سادگی

راؤ منظر حیات  پير 8 ستمبر 2014
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

یہ غور و فکر کی منزل ہے۔ معمولی سی غلطی سے قومی مسائل الجھ سکتے ہیں۔ مگر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسی قومی سطح کی شخصیت نہیں ہے جس پر تمام سیاسی اور غیر سیاسی فریقین کا اعتماد ہو۔ یہ بھی کتنے دکھ کی بات ہے، کہ پورا نظام ایک بڑا شخص بھی پیدا نہیں کر سکا۔ ہمارا ملک بونوں کی دنیا میں تبدیل ہو چکا ہے۔جو سازش کی رسیاں لے کر ایک دوسرے کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حکومت بدقسمتی سے ان لوگوں سے بلیک میل ہو رہی ہے جنکی کوئی سیاسی اہمیت نہیں ہے۔

ہمارے ہاں کئی مفروضے جنم لے چکے ہیں۔ جیسے سیاست کے بدن میں دل نہیں ہوتا، سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہے! آپ ان فرمودات کو غور سے دیکھیے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں سیاست دراصل دھوکہ دہی، مالی مفادات اور فریب دینے کا نام ہے۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ جن لوگوں نے پاکستان بنایا تھا، ان کا کردار اور عمل کیسا تھا! مجھے محض ایک مثال دے دیجیے جس میں قائد نے لوگوں سے جھوٹ بول کر کوئی فائدہ حاصل کیا ہو۔ آپ سٹینلے وول پورٹ کی کتاب کو پڑھیے۔ ہمارے سیاسی اکابرین نے ایک نقطہ کی دروغ گوئی سے کام نہیں لیا تھا۔ تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ مگر ہر عہد کا سچ مختلف ہوتا ہے۔ یہ انتہائی نازک نقطہ بھی ہے اور سوچنے کا مقام بھی!

ہمارے آج کے سیاسی نظام کی بنیاد کیا ہے! آپ صرف پنجاب پر گرفت رکھیں۔ وفاقی حکومت آپکی جھولی میں گر جائے گی۔ آپ برا نہ مانیے! جس کی حکومت پنجاب میں ہو گی، وہی پاکستان کا مالک گردانا جائیگا۔ یہ بہت خطرناک بات ہے۔ وقتی فائدے سے ہمارا قومی نقصان ہو سکتا ہے۔ مگر اب اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں یہ عرض کرونگا کہ بہت عرصے کے بعد وسطی پنجاب کے لوگوں نے ایک ایسی مہم کا آغاز کیا ہے جو حکومتِ وقت کے لیے مشکل کا باعث نظر آتی ہے۔

آپ میری عرضداشت کی گہرائی تک جائیے! آپ وسطی پنجاب کا لفظ بھی بھول جائیے۔ آپ پورے پنجاب کا ذہنی احاطہ کیجیے۔ دہائیوں بعد پنجاب کے لوگوں کے اندر ایک ایسی حکومت کے خلاف غم و غصہ پیدا ہوا ہے جسکی اپنی بنیاد بھی اسی صوبہ سے ہے۔ یہی وہ اصل بات ہے، جو اس وقت کی سیاسی حکومت کے لیے دشواری پیدا کر رہی ہے۔ ہماری سیاسی قیادت پہاڑ جیسی غلطیاں کرتی جا رہی ہے۔

آپ دیگر ممالک کی بات چھوڑ دیجیے۔ میں نے چند دن پہلے اخبار میں خبر پڑھی ہے کہ افغانستان کی حکومت اور U.N.H.C.R نے باہمی طور پر تعاون کر کے پاکستانی بچوں کے لیے87 اسکول کھولے ہیں۔ اس خبر میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ یہ اسکول فی الفور کھولے  جائینگے تا کہ بچوں کی تعلیم کا حرج نہ ہو۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے اور افغان حکومت کے مطابق یہ وہ بچے یا خاندان ہیں جو پاکستان میں جنگ کی وجہ سے ہجرت کرکے افغانستان میں پناہ گزین ہو چکے ہیں۔ ہم ان حقائق کا ذکر کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ آپ ان کا ذکر تو چھوڑئیے۔ اب تو ہم لوگ I.D.P’s تک کا ذکر نہیں کرتے۔ وہ متاثرین جنگ کس حال میں ہیں! ا ن کی بنیادی ضرورتیں کیسے پوری ہو رہی ہیں! شائد ہم نے انکو حالات کے جبر کے سامنے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ ہر جانب بے سود ہنگامہ اور محاذ آرائی کا نظارہ ہے!

آپ ان تمام ممالک کے نظام حکومت پر نظر ڈالیے جو ترقی کی شاہراہ پر دوڑ رہے ہیں یا اس عمل کو شروع کرنے میں عرق ریزی کر رہے ہیں۔ ان تمام ممالک نے حکومتی اخراجات کو بہت زیادہ کم کیا ہے۔ اس کٹوتی کا آغاز اکثر ممالک کے سربراہان حکومت نے اپنی ذات سے کیا ہے۔ ان کے وزیر اعظم اور صدر حیران کن تک سادہ زندگی کی طرف جا چکے ہیں۔ ذاتی مثال قائم کر کے انھوں نے اپنے ممالک کے عام لوگوں کے لیے خوشحالی کا وہ دروازہ کھول دیا ہے جو ہمارے ملک میں صدیوں سے بند ہے۔ یہ کام انتہائی مشکل بھی ہے اور آسان بھی! مشکل اس طرح کہ ذاتی قربانی دنیا میں سب سے مشکل کام ہے۔ آسان اسلیے کہ صرف ایک فیصلہ ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔

احمدی نجاد دو مرتبہ ایران کا صدر رہ چکا ہے۔ صدر منتخب ہونے سے پہلے اس کا طویل سیاسی سفر ہے جس میں وہ تہران کا میئر اور ماکو کا گورنر بھی رہ چکا ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک پی۔ایچ۔ڈی ڈاکٹر ہے۔ وہ مدت تک تہران یونیورسٹی میں بطور لیکچرار تعلیم و تدریس میں مصروف کار رہا۔ اس کی زندگی صدر بننے سے پہلے اور بعد میں بالکل ایک جیسی ہی رہی۔ جب وہ تہران کا میئر تھا تو جھاڑو لے کر اپنے محلے کی صفائی کرنا شروع کر دیتا تھا۔

اسکو خود صفائی کرتا دیکھ کر تہران کے عام شہریوں نے بھی اپنے گھروں کے ارد گرد کی جگہوں اور پارکوں کی صفائی شروع کر دی۔ چند ماہ کے اندر تہران دنیا کا صاف ترین شہر بن چکا تھا۔ احمدی نجاد کہتا تھا کہ یہ کام صرف اسلیے ممکن ہو سکا کہ اس نے یہ تمام کام اپنی ذات اور اپنے گھر سے شروع کیا۔ کیا ہم لاہور، کراچی، پشاور، یا اسلام آباد میں اس کا تصور بھی کر سکتے ہیں؟

صدر منتخب ہونے کے بعد احمدی نجاد نے سرکاری محل میں رہنے سے انکار کر دیا۔ وہ ایک عام سے محلہ میں ایک متوسط طرز کے گھر میں قیام پذیر تھا۔ یہ گھر بھی اس کا اپنا نہیں تھا۔ بلکہ چالیس سال پہلے اس کے والد نے یہ گھر اپنے خاندان کے لیے تعمیر کیا تھا۔ ملک کا صدر ہونے کے باوجود احمدی نجاد نے سرکاری رہائش گاہ میں منتقل ہونے سے انکار کر دیا۔ اس نے چند حیرت انگیز کام کرنے شروع کر دیے۔

سرکاری محل میں انتہائی بیش قیمت اور مہنگے قالین موجود تھے۔ اس نے وہ تمام قالین تہران کی مساجد میں تقسیم کر دیے۔ کروڑوں روپے کے یہ قالین آج کی تہران کی عام سی مساجد میں موجود ہیں۔ عام لوگ ان بیش قیمت غالیچوں پر نماز ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد صدر نے سرکاری پروٹوکول اور سرکاری گاڑی لینے سے انکار کر دیا۔ اس کے پاس1977ء ماڈل کی پی جو گاڑی تھی۔ احمدی نجاد نے وہی گاڑی استعمال کرنا شروع کر دی۔ اس نے سرکاری ڈرائیور رکھنے سے بھی انکار کر دیا۔ اکثر اوقات وہ اپنی گاڑی کو خود چلا کر دفتر آتا تھا۔

اس نے بطور صدر کے اپنے دو دورانیوں میں تنخواہ لینے سے بھی انکار کر دیا۔ آپکے ذہن میں یہ سوال آئیگا کہ پھر اس کا ماہانہ گزارہ کیسے ہوتا ہو گا۔ جب وہ تہران یونیورسٹی میں لیکچرار تھا تو اسے ماہانہ250 ڈالر ملتے تھے۔ یونیورسٹی کی طرف سے250 ڈالر اسے ملتے رہے اور اس کا گزارہ چلتا رہا۔ جب یہ تنخواہ بند ہو گئی تو حکومت نے اپنے صدر کو 250 ڈالر دینے شروع کر دیے۔

یہ پاکستانی روپے کے حساب سے پچیس ہزار ماہانہ بنتے ہیں۔ ہمارے ملک میں سرکاری کلرک اور کئی محکموں کے ڈرائیور اس سے زیادہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ ایرانی صدر کے بینک اکائونٹ کا ذکر مزید حیران کن ہے۔ اس کے اکائونٹ میں دو سو یا ڈھائی سو پاکستانی روپے کے برابر رقم موجود رہتی تھی۔ یہ پیسے بھی صرف اسلیے موجود تھے کہ اس سے کم پر بینک صارف کا اکائونٹ بند کر سکتا تھا۔

صدر روزانہ اپنا ٹفن کیرئیر خود ہاتھ میں پکڑ کر اپنے دفتر داخل ہوتا تھا۔ اس میں ایک یا دو سینڈوچ ہوتے تھے جو اس کی بیوی اس کے لنچ کے لیے خود تیار کرتی تھی۔ ایرانی صدر کا سرکاری جہاز بہت قیمتی اور خوبصورت تھا۔ اسکو سمجھ نہیں آیا کہ وہ اس کا کیا کرے کیونکہ کئی بار وہ اسکو استعمال کرنے پر مجبور ہوتا تھا۔ اس نے صدر کے سرکاری بیش قیمت جہاز کو مال برداری کے جہاز میں تبدیل کر دیا۔ اس میں سے تمام سیٹیں نکال دی گئیں۔

اس کے کونوں میں چند بنچ لگا دیے گئے۔ ایرانی صدر کو جب سرکاری دورہ کرنا ہوتا تھا تو وہ لکڑی کے بنچ پر بیٹھ کر کارگو جہاز میں سفر کرتا تھا۔ بیرون ملک دوروں کے لیے وہ ہمیشہ اکانومی کلاس استعمال کرتا تھا۔ صدر کے دفتر میں غیر ملکی مہمانوں کے لیے ایک بہت کشادہ عالیشان کمرہ تھا جس میں بیش قیمت فرنیچر پڑا ہوا تھا۔ دفتر آنے کے بعد احمدی نجاد نے پہلا حکم دیا کہ اس کمرے کو بہت چھوٹا کر دیا جائے۔

اس کا سارا فرنیچر اٹھا کر مختلف تعلیمی درسگاہوں کو عطیہ کر دیا گیا۔ غیر ملکی صدر اور وزراء اعظم کے لیے انتہائی سادہ اور سستا فرنیچر لگا دیا گیا۔ اس نے حکومتی اخراجات پر مزید کمی کرنے کے لیے غیر ملک اہم مہمانوں کے لیے ریڈ کارپٹ استقبال کا رواج مکمل طور پر ختم کر دیا۔ اس نے اپنے بیٹے کی شادی پر مدعو کیے ہوئے150 مہمانوں کے لیے کسی قسم کے کھانے کا انتظام نہیں کیا۔

فقط پھل، کیک اور سادہ پانی سے لوگوں کی تواضع کی گئی۔ شادی پر مکمل اخراجات صرف دو لاکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ صدر کے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد احمدی نجاد کیا کرتا ہے! یہ بات اور بھی فکر انگیز ہے۔ وہ ایک سرکاری یونیورسٹی میں طالب علموں کو تعلیم دے رہا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ لوگوں میں تعلیم عام کرنے کے لیے ایک یونیورسٹی بنائے جس میں غریب طبقے کے لوگ بہت معمولی فیس ادا کر کے تعلیم حاصل کر سکیں۔

اب اپنے انتہائی غریب ملک پاکستان پر نظر دوڑائیے۔ آپکو ایوان صدر، قصر وزیر اعظم، پر شکوہ گورنر ہائوس، وزراء اور وزراء اعلیٰ کے عظیم الشان دفتر نظر آئینگے۔ یہ ان کی طاقت اور تکبر کے نشان بن چکے ہیں۔ عام آدمی کی زندگی کی المناک مشکلات کیا ہیں! ان محلات سے بالکل نظر نہیں آتیں۔

لوگوں کی غربت سے تنگ آ کر خود کشی کرنے کے واقعات بھی جھوٹی کہانیاں لگتے ہیں! مفلسوں، یتیموں اور بیوائوں کی المناک بددعائیں بھی ان مضبوط دیواروں سے پار گزر نہیں سکتیں! میرا تو مشورہ ہے کہ ہماری کتابوں سے “سادگی” کا لفظ مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے! اگر اس کے باوجود کوئی بے خوف دانشور حکمرانوں کو “سادہ”  رہنے کا سبق دیتا ہے تو اسے بھی فوری طور پر حرفِ غلط کی طرح مٹا دینا چاہیے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔