(میڈیا واچ ڈاگ) – عصمت فروشی جرم یا مجبوری؟

ضمیر آفاقی  پير 8 ستمبر 2014
’’ میرے پاس کوئی چوائس نہیں تھی۔ میرے خیال میں فلمی دنیا کا انتخاب کر کے میں نے غلطی کی تھی‘‘۔ فوٹو این ڈی ٹی وی

’’ میرے پاس کوئی چوائس نہیں تھی۔ میرے خیال میں فلمی دنیا کا انتخاب کر کے میں نے غلطی کی تھی‘‘۔ فوٹو این ڈی ٹی وی

کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی بچہ پیدائشی مجرم نہیں ہوتا ،اور یہ بھی کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اس بات کا اعلان ہے کہ قدرت ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوئی، یہ تو وہ حالات کار ہیں جو کسی انسان کو مجرم یا شریف بناتے ہیں، کسی کو مجرم بننے سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ان حالات کا خاتمہ کیا جائے ۔آپ تمام برائیوں اور جرائم کے پیچھے چھپے محرک کو تلاش کریں تو پتہ چلے گا ’’بھوک‘‘ کی کوکھ سے ہی تمام برائیاں اور جرائم جنم لیتے ہیں۔

بھوک کی ہر قسم خطرناک ہوتی ہے،دنیا میں جتنی لعنتیں اور برائیاں ہمیں نظر آتی ہیں وہ بھوک کی کوکھ سے ہی جنم لیتی ہیں، گدا گری سے لیکر انسانی شرف کی تذلیل اور عصمت فروشی تک بھوک ہی لے کر جاتی ہے۔ مجبوریاں انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں اس کا ادراک اور احساس معاشروں میں نظر نہیں آتا یہاں،مذہبی تقریبات کے لئے اور ثواب حاصل کرنے کے لئے تو جیب فوراً ڈھیلی کر دی جاتی ہے جبکہ کسی غریب ،مجبور اور بیمار کی مدد کرتے وقت جیبیں خالی کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔ یہ ہمارا مجموعی رویہ ہے اور پھر ہم معاشرے کے ایسے افراد جو کسی مجبوری کی بنا پر گناہوں میں شرف انسانی کو آلودہ کرتے ہیں ان کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔

قصور وار کون؟ ’’مجبوری‘‘ کی حالت میں گناہ کرنے والا یا وہ جس کی جیب کسی مجبور کے لئے ڈھیلی نہیں ہوتی یا معاشرہ جو ان حالات کے خاتمے کی طرف اپنی اجتماعی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتا ہے، غلط کار انسان نہیں وہ معاشی و معاشرتی حالات ہیں جو اسے غلطیوں کی طرف لے کر جاتے ہیں ۔

جب کوئی عورت عصمت فروشی کے جرم میں پکڑی جاتی ہے تو انسانیت کی تذلیل کا وہ منظر انتہائی شرمناک ہوتا ہے اور اس عورت کو اس وقت دنیا کی سب سے بری عورت بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ مگر کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ ہم میں سے اکثر اسی ذلیل اور راندہ درگاہ ہستیوں کے در پر ٹھوکریں کھانے جاتے ہیں، کیا ہمارے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ہم بھی ذلیل اور اسی کی طرح گرئے ہوئے ہیں ۔ یا کیا کبھی کسی ان کی ضروریات کو بنا ’’غرض‘‘ پوری کرنے کی کوشش کی ؟۔

ابھی حال ہی میں ایک خبر نظر سے گزری جس کے مطابق ایک بھارتی اداکارہ کو ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے قابل اعتراض حالت میں گرفتار کر لیا گیا اس امر کی تفصیل کچھ یوں بیان ہوئی ہے کہ نیشنل ایوارڈ یافتہ بھارتی اداکارہ شویتا باسو پرساد کو حیدر آباد پولیس نے مبینہ طور پر عصمت فروشی کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ شبانہ اعظمی کی بالی ووڈ فلم مکڑی میں چائلڈ سٹار کے طور پر کام کرنیوالی شویتا باسو کو اس فلم میں بہترین اداکاری پر نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا گیا تھا جو بھارتی سینما میں آسکر ایوارڈ کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ شویتا نے نیشنل ایوارڈ یافتہ فلم اقبال سمیت متعدد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ تاہم شویتا بالی ووڈ فلموں کے بجائے ان دنوں تیلگو فلموں میں کام کر رہی تھی۔

مشہور بھارتی ڈرامہ سیریل کہانی گھر گھر کی میں اداکارہ ساکشی تنوار کی بیٹی کا کردار بھی نبھانے والی شویتا باسو نے عتراف کیا ہے کہ وہ پیسوں کی کمی پورا کرنے کے لئے ان برے لوگوں کے ہتھے چڑھی، اس پر گھریلو ذمہ داریاں ہیں اور بھی کئی اچھے کاموں کے لئے پیسے کی ضرورت ہے ، اور جب اس کے حصول میں اس کو مکمل طور پر ناکامی ہو گئی تو کچھ لوگوں نے اس کو برے کاموں کی ترغیب دی۔

’’ میرے پاس کوئی چوائس نہیں تھی۔ میرے خیال میں فلمی دنیا کا انتخاب کر کے میں نے غلطی کی تھی‘‘۔

شویتا باسو کو خصوصی ریسکیو ہوم میں بھیج دیا گیا ہے ، جہاں پر مقدمے کی سماعت کے دوران وہ زیر نگرانی رہے گی۔

اسی سے ملتی جلتی ایک اور خبر کے مطابق بھارتی ماڈل اور اداکارہ پونم پانڈے کو عوامی مقامات پر غیر اخلاقی لباس پہننے پر گرفتار کرنے کے بعد تنبیہ کر کے رہا کر دیا گیا تھا۔ بھارتی ادکارہ کی گرفتاری پر فلمی دنیا کے حلقوں کے ساتھ سماجی حلقوں میں بھی یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری میں فحاشی عریانی کی کوئی خاص تمیز نہیں رہی اور نہ ہی کوئی حدود و قیود ہیں اسے ملک میں ایک ادکارہ کا گرفتار ہونا سمجھ سے بالا تر ہے جبکہ اس نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اس نے یہ کام اپنی مجبوری اور ضرورت کے تحت کیا ہے۔

دنیا کی کوئی بھی عورت خوشی سے ایسا کوئی کام نہیں کرتی نہ کریں گی جس میں اس کا شرف مجروح ہو اور انتہائی ’’ناپسند‘‘ مرد کے ساتھ وقت گزاریں گی۔ مردوں کے معاشروں میں خواتین کا استحصال اس قدر ہو رہا کہ کہ ان کے آبرومندانہ زندگی گزارنے کے راستے بند ہوتے جارہے ہیں ۔ مردوں کے معاشروں میں عورت کو کچھ بھی بنا کر پیش کر دیا جائے یا سلوک کیا جائے اس کی شنوائی میں حائل بھی مرد ہی ہیں ان کو بری راہوں کی طرف دھکیلنے والے بھی مرد ہی ہیں جب تک عورت کو اس کا جائز مقام’’انسان ہونا‘‘ تسلیم کر کے معاشروں میں عزت و احترام اور مساوی درجہ نہیں دیا جاتا اس وقت تک عورت کی حیثت ثانوی رہے گی اور اس کی تقدیر مردوں کے ہاتھ میں ہی رہے گی ،اور وہ جب تک چاہیں جس طرح چاہیں اسے اپنی مرضی استعمال کریں ۔ عورتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے مقام کو پہچانے اور اپنے حق کے لئے جدو جہد کو تیز کریں تا کہ ان کا استحصال کوئی نہ کر سکے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی سینئر صحافی، انسانی حقوق خصوصاً بچوں اور خواتین کے حقوق کے سرگرم رکن ہیں جبکہ سماجی ٹوٹ پھوٹ پران کی گہری نظر ہونے کے ساتھ انسانی تکریم اوراحترام کے لئے جدو جہد ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔