یہ دھرنے والے

سعد اللہ جان برق  منگل 9 ستمبر 2014
barq@email.com

[email protected]

اسلام آباد میں دھرنوں کے بارے میں کچھ لکھنا ویسے بھی سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے اور پھر لکھنے والا بھی اگر ہم جیسا ’’عامی و اُمی‘‘ ہو تو چراغ کو بھی ایک ’’جگنو‘‘ سمجھ لیجیے کیونکہ جگنو بے چارے کی بھی صرف ’’دم‘‘ ہی چمکتی دکھائی دیتی ہے۔

جگنو میاں کی دم جو چمکتی ہے رات کو

سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں

آپ ہماری کم عملی کم فہمی اور بے بضاعتی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ دھرنے ’’آتے‘‘ کس لیے ہیں اور ’’جاتے‘‘ کس لیے ہیں بلکہ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہماری طرح وہ خود بھی نہیں جانتے کہ وہ آتے کس لیے ہیں اور پھر جاتے کس لیے ہیں ۔

آنے کا سبب یاد نہ جانے کی خبر ہے

وہ دل میں رہا اور اسے چھوڑ گیا بھی

دھرنوں کے اس طرح آنے جانے پر ہمیں نہ صرف محمود غزنوی یاد آتے ہیں اور تیمور لنگ کی استانی چیونٹی، بلکہ انیل کپور کی ایک فلم ’’مسٹر انڈیا‘‘ بھی یاد آتی ہے۔ ہم ہی وہ لطیفہ یا مکالمہ عرض کرتے ہیں، جو ہمیں یاد ہے ،ویسے اس موقع پر بیج میں ایک اور غیر متعلق سی بات آگئی ہے اور وہ یہ کہ اگر خدانخواستہ دھرنا والوں کے پاس وہ مسٹر انڈیا والا گیجٹ ہوتا تو موگیمبو کی تو ہر خوشی غم میں بدل جاتی۔

وہ قصہ یوں ہے کہ انیل کپور اپنے مکان کا اوپر پوزیشن کرایہ پر دینا چاہتا ہے اور وہ متوقع کرایہ دار سری دیوی کو مکان کی خوبیاں بتا رہا ہے آخر میں وہ سیڑھیوں کے پاس آکر کہتا ہے کہ یہ سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں۔ تھوڑی دیر رک کر پھر کہتا ہے اور یہی سیڑھیاں اوپر سے نیچے بھی آتی ہیں، یہ ہم نے مکان کی سیڑھیوں کے بارے میں کہا ہے ،کسی ہوائی جہاز کی سیڑھیوں کے بارے میں نہیں حالانکہ جہاز کی سیڑھیاں بھی یہی دونوں کام کرتی ہیں، چاہے کوئی بھی چڑھے یا چڑھائے ۔۔۔ یا اترے یا اتارے۔

ارے ہاں وہ اصل بات تو پھر بیج میں رہ گئی یا یوں کہئے کہ ہم ’’بات‘‘ کو سیڑھی پر چڑھانا چاہتے تھے لیکن کم بخت سانپ اسے نگل کر نیچے لے گیا۔ وہ اصل بات یہ ہے کہ یہ جو دھرنا والے ان دنوں ساری دنیا کو، کالم نگاروں کو، تجزیہ نگاروں کو، داناؤں دانشوروں کو، سرکاری مشینری کو ان دنوں ’’مصروف‘‘ کیے ہوئے ہیں، ان کا اصل مقصد کیا ہے، چلیے یہ بات تو ہم نہیں چھیڑیں گے کہ پاکستانی فوج جو ان دنوں اپنی اس ملک کی اور اس پوری قوم کی بقاء عزت، وقار اور مستقبل کے لیے آپریشن ضرب عضب  میں مصروف ہے یہ ہم نہیں بلکہ سارے لیڈر سارے دانشور اور سارے بولنے لکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی یا ناکامی پر ہی اس ملک اور اس قوم کے مستقبل کا انحصار ہے اور عین اس آپریشن کے وقت کوئی دور پار سے آکر فوج سے کہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ادھر آؤ ۔۔۔ یہ بھی ہم نہیں کہیں گے کیوں کہ یہ بھی ہمارے لیول سے کچھ اونچی بات ہے کہ جو جو باتیں ہو رہی ہیں جو جو بھڑکیں ماری جا رہی ہیں لیکن ہم چونکہ بہت ہی چھوٹے درجے کا کالم نگار ہیں۔

اس لیے اتنی بڑی بڑی باتیں کیسے کہہ سکتے ہیں، صرف سوچ سکتے ہیں اور سوچ رہے ہیں لیکن سمجھ میں کچھ نہیں آتا ہے، خاص طور پر اس پورے ڈرامے کے اندر جو دو آئٹم سانگ ہیں ۔۔۔ ریاست بچانا اور انقلاب برپا کرنا ۔۔۔ یہ دو باتیں تو بالکل ہی ہمارے سر کے اوپر والی باتیں ہیں کیوں کہ ہمیں آج تک یہ بھی علم نہیں ہو سکا ہے کہ کس ’’ریاست‘‘ کو بچانے کی بات ہو رہی ہے۔

اگر یہ ریاست پاکستان ہے تو اس ’’ریاست‘‘ کو خطرہ کیا ہے؟ کافی سوچ و بچار کے بعد ہم نے صرف ایک خطرہ ایسا پایا جو ریاست پاکستان کو ایک عرصے سے لاحق ہے اور یہ خطرہ اس کی رگ رگ نس نس میں اتر چکا ہے اور اب بعد از خرابی بسیار اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کا مرحلہ درپیش ہے، لیکن  دھرنا والے تو ریاست کو اس خطرے سے بچانے کے بجائے اس ’’خطرے‘‘ کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔

اپنی کم فہمی کا کہاں تک بیان کریں۔ اب یہ بات بھی ہمارے سر کے اوپر سے جارہی ہے کہ اتنے ذہین، فطین اور بہت بڑے ناموں والے ’’باراتی‘‘ آخر اس بیگانی شادی میں اتنے عبداللہ کیوں ہو رہے ہیں، اس دن ٹی وی پر کئی پرانے چہرے دیکھے جو دونوں دھرنوں میں موجود تھے۔  یہ حضرات ہر انقلابی کے ساتھ ہو کر انقلابات لا چکے ہیں، ایوب خان کے انقلاب سے لے کر جنرل مشرف اور اس کے بعد زرداری انقلاب میں بھی یہ شامل رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔