او ممالک کے درمیان زمینی راستے کے ذریعے تجارت کے فروغ کے لیے اسلام آباد، تہران، استبول (آئی ٹی آئی) ٹرین روٹ اور قازقستان، ترکمانستان، افغانستان، ایران (کے ٹی اے آئی) ٹرین منصوبوں پرعمل درآمد کرنا ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں زکریا عثمان نے بتایاکہ ای سی او ممالک کی فیڈریشنز کے صدور کو وزیرکا درجہ حاصل ہے اور کچھ ممالک میں تو وہاں کی فیڈریشن آف چیمبرز کے صدور کی مشاورت کے بغیر ملک کا بجٹ ہی نہیں بنایا جاتا۔ انہوں نے بتایا کہ یورپین یونین کی طرزپر 5 مراحل پورے ہونے کے بعد ہی ای سی او کو یونین کا درجہ مل سکتا ہے جس کے بعد صرف ایک ویزا ہی تمام ای سی او ممالک میں قابل قبول ہوسکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔