جمہوریت کے استحکام کیلئے اندازِ حکمرانی آئین کے تابع کرنا ہوگا

شہزاد امجد  پير 8 ستمبر 2014
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں کبھی جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا فوٹو: ایکسپریس

پاکستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں کبھی جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا فوٹو: ایکسپریس

پاکستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں کبھی جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ جو بھی حکومت آتی ہے وہ جمہوریت کی بات تو کرتی ہے لیکن نہ تو جمہوری روایات کو اپنایا جاتا ہے اور نہ ہی ہمارے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوری کلچر پیدا کرتی ہیں۔  گزشتہ دنوں ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’جمہوری استحکام کیسے ممکن ہے؟‘‘کے موضوع پر مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف دانشوروں اور سیاسی تجزیہ نگاروں سے ہونے والی گفتگو نذرقارئین ہے۔

ڈاکٹر عنبرین جاوید (سربراہ شعبہ سیاسیات پنجاب یونیورسٹی)

پولیٹیکل سائنس میں اہم مضمون جمہوریت ہے۔ جمہوریت کے لئے چند عوامل ہیں جو ہوں گے تو جمہوریت ہوگی ان میں رول آف لاء ہے، لوگوں کو برابری کے حقوق ملیں اور تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کریںمگر ہمارے ہاں جمہوریت ہے ہی نہیں کیونکہ یہاں لاقانونیت ہے، طاقتور کا اثر ہے اور غریب کو مارا جارہا ہے یہ اصل جمہوریت نہیں کچھ اور ہے جسے جمہوریت کہا جارہا ہے۔ جو لوگ جمہوریت کے دفاع کی بات کرتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کے لئے خطرہ ہے اور کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم اتر گئے تو فوجی آمریت آجائے گی، تو وہ یہ اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے کہتے ہیں۔

آج ان کو اپنے مفاد کیلئے پارلیمنٹ، جمہوریت اور عدلیہ یاد آگئی ہے یہ وہی وزیراعظم ہیں جو پارلیمنٹ میں آتے ہی نہیں تھے ۔مگر اب جب کہ ان کو اپنی ذات کیلئے خطرہ محسوس ہورہا ہے تو پارلیمنٹ میں آگئے ہیں تاکہ پارلیمنٹ کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنا ہے۔ آج اسی پارلیمنٹ کے اراکین ان کو سپورٹ بھی کررہے ہیں۔ ان کو تو انہیں یاد دلانا چاہئے تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں آتے نہیں اب پارلیمنٹ انہیں کیوں یاد آگیا ۔ موجودہ صورتحال میں تمام پارٹیاں قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو سوچ رہی ہیں۔ ہمارے ہاں روایت ہے کہ ہم ملکی مفاد کا کبھی نہیں سوچتے بلکہ ہمیشہ ذاتی مفاد کو سامنے رکھتے ہیں۔

اس وقت عمران خان اور طاہرالقادری سڑکوں پر بیٹھے ہیں اگرچہ یہ طریقہ صحیح نہیں ہے مگر عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان اپنے گھروں کا آرام و سکون چھوڑ کر سڑکوں پر بیٹھے ہیں تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کیوں بیٹھے ہیں اس کی کوئی تو وجہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے لوگ موجودہ حالات سے مایوسی کا شکار ہیںاور جو لوگ سڑکوں پرنہیں نکلے گھروں میں بیٹھے ہیں وہ بھی مایوس ہیں ۔ لوگ ملک کو کرپشن سے پاک اور ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں اور جب کبھی بھی ان میں یہ سوچ پیدا کی جاتی ہے کہ یہاں کرپشن ختم ہوسکتی ہے تو وہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور کرپشن کا خاتمہ صرف اصل جمہوریت میں ہی ممکن ہے مگر اصل جمہوریت ہمارے سیاستدانوں کو قبول نہیں ہے کیونکہ اس میں ان کا اپنا بھی احتساب ہوتا ہے۔

اس وقت سب مانتے ہیں انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے مگر سب اپنے مفاد میں اس سے پلٹ گئے ہیں اور اپنے مفاد کیلئے حکومت کی حمایت کررہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر دھاندلی ہوئی ہے تو پھر اس پارلیمنٹ کیلئے تڑپ کیسی؟ عمران خان لوگوں کو سڑکوں پر لے کر بیٹھے ہیں تو بہتری لانے کیلئے بیٹھے ہیں انہیں کوئی طاقت نہیں چاہیے۔ وہ اپنے لئے نہیں ملک کیلئے بیٹھے ہیں، وہ ملک سے کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں اگر ملک سے کرپشن ختم ہوجائے تو یہ ملک دنوں میں ترقی کرسکتا ہے۔ کرپشن ہر جگہ موجود ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کرپشن کا لیول کتنا ہے۔

آج بدقسمتی سے پارلیمنٹ میں فوج جیسے ادارے پر بھی تنقید کی جارہی ہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کیونکہ یہی ایک ایسا ادارہ ہے جو باقاعدہ منظم ہے وگرنہ باقی اداروں کی صورتحال تو سب کے سامنے ہے۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمیشہ ہر مصیبت میں فوج ہی مدد کو آئی ہے۔ فوج ملکی سرحدوں کی حفاظت کے فرائض تو سرانجام دیتی ہی ہے۔ دہشت گردی ہو یا قدرتی آفات، وہاں بھی پاک افواج سب سے آگے کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ آپ حالیہ بارشوں اور سیلاب کی صورتحال ہی دیکھ لیں، فوج فوری طور پر میدان میں موجود تھی اور امدادی کارروائیوں میں عوام کی زندگیاں بچانے کیلئے جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی دیا۔

دہشت گردی کی جنگ میں ہم نے فوج کے ایسے ایسے ہیرے کھوئے ہیں جن کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے میری گزارش ہے کہ آج صرف ایک ہی ادارہ بچا ہے تو براہ کرم اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمیں خیال کرنا چاہیے۔ فوج نے ہمیشہ پاکستان کو بچایا اور اب تک بچا رہی ہے۔ فوج کو سیاسی معاملات میں بلا وجہ الزام لگا کر گھسیٹنا جس کا کوئی ثبوت نہ ہو مناسب نہیں ہے۔ جاوید ہاشمی نے فوج کے بارے میں جو بھی کہا یا نواز شریف نے جو بھی کہا اس کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے تھا، سازشی تھیوریوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ یہ قومی مفاد میں نہیں ہے۔

میری حکومت اور دھرنے دینے والے دونوں سے اپیل ہے کہ ملکی مفاد کو سامنے رکھیں۔ اس وقت کچھ لو اور کچھ دو کے تحت مسئلہ حل ہوگایہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ کچھ دیئے بغیر دھرنا ختم ہوگا۔ اگرچہ حکومت اس وقت طاقت میں ہے مگر اسے ملکی مفاد کیلئے ایک قدم پیچھے جانا پڑے گا۔جو لوگ سڑکوں پر پڑے ہیں وہ ہمارے ہی لوگ ہیں اگر حکومت واقعی کوئی مثبت اقدام کرے تو انہیں ماننا چاہیے مگر اس وقت تو حکومت مزید شدت کی طرف جارہی ہے، یہی دیکھیں کہ حکومت نے دونوں رہنماؤں پر ایف آئی آر درج کرادی ہے اگر ان کو تنگ کیا جائے گا تو وہ بھی جارحانہ پن دکھائیں گے۔

پارلیمنٹ کا اجلاس حکومت نے اپنے فائدے کیلئے بلایا ہے اور ہوسکتا ہے اعتماد کا ووٹ بھی لیا جائے اور اس کے بعد حکومت کوشش کرسکتی ہے کہ دھرنے کو زبردستی ختم کرانے کے لیے کوئی قرارداد پیش کردی جائے۔فوج پر تنقید سے قومی سلامتی کے اداروں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ پارلیمنٹیرینز اور عوام ہر کسی کو سوچ سمجھ کر فوج کے بارے میں بات کرنی چاہیے یہ کسی کے مفاد میں نہیں کہ تینوں ادارے آپس میں ٹکرائیں کیونکہ اداروں کا ٹکراؤخطرناک ہوتا ہے۔

جنرل(ر) نصیر اختر (دفاعی تجزیہ نگار)

موجودہ صورتحال کو سمجھنے کیلئے سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم کس کروٹ بیٹھے ہیں جمہوریت میں اس وقت بہت سے مسائل ہیں ۔ چھوٹے صوبے آپ سے خفا ہیں، آپ کا جو دستور اور طریقہ کار ہے وہ چھوٹے صوبوں کو پسند نہیں ہے۔ اس وقت جو حقیقی مسائل ہیں ان کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی۔ چھوٹے صوبوں کے اعتراضات اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتے ہیں جب دولت کی منصفانہ تقسیم نہ ہو۔ اس کیلئے آپ کو دیکھنا ہوگا کہ آپ کی معیشت کیسے آگے بڑھے گی۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے مزدور کو 8یا 10ہزار تنخواہ دے دی تو لوگ خوش ہوجائیں گے لیکن عام آدمی خوش نہیں ہے۔ یہ جو دھرنے ہورہے ہیں ان کا سدباب ہونا چاہیے جب تک آپ انصاف نہیں کریں گے آپ کو عوام کی سپورٹ نہیں ملے گی جب آپ لوگوں کے تاثرات نہیں دیکھیں گے تو ان کے مسائل کیسے حل کریں گے۔ اس وقت لوگ بااعتماد ہیں کہ طاہرالقادری اور عمران خا ن کا انقلاب آئے گا اور ان کے مسائل حل ہوں گے، وہ سب جانتے ہیں اور آگے جانا چاہتے ہیں۔ اوپر کی سطح پر ہم اپنی لیڈر شپ کو دیکھیں تو لیڈر شپ کا طریقہ کار درست نہیں ہے۔

ان کا طریقہ کار پرامن ہونا چاہیے تھا مگر پنجاب کی لیڈر شپ ہمیشہ ایسے کھڑی ہوتی ہے کہ انہوں نے ہر چیز کو فتح کرنا ہے مگر سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمیں تمام صوبو ں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ طاہرالقادری اور عمران خان کے مطالبات کوبڑے اطمینان سے حل کرنا چاہیے وزیراعظم ایسا ہوتا ہے کہ اس نے ملک کو آگے چلانا ہوتا ہے جب تک آپ ملک کو آگے نہیں چلائیں گے تو آپ کے پاس کوئی جواز نہیں ہے کہ آپ وزیراعظم رہیں۔ اس وقت کرپشن کی انتہا ہے۔ ہر بندہ کرپشن کی بات کرتا ہے کرپشن آپ کی جڑوں کو کھا رہی ہے۔

کرپشن ختم کئے بغیر آپ مسائل حل نہیں کرسکتے ہرمسئلہ آپ کو سامنے سے ہٹ کرے گا۔ہر عام آدمی اپنے مسئلے کو پس پردہ نہیں رکھنا چاہتا۔ آپ نے پارلیمنٹ کا اجلاس دیکھا ہوگا۔ ہمارے ہاں چھوٹے لوگوں کے تاثرات مختلف ہیں اور بڑے لوگوں کے مختلف جمہوریت تب تک نہیں چل سکتی جب تک سب برابر کے شریک نہ ہوں۔ عمران خان اور طاہرالقادری کے آنے سے حکومت کو وارننگ ہونی چاہیے کہ یہ کیا لینے آئے ہیں پنجاب بڑا صوبہ ہے اگر اس کو صحیح نہیں چلائیں گے تو ملک نہیں چل سکے گا۔میاں صاحب کو بھی چھوٹے صوبوں سے برتاؤ ٹھیک کرنا ہوگا۔

حکومت اگر ہوش کے ناخن لے اور پیسے کو تمام صوبوں میں مساویانہ تقسیم کرے تو آپ کی عزت ہوگی اور آگے بڑھ سکیں گے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں فوج اور عدلیہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آپ سوچیں کہ کیا کر رہے ہیں۔ براہ کرم قومی سلامتی کے اداروں کو سیاست میں ملوث نہ کیا جائے۔ فوج کو بھی سیاسی معاملات میں ملوث نہیں کرنا چاہیے ، اسے اپنا پروفیشنل کام کرنے دیں۔ پارلیمنٹ میں اداروں پر تنقید نہیں ہونی چاہیے فوج بہت سے مارشل لائوں سے گزری ہے جب تک عوام کو پتہ نہیں چلے گا کہ فوج کا کردار کیا ہے وہ نہیں جان سکیں گے۔

جہاں تک انتخابات میں دھاندلی کا تعلق ہے تو اگر حالیہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے تو پتہ چلانا چاہیئے تھا کہ کون اس میں ملوث ہے۔ الیکشن کو شفاف بنانے کیلئے انڈیا جیسا طریقہ استعمال کیاجاسکتا ہے، وہاں انتخابات ایگزیکٹو کراتی ہے عدلیہ کے لوگ اس میں شامل نہیں ہوتے۔ وہاں بائیو میٹرک سسٹم موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کبھی دھاندلی کا ذکر نہیں ہوتا۔ وہاں الیکشن کمیشن خود مختار ہے اور اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔ بلکہ دیگر تمام ادارے انتخابات کے انعقاد کے لیے اس کی ڈسپوزل پر ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں انتخابات میں شفافیت کے لیے بائیومیٹرک سسٹم اور دیگر اصلاحات پر زور دینا چاہیے۔

ڈاکٹر عاصم اﷲ بخش (دانشور و سیاسی تجزیہ نگار)

موجودہ صورتحال پر بات کریں تو اردو ادب کا قصہ چہار درویش یاد آتا ہے موجودہ صورتحال بھی قصہ چہار حلقہ سے شروع ہوئی، یہ قصہ ایک سال میں ختم نہ ہوسکا تو مسئلہ اتنا بڑھا کہ بڑھتے بڑھتے اب جمہوریت کے سوالات کھڑے ہونا شروع ہوگئے ہیں جمہوری اداروں کیلئے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ جمہوریت اصل میں انسانی برابری کی بنیاد پراستوار ہوتی ہے جس میں بنیادی سے ہائی لیول تک برابری ہوپوری جمہوریت نہ بھی ہو تاہم کچھ ضروری چیزیں ضرور شامل ہوں ، ایسا نظام جس کی بنیاد ہی برابری نہ ہو، کیسے چل سکے گا۔

جمہوریت میں عام آدمی کو صحت، تعلیم اور انصاف ملنا چاہیے مگر ہمارے ہاں یہ سب چیزیں موجود نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت کیوں نہیں چلتی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت صرف اقتدار تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ الیکشن کے دن تک امیدوار کا رویہ عام لوگوں اور ووٹر کے ساتھ مختلف ہوتا ہے مگر جونہی الیکشن ختم ہوتا ہے وہ کسی اور ہی دنیا کے لوگ بن جاتے ہیں۔ دنیا میں جمہوریت کے لحاظ سے وہ معاشرے مضبوط ہیں جہاں جمہوریت کی وجہ سے معاشرے نے بھی ترقی کی۔ جہاں لوگوں کو نظام سے حقوق ملتے ہیںتو وہ اس کا حصہ بنتے ہیں،ایسے معاشرے میں ووٹر جمہوریت کا سٹیک ہولڈر ہوتا ہے اور وہاں جمہوریت کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

ہمارے ہاں اقتدار ملنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ کسی کو جواب دہ نہیں رہے اور آپ سوچنا شروع کردیتے ہیں کہ کوئی آپ سے سوال نہ کرسکے۔ عدلیہ عوامی سوالات کے جامع جواب دینے کیلئے ہوتی ہے مگرہمارے ہاں اس کی بھی کمی ہے۔ ہمارے ہاں اشرافیہ کا رویہ بھی سب کے سامنے ہے کہ وہ بھی خود کو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے۔ جمہوری نظام میں چھوٹے چھوٹے کل پرزے ہوتے ہیں جن میں لوکل گورنمنٹ سب سے اہم ہے جہاں سے سیاست سیکھ کر لوگ آگے آتے ہیںاور پرائمری سے گریجوایشن کرکے سیاست میں آگے آتے ہیں۔ اس سے عوام کے بنیادی مسائل بھی حل ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ جمہوریت گراس روٹ لیول تک جاتی ہے تو مسائل کے حل کی طرف رجحان جاتا ہے کیونکہ اگر آپ عام آدمی کے مسائل کو سمجھ لیتے ہیں تو اس کو بہتر طور پر حل کرسکتے ہیں یا حل کرنے کیلئے ایک اخلاقی سطح پر کھڑے ہوتے ہیں۔ سیاست میں اخلاقیات بھی ہوتی ہیں اخلاقیات کے بغیر سیاست نہیں ہوتی اسے ہمیشہ موجود ہونا چاہیے۔ طاہر القادری کے 14لوگ قتل ہوئے وہ ان کی ایف آئی آر درج کرانے کیلئے بات کرتے رہے تو وہ اس وقت اخلاقی بنیاد پر کھڑے تھے جو ان کا حق تھا مگر اس میں ان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا، حکومت نے جان بوجھ کر یا اپنے نظام کو بہتر نہ کرنے کیلئے ایسا نہ کیا تو انہیں احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔

احتجاج میں بھی اگر شورشرابہ ہورہا ہے تو یہ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ ہمارے ہاں احتجاج کے بغیر حق نہیں ملتا، اگر کسی کا کوئی قتل ہوجائے تو کوئی نہیں پوچھے گا تاہم اگر وہ گورنر ہاؤس کے سامنے لاش رکھ کر بیٹھ جائے تو ہر کوئی بھاگا آئے گا۔ جہاں جمہوریت ہوتی ہے وہاں آئین پر عمل کرنا انسانی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے اچھے نتائج نکلتے ہیں۔ عمران اور طاہرالقادری کے احتجاج کے مطالبات بے جا نہیں ہیں ان کی شہادتیں ہوئی ہیں اور انہوں نے تنگ آکر اپنے مطالبات سامنے رکھے۔

سیاست میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، عمران خان نے 6مطالبات سامنے رکھے مگر اس کیلئے ٹائم فریم نہیں دیا انہیں چاہئے تھا کہ اپنے 5مطالبات پر توجہ دیتے اور ایک ماہ کا وقت دے کر چلے جاتے ایک ماہ کے اندر اگر ان پر عمل نہ ہوتا تو دوبارہ آجاتے اور تب ان کے ساتھ زیادہ لوگ موجود ہوتے۔ اس وقت اسلام آباد کے جو مناظر ہیں اس سے ملک کو بہت نقصان ہوتا ہے۔ لانگ ٹرم انوسٹمنٹ رک جاتی ہے، دوسرا آپ کا علاقائی طاقت ہونے کا دعویٰ غلط ہوجاتا ہے اور دنیا آپ کے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش شروع کردیتی ہے۔

یہ طاہر القادری کا دوسرا دھرنا ہے اگر اس طرح کے دھرنوں کی اجازت عام ہوگئی تو نقصان ہوگا۔ آئندہ کیلئے یہ طے ہونا چاہیے کہ احتجاج کا نتیجہ ہمیشہ مذاکرات سے نکلے گا ۔ اب اگر عمران خان واپس چلے بھی جاتے ہیں تو حکومت کو ان کے مطالبات سے نہیں بھاگنا چاہیے وزیراعظم پر استعفیٰ کیلئے دباؤ موجود رہنا چاہیے کیونکہ ان پر لوگوں کے خون کا معاملہ ہے اور بہت سے لوگ زخمی بھی ہیں۔ ضروری ہے کہ مسئلے کا حل جلدی ہو اور کچھ دنوں کا وقت دے کر حل کیا جائے اور جو نتیجہ آئے اس پر عمل کیا جائے۔

پارلیمنٹ کے اجلاس میں اداروں کے حوالے سے جو باتیں شروع کردی گئی ہیں وہ درست نہیں، پارلیمنٹ میں ہونا یہ چاہیے کہ تمام اداروں پر اعتماد کا اظہار کیا جائے اور ہر ادارے کی غیر جانبداری کو یقینی بنایاجائے۔ اگر پارلیمنٹ یہ چاہے کہ صرف اسے ہی بچایا جائے باقی اداروں پر تنقید کی جائے تو اس میں ہونے والی تقاریر چبھیں گی۔ فوج ہر مشکل وقت اور قومی مسائل میں ملک کے کام آتی ہے تو اس کی عزت بھی ہونی چاہیے۔

سلمان عابد (سیاسی تجزیہ نگار)

جمہوری قوتوں کو ایک بنیادی بات سمجھنا ہوگی کہ ہمارے ہاں جمہوریت ابھی بھی ارتقائی مراحل میں ہے، یورپ، امریکہ کی طرح نہیں ہے۔ پاکستان کی جمہوریت کا تجزیہ کریں تو سب سے پہلے سول فوجی تعلقات کا معاملہ زیر بحث آتا ہے۔ جب بھی مارشل لاء آیا سول اور فوجی قیادت میں اختلافات کی وجہ سے آیا۔ جمہوریت کو ایک جگہ جمود کا شکار کردیا جائے اور جمہوریت عوام کو ڈلیور نہ کرسکے تو کسی بھی صورت چل نہیں سکتی۔

حالیہ بحران کے حوالے سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت اس وقت چلتی ہے جب تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں۔ ہم ہر چیز کو مرکزیت میں لے کر چلنے کے عادی ہوچکے ہیں اور ایک شخص اداروں کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کرتا ہے جس سے اداروں میں کرپشن پیدا ہوتی ہے۔ عام خیال یہ تھا کہ نواز شریف کی حکومت ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آئی ہوگی مگر چند ماہ میں ہی حکومت اور فوج میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں، عدلیہ کو بھی تابع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پچھلے کچھ دنوں میں کئی ایس ایس پیز نے اسلام آباد میں تعیناتی سے انکار کردیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت نے ریاستی اداروں کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ پھر اچانک جاوید ہاشمی کی انٹری بہت اہم ہے انہوں نے عدلیہ کو بھی معاملے میں شامل کرلیا اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہے۔ اس طرح سے اداروں کو آمنے سامنے کھڑا کردیا گیا ہے۔ عدلیہ وضاحت کررہی ہے، پارلیمنٹ میں ہونے والی تقاریر نے بھی معاملات کو مزید الجھا دیا ہے۔ پارلیمنٹ 20روز میں مسئلہ حل نہیں کرسکی۔

15روز کے احتجاج کے بعد ایف آئی آر کٹی اور وہ بھی نامکمل اور پھر بعد میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔ عمران خان کی کچھ باتوں سے اختلاف بھی ہے اور کچھ کو ٹھیک بھی مانتا ہوں۔ وہ ایک سال تک مختلف طریقوں سے اپنی جائزبات منوانے کی کوشش کرتے رہے مگر جب ان کی کہیں نہیں سنی گئی تو انہوں نے آزادی مارچ شروع کیا اور ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ جب لانگ مارچ شروع ہوتے ہیں تو مطالبات ماننے شروع کردیئے جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ آئین پر عملدرآمد ہورہا ہے مگر حقیقت میں بہت سی شقوں پر عمل نہیں ہورہا ہوتا، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی کی درخواست پر ایف آئی آر درج نہ ہو اور ہائیکورٹ کا حکم لانا پڑے یا دھرنے دینے پڑیں۔ اس وقت دھرنے دینے والے بھی جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں کررہے مگر وہ بھی مجبور ہیں۔ بھارت کی جمہوریت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے وہاں بھی ایسے مسائل جو پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں وہ نہیں ہوئے تو انا ہزارے کو باہر نکل کر کرپشن کے خاتمے کے لئے قوانین بنوانے پڑے جو کہ پارلیمنٹ میںہونے چاہئیں تھے۔ جب تک ہم حکمرانی کے انداز کو نہیں بدلیں گے انداز حکمرانی کو آئین کے تابع نہیں کریں گے تو جمہوریت میچور نہیں ہوگی اور نہ چل سکے گی۔

ہمارے ہاں جمہوریت نہیں بلکہ خاندانی بادشاہت چلائی جارہی ہے۔ موجودہ نظام میں عام آدمی سوچتا ہے کہ اس کا نظام میں کیا کردار ہے۔ وزیراعظم کا رویہ یہ ہے کہ کئی ایم این ایز تو ایک طرف کئی وزراء کی بھی ان سے کئی کئی دن ملاقات نہیں ہوتی تھی، وہ پارلیمنٹ میں نہیں آتے تھے مگر دھرنے کی وجہ سے انہوں نے پارلیمنٹ میںباقاعدگی سے آنا شروع کردیا ہے۔

اپوزیشن کا کام ہی اختلاف کرنا ہوتا ہے اپوزیشن ہمیشہ نعرے لگاتی ہے اور احتجاج بھی کرتی ہے اگر حکومت بھی وہی کردار ادا کرنا شروع کردے تو معاملات خراب ہوجاتے ہیں، پچھلے کچھ عرصے سے وزراء کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیںتو حکومت کے کردار کا پتہ چل جائے گا۔ حکومت اس وقت چاہتی ہے کہ فوج اس دھرنے کے ختم کرنے کیلئے آگے آئے مگر یہ فوج کا کام نہیں ہے، جمہوریت میں ہر ادارے کا اپنا کردار ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔

مذاکراتی عمل میں بیشتر جماعتوں کا انداز ایک فریق کا ساتھا ، مذاکرات میں جب آپ فریق بن جاتے ہیں تو مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اس بحران کو پیدا کرنے میں حکومتی طرز عمل کا بھی ایک اہم کردار ہے ۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کسی بھی مسئلے میں فوج کی طرف دیکھتے ہیں اگر ایسا کیا جائے گا تو فوج اپنے مفادات کا تحفظ ہی کرے گی۔ملک کو خارجی خطرہ اس وقت ہوتاہے جب اندر سے خطرہ ہوتا ہے آپ جب تک اندرونی جمہوری نظام کو بہتر نہیں کریں گے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔