سیاسی بحران میں پیپلز پارٹی کی قیادت کا کردار

خالد قیوم  بدھ 10 ستمبر 2014
اسمبلی کی ساری کارروائی کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ پیپلزپارٹی نے کمال مہارت سے جمہوریت کو اپنے حق میں استعمال کیا۔  فوٹو: فائل

اسمبلی کی ساری کارروائی کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ پیپلزپارٹی نے کمال مہارت سے جمہوریت کو اپنے حق میں استعمال کیا۔ فوٹو: فائل

لاہور: دھرنوں کا جو بحران جاری ہے اس میں مسلم لیگ (ن )کا گراف اوپر گیا ہے یا نیچے، اس بارے میں اپنی رائے محفوظ رکھوں گا تاہم یہ بات ثابت شدہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے عوام میں اپنی مقبولیت کے گراف کو اونچا کیا ہے۔

چین کے دورے سے قبل سابق صدر آصف زرداری لاہور آئے اور رائے ونڈ میں میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم سے ملاقات کی جس کے بعد انہوں نے اس بحران میں معتدل کردار ادا کرنے والی سیاسی قوت جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے منصورہ میں ملاقات کی ۔ 32 سال بعد پیپلزپارٹی کے کسی سربراہ نے منصورہ میں جماعت اسلامی کے امیر سے ملاقات کی ہے۔ آصف زرداری کی آخری ملاقات چوہدری برادران سے ہوئی۔

ان ملاقاتوں میں وہ یہ پیغام دے کر گئے کہ بحران کا حل ڈائیلاگ، ڈائیلاگ اور صرف ڈائیلاگ ہے۔ اب حکمران جماعت نے اس کا کیا مطلب سمجھا ہے اس کی وضاحت بھی انہیں خود ہی کرنی ہے لیکن میری رائے میں اس کا مطلب یہ تھا کہ میاں صاحب دھرنے والوں سے مذاکرات کریںاور انہیں کچھ دینا بھی پڑے تو دے کر معاملے کو حل کریں۔ ان سرگرمیوں کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا ہے۔

یہ اجلاس کس کے مشورے پر بلایا گیا اس کے بارے میں بھی چوہدری اعتزاز احسن نے اسمبلی فلور پر بتا دیا ہے کہ انہوں نے اور سید خورشید شاہ نے تجویز دی تھی۔ ن لیگ نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس پیپلزپارٹی کی تجویز پر بلا کر ایک مثبت قدم اٹھایا ہے ۔ اس کا اسے سیاسی لحاظ سے فائدہ پہنچا کیونکہ پارلیمنٹ میں ہی جاوید ہاشمی نے تقریر کی اور اس تقریر کے ’’ثمرات‘‘بھی دیکھنے کو ملے۔

اگر وہ پارلیمنٹ سے باہر یہ سب باتیں کرتے تو کسی نے نوٹس نہیں لینا تھا۔ اسمبلی فلور پر پارلیمنٹیرینز نے کھل کر دھرنوں سے پیدا ہونے والے بحران پر اظہار خیال کیا، خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن اور محمود اچکزئی نے عمران خان اور طاہرالقادری کے بارے میں انتہائی سخت زبان استعمال کی جس کا عمران خاں نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا ۔

اسمبلی کی ساری کارروائی کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ پیپلزپارٹی نے کمال مہارت سے جمہوریت کو اپنے حق میں استعمال کیا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے دھرنے والوں کے خلاف سخت لہجے میں گفتگو کی جس پر طاہرالقادری نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اسی طرح میاں رضا ربانی نے بھی دھرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا لیکن ان دونوںکا مؤقف جمہوریت کے حق میں تھا۔

میں سمجھتا ہوں کہ پیپلزپارٹی کی طرف سے سب سے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ سینٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے کیا۔ انہوں نے اسمبلی فلور پر اپنی پہلی تقریر میں بھی انتہائی مدبرانہ انداز میں گفتگو کی اور میاں صاحب کے طرز حکمرانی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ طاہرالقادری اورعمران خان کا شکریہ کہ انہوں نے میاں نواز شریف کو پارلیمنٹ یاد دلادی۔

اعتزاز احسن نے حکومت پر شدید الزامات لگائے، وزراء کو نا اہل قرار دیا اور کہا کہ الیکشن میں شدید دھاندلی ہوئی ہے ۔ اس تقریر کے بعد نہ جانے چوہدری نثار کے ذہن میں ایسی کیا بات آئی کہ انہوں نے اپنے چیمبر میں گفتگو کرتے ہوئے چودھری اعتزاز احسن کو تنقید کا نشانہ بنایا اور الزامات لگائے۔ اس نازک موقع پر چوہدری نثار کا یہ طرز عمل کم از کم میری سمجھ سے باہر ہے۔ اگلے روز پارلیمنٹ میں اعتزاز احسن خوب گرجے اور برسے۔ انہوں نے چوہدری نثار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور پارٹی قیادت کے ساتھ ان کی وفاداری کو بھی چیلنج کیا۔

اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف اور مسلم لیگ(ن) کے وزراء کے چہروں کے تاثرات دیکھنے کے قابل تھے۔ نواز شریف نے اعتزاز احسن سے معذرت کی اور بڑی جدوجہد کے بعد اس معاملے کو ٹھنڈا کیا ۔ اگر اس موقع پر چوہدری نثار بھی تقریر شروع کردیتے تو شاید پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے راستے جدا ہو جاتے۔ چوہدری نثار علی نے چودھری اعتزاز احسن کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے پریس کانفرنس کر نے کا اعلان کیا مگر وزیراعظم نے انہیں چودھری اعتزاز احسن کی تقریر کا جواب دینے سے روک دیا ، اس پر چودھری نثار اپنی مختصر پریس کانفرنس میں درگزر کرنے کا کہہ کر چلے گئے ۔

اسی دوران آصف علی زرداری بھی بحران کے خاتمے کیلئے اسلام آباد پہنچے، وہاں انہوں نے چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی سے ملاقات کی اور سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ سابق صدر نے صحافیوں سے بھی ملاقات کی اور جمہوریت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اعتزاز احسن کو بھی حق پر قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہوا اچھا نہیں ہوا لیکن اعتزاز احسن نے جو کچھ کیا صحیح کیا۔ یوں دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی نے اس سارے بحران میں اپنے قد کو بلند کیا ہے۔

پیپلزپارٹی نے میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو ہدف تنقید بنایا اور ان کے طرز حکمرانی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کے وزراء خصوصاً چوہدری نثار علی خان پر بھی کڑی تنقید کی۔ آصف زرداری نے ایک ایسی پالیسی اختیار کی ہے جس میں نہ تو دھرنے والے ان سے ناراض ہوئے اور نہ ہی جمہوریت والے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے والے اور میمو سکینڈل میں عدالت جانے والے میاں نواز شریف جمہوریت بچانے کیلئے آصف زرداری کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہیں۔

حد یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی اور عہدیدار بھی میاں صاحب اور وزراء پر تنقید کر رہے ہیں اور وہ اسے خاموشی سے سن رہے ہیں۔ آصف زرداری نے تو ایک پالیسی تیار کر کے اپنے عہدیداروں کو دے دی لیکن اس پالیسی کی سب سے اچھی تشریح چوہدری اعتزاز احسن نے کی۔ چوہدری نثار کو ذاتی بات کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

چودھری نثار علی خان کے اپنی پارٹی کے اندر بھی بہت مسائل ہیں اور وہ کئی بار وزیراعظم کیلئے مشکلات پیدا کر چکے ہیں۔ ان کے بعض ساتھی وزراء کے ساتھ بھی اچھے تعلقات نہیں ہیں اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے ساتھ بھی ایک میٹنگ میں جھڑپ ہو چکی ہے اور دونوں کے درمیان بول چال تک بند ہے ۔ وزیر دفاع خواجہ آصف ہیں اور آرمی چیف سے روزانہ ملاقاتیں وزیر داخلہ چودھری نثار کرتے ہیں خواجہ آصف اور دیگر وزراء ان کے اس عمل کو بھی پسند نہیں کرتے۔

چودھری نثار پرویز مشرف کے معاملے پر کمٹمنٹ پوری نہ ہونے پر وزیراعظم سے بھی ناراض ہوگئے تھے اور پارلیمنٹ میں آنا بھی چھوڑ دیا تھا ۔ وہ اب بھی اپنے قریبی ساتھیوں کو کہتے ہیں کہ انہوں نے مجبوری میں درگزر کیا، اعتزاز احسن کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ اس کا عملی مظاہرہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب اعتزاز احسن وزیراعظم سے ملنے کے لئے ان کی سیٹ پر گئے تو چودھری نثار اٹھ کر چلے گئے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ سیاسی بحران میں جمہوریت کو شدید خطرات لاحق تھے مگر فی الحال یہ خطرات کم ہوگئے ہیں اور یقیناً اس وقت جمہوریت بچانے کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کے پاس ہے کیونکہ اگر پیپلزپارٹی جمہوریت کے ساتھ کھڑی نہ ہوتی تو پھر اے این پی، ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمان بھی نواز شریف کے ساتھ کھل کر کھڑے نہیں ہوسکتے تھے بلکہ ہو سکتا ہے کہ اب تک حکومت ختم ہوکر نئے الیکشن کا اعلان ہوچکا ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔