پارلیمنٹیرین‘ دھرنا اور عوام

زمرد نقوی  پير 8 ستمبر 2014

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس انتہائی ہنگامہ پرور رہا جو ابھی تک جاری ہے۔ پارلیمنٹ کے فلور پر جو تماشا ہوا وہ ناقابل فراموش تھا جس کا اس سے پہلے پاکستانی عوام نے کبھی نظارہ نہ کیا ہو گا۔ یہ کسی ڈرامے کا سین نہیں حقیقت تھی جو دو چوہدریوں اعتزاز احسن اور نثار علی کے درمیان تو تڑاک اور دست و گریباں ہونے تک پہنچتی محسوس ہوئی۔ پہلے تو یہ مذاق لگا لیکن بعد میں زبانوں کی طراری سے لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ یہ کئی گھنٹوں پر مشتمل طویل دورانیہ کا ڈرامہ تھا جس کے مرکزی کردار اعتزاز اور نثار تھے۔

وزیراعظم صاحب کی حالت قابل رحم تھی۔ وہ اپوزیشن سے معافی مانگ رہے ہیںپھر اپنے وزیر داخلہ کی منت و سماجت کر رہے ہیں۔ بہرحال چوہدری نثار علی نے اپنے وزیر اعظم پر احسان کیا اور اگلے دن جوابی پریس کانفرنس میں خاموش رہے۔ ان کی پریس کانفرنس بھی خود پرستی خود پسندی کا شاہکار تھی۔ اعتزاز احسن نے اپنے خطاب میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ہمارے مکمل تعاون سے وزیر اعظم بحران سے نکل جائیں گے لیکن بحران سے نکلتے ہی حکومتی وزراء کے تکبر اور رعونت میں اضافہ ہو جائے گا۔

چوہدری نثار نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دھرنے میں شامل افراد کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔ وہ حکمران طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھیں تو دھرنے والے دہشت گرد ہی نظر آئیں گے ۔ جسے حکمران طبقات مدتوں سے غضب کر کے بیٹھ گئے ہیں۔چوہدری صاحب ان دہشت گردوں کے بارے میں کیا کہیں گے جن کی حمایت وہ آخر وقت تک کرتے رہے۔ قوم یہ سوال کرتی ہے کہ مذاکرات کے نام پر ہزاروں پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کا خون کس کی گردن پر ہے۔

چوہدری نثار کو موجودہ حالات میں اپنے ساتھ رکھنا وزیراعظم میاں نواز شریف کی مجبوری ہے کیونکہ وہ اگر پارٹی چھوڑ گئے تو جاوید ہاشمی سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اب جب جاوید ہاشمی کا تذکرہ آ گیا ہے تو یہ دیکھنا ہے کہ ان کی تقریر کا بینیفشری کون ہے۔ ان کی تقریر وزیراعظم نواز شریف صاحب کے لیے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ثابت ہوئی۔ اس کی ٹائمنگ بھی قابل غور ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس شروع ہونے سے ذرا پہلے۔

جاوید ہاشمی نے جہاں عمران خان پر تنقید کی وہاں اپنا بھرم رکھنے کے لیے حکومت پر بھی تنقید کی جس میں وزیر اعظم سے پوچھا گیا کہ وہ چودہ ماہ سینیٹ میں کیوں نہیں آئے۔ سانحہ ماڈل ٹائون میں چودہ افراد کی لاشوں اور 80 لوگوں کو گولیاں لگنے کا اور کئی مہینے تک ایف آئی آر نہ کاٹنے کا ذکر بھی کیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہونے کے باوجود وہ ببانگ دہل میڈیا کے سامنے ایک سے زائد مرتبہ یہ کہتے رہے کہ میرا لیڈر اب بھی نواز شریف ہے۔ کوئی پارٹی یا اس کا سربراہ کسی ایسے شخص کو برداشت کر سکتا ہے جو اپنی وفاداری دوسری پارٹی کے سربراہ سے جوڑ رہا ہو۔

جاوید ہاشمی کا مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے کا سفر رائیگاں نہیں گیا۔ انھوں نے نواز شریف سے اپنی وفاداری خوب نبھائی۔ اس کا صلہ انھیں یقیناً ملے گا۔ ہمارے ہاں رائج جمہوریت میں کوئی بھی سیاسی حمایت مفت میں نہیں ہوتی۔ اس کی ایک بہت بڑی قیمت ہوتی ہے چاہے پیپلز پارٹی ہو یا جاوید ہاشمی۔ اب کچھ ذکر جمہوریت کے تازہ تازہ چیمپئن محمود خان اچکزئی کا بھی ہو جائے۔

وہ فرماتے ہیں کہ نیا فلسفہ آیا ہے کہ پولیس کو گولی مارو فوج کو زندہ باد کہو۔ ان کے بارے میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت۔۔۔ ان کے بارے میں مجھے ایک تازہ ترین میسج موصول ہوا ہے جس میں انتہائی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ وہ اور ان کے خاندان کس طرح اقتدار کی گنگا میں نہا رہے ہیں۔ کیا یہ کرپشن نہیں ہے؟ یہ بادشاہت نہیں تو کیا جمہوریت ہے؟ اس کے خاتمے کے لیے ہی تو پاکستان کے عوام اٹھے ہیں۔

اب پی ٹی وی پر بھی حملہ کا ذکر ہو جائے۔ جب یہ حملہ ہوا تو میں اتفاق سے لائیو دیکھ رہا تھا۔ جب اس حملے کی اطلاع ڈاکٹر طاہر القادری کو پہنچی تو پہلے تو حیران ہوئے پھر انتہائی پریشان۔ انھوں نے اس بارے میں تحقیق کرنے کا حکم دیا۔ فوراً بعد یہی اطلاع جب عمران خان کو پہنچی تو ان کا بھی طاہر القادری جیسا ہی ردعمل تھا۔

اصل بات یہ ہے کہ لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ دھرنوں میں ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا اور ٹی وی پر حملے سے پہلے میڈیا ورکرز پر پولیس کے تشدد نے حکومت کی بدنامی میں بے پناہ اضافہ کیا۔ اس کے بعد پانی خوراک لانے والے ویگنوں کی گلوبٹ انداز میں توڑ پھوڑ، پی ٹی وی حملے نے حکومت کی فیس سیونگ اس طرح کی کہ اسے دھرنے والوں کو بدنام کرنے کا موقع مل گیا۔

کچھ سادہ لوح دانشور اپنے اپنے تعصبات کا اسیر ہوکر ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو ظالم قرار دے رہے ہیں کہ وہ خود تو اپنے کنٹینر میں محفوظ بیٹھے ہیں اور ان کے کارکن بدترین موسمی شدائد کو برداشت کر رہے ہیں۔ جب یہ سب وہ لکھ اور بول رہے ہوتے ہیں تو بس سینہ کوبی کی کسر ہی رہ جاتی ہے۔ کیا قادری اور عمران نے اپنے سیاسی ورکروں کے پائوں میں زنجیریں باندھ رکھی ہیں۔ اگر وہ جانا چاہیں تو انھیں کون روک سکتا ہے۔

کیا پاکستان کی تاریخ میں ایسا انوکھا اجتماع دیکھا گیا ہے جو ہر قسم کی موسمی سختیوں بھوک پیاس اور جان کے خوف سے بے نیاز ہو۔ تاریخ میں ان کا نام سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا۔ جہاں تک لیڈروں کے کنٹینر میں ہونے کا تعلق ہے تو جب ان کے کارکنوں کو اعتراض نہیں تو آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ نہ یہ کارکن گمراہ لوگ ہیں نہ یہ بکے ہوئے تو اس طرح کی بونگیاں مارنے سے بہتر یہ ہے کہ تھوڑی سی زحمت اٹھا کر پاکستانی سماج میں ہونے والی سماجی تبدیلیوں کا سائنسی تجزیہ کرلیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان کے غریب عوام کی خاموش اکثریت کس کے ساتھ ہے اس کا اندازہ ان دونوں کی میڈیا کوریج سے لگالیں۔

میڈیا وہی دکھاتا ہے جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں اور جب میڈیا ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی گھنٹوں طویل تقاریر دکھاتا ہے تو عوام اپنے انتہائی ضروری کاموں کو چھوڑ کر ان کی تقاریر سنتے ہیں کیوں کہ یہ انھیں انپے دل کی آواز لگتی ہے۔ مجمع چاہے لاکھوں افراد پر مشتمل ہو ان میں چند سو یا چند ہزار افراد ہی ہوتے ہیں جو اپنی جان قربان کر کے تاریخ کا رخ بدل دیتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے کارکن بھی ایسے ہی ہیں۔۔۔ رہے نام اللہ کا

موجودہ بحران کا ابھی صرف آغاز ہوا ہے۔ جیسے جیسے بحران طوالت پکڑے گا اس کی ہولناکی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ جب تک اس بحران کا آئینی حل نہیں نکلے گا یہ بحران ملٹی پلائی ہوتا رہے گا۔

اہم تاریخیں  12 سے 15 ستمبر

سیل فون:۔ 0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔