(پاکستان ایک نظر میں) - ’’انقلابی‘‘ کرائے پر دستیاب ہیں

وقاص علی  منگل 9 ستمبر 2014
یہ بھی ممکن ہے تمام ذرائع ابلاغ ’کرائے کے انقلابیوں ‘والی خبر کو پوشیدہ رکھنا چاہتے ہوں۔ فوٹو اے ایف پی

یہ بھی ممکن ہے تمام ذرائع ابلاغ ’کرائے کے انقلابیوں ‘والی خبر کو پوشیدہ رکھنا چاہتے ہوں۔ فوٹو اے ایف پی

’’جانبداری ‘‘ایسا مہلک مرض ہے جس کے حملے سے کئی ممتاز صحافی ، تجزیہ نگار، کالم نگار اور تاریخ دان اپنا وقار کھوبیٹھتے ہیں۔ قصور ان کا بھی نہیں ہے ، ظاہر ہے انسانی جبلت بھی کوئی چیز ہے جو بہرحال ہر عاقل و بالغ انسان کے ساتھ ہمیشہ چپکی رہتی ہے۔ تحریرنگاروں  میں ’’صحافت ‘‘ایسی صنف ہے ، جسے جانبداری اور غیر جانبداری سے دامے درمے قدمے سخنے واسطہ پڑتا ہے ۔ 
9اگست کو بی بی سی اردو پر شہزاد ملک کی خبر شائع ہوئی ، خبر کا خلاصہ پیش نظر ہے۔ 

’’پاکستان عوامی تحریک کا ’انقلاب مارچ‘ طویل ہونے کی وجہ سے مبینہ طور پر کرائے پر لائے جانے والے افراد اب اپنے گھروں کو جانے کے منتظر ہیں۔ عوامی تحریک کے مقامی عہدیداروں نے اْن کے گھر والوں کو 6 ہزار روپے بھی دیے جو انھوں نے بخوشی قبول کر لیے۔ علاقے اور قریبی گاؤں سے 300 کے قریب زیر تعلیم نو عمر لڑکوں کو انہی شرائط پر اسلام آباد لایا گیا ہے‘‘۔

آج تنقید یا وضاحتی تبصرے کا من نہیں ہے اسلئے چند سوالات گوشوار کرنا چاہتا ہوں ۔ میرے سوالات کو صحافتی نقطہ نظر سے دیکھئے گا ورنہ آپ مجھ پر ’’جانبداری ‘‘کا لیبل لگنے میں دیر نہیں کریں گے ۔

* ’’کرائے کے شرکاء ‘‘صرف بی بی سی کے نامہ نگار کو ہی کیوں ملے ؟ دیگر ذرائع ابلاغ کے صحافی بھی تو’’کرائے کے وفادار ‘‘تلاش کررہے تھے ؟

* 300 زیر تعلیم نوعمر لڑکے آئے لیکن مقامی علاقے سے کوئی خبر نہیں آئی؟ کیا دیگر ذرائع ابلاغ سے گاؤں سے اتنی بڑ ی تعداد میں آنے والے بچوں کی خبر چھپ سکتی ہے ؟

* کیا آپ نے آزاد ذرائع سے ان افراد کی تصدیق کروائی کہ واقعی وہ ’’کرائے کے انقلابی ‘‘تھے ؟

* اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ ’’کرائے کے شرکاء ‘‘مخالف سیاسی پارٹی سے تعلق کی بنیاد پر ’’انقلابیوں ‘‘کو بدنام کرنے نہیں آئے؟

* جب ان ’’کرائے کے نوعمر انقلابیوں ‘‘پرپولیس کی شیلنگ ہوئی تو وہ فرار کیوں نہیں ہوئے ، کیا 6ہزار کی رقم جان سے زیادہ قابل قدر ہے ؟ یا پھر ان کو ایک زنجیر میں جکڑدیا گیا تھا ؟

* جب گوجرنوالہ میں لوہیا والہ ہائی اور اسکے دیگر نواحی علاقوں میں انقلاب میں شرکت کے اعلانات بمع رقم ہو رہے تھے تب کسی صحافی نے کوئی خبر پیش نہیں کی ، تب کسی سیاسی مخالف نے ویڈیو نہیں بنائی ؟

* زخمی اور حبس بے جا میں رکھے نو عمر لڑکوں کے ساتھیوں کا دیگر ذرائع ابلاغ تک پہنچا کتنا مشکل ہے ؟

خبر کو پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں جن خدشات نے جنم لیا ان کا اظہار کردیا، ممکن ہے کہ میرے خدشات یکسر غلط ہوں۔ کیونکہ جس طرح انقلاب اور آزادی مارچ میں لوگوں کا جوش و خروش دیکھا یا دیکھایا جارہا ہے ملکی تاریخ کے کسی دھرنے میں ایسا جوش وخروش دیکھنے میں نہیں آیا۔اور اس طرح کی کسی خبر کے بعد تو مجھے جیسے کسی بھی عام انسان کے لئے یہ فیصلہ کرنا بے حد مشکل ہے کہ آیا یہ لوگ اپنی مرضی سے یہاں آئے ہیں یا انہیں پیسوں کے بدلے لایا گیا ہے، نہ صرف یہ بلکہ روز ان کی حاضریاں لی جاتی ہیں اور انہیں اپنے گھر بھی واپس نہیں جانے دیا جارہا، جیسا کہ کسی اسکول میں بچوں کی چھٹی بند کردی ہوں اور انہیں سزا کے طور پر اسکول میں رکھا گیا ہے۔

یہ بھی ممکن ہے تمام ذرائع ابلاغ ’کرائے کے انقلابیوں ‘والی خبر کو پوشیدہ رکھنا چاہتے ہوں، لیکن ایسا سوچنا حقیقت پر مبنی نہیں ، کیونکہ دھرنوں کے سیاسی مخالفین بڑے شدومد سے ان کمزوریوں کو تلاش کرتے رہے جو دھرنوں کے منہ پر کلنک ثابت ہو سکے ۔ اگرچہ سیاسی مخالفین دھرنے میں کرائے کی بھرتیوں کے دعوی کرتے رہے لیکن وہ محض روایتی دعوی ہی نکلنے تھے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔