افغانستان میں نئے بحران کا خطرہ

ایڈیٹوریل  منگل 9 ستمبر 2014
افغانستان نئے بحران کا شکار ہوتا نظر آ رہا ہے.   فوٹو؛ رائٹرز/فائل

افغانستان نئے بحران کا شکار ہوتا نظر آ رہا ہے. فوٹو؛ رائٹرز/فائل

افغانستان تاریخی طور پر بحران در بحران کا شکار ہونے والا ملک ہے ۔حالیہ تاریخ میں پہلے یہاں سوویت افواج آئیں اور یہاں جنگ ہوتی رہی ‘ پھر طالبان اقتدار میں آ گئے۔ نائن الیون کے بعد امریکا کی فوجیں یہاں آ گئیں جو اب تک موجود ہیں۔

اسی دوران یہاں انتخابات ہوئے۔ جن کے نتیجے میں حامد کرزئی برسراقتدار آئے۔ اب کچھ عرصہ پہلے صدارتی الیکشن ہوا جو متنازعہ ہو گیا۔ صدارتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں اشرف غنی کامیاب ہوئے جب کہ عبداللہ عبداللہ دوسرے نمبر پر رہے۔ اشرف غنی چونکہ 50 فیصد ووٹ حاصل کر سکے تھے‘ اسی لیے الیکشن کا دوسرا مرحلہ ہوا۔ اس الیکشن کے غیر سرکاری ابتدائی نتائج میں اشرف غنی 50 فیصد ووٹ لے کر جیتتے نظر آئے لیکن عبداللہ عبداللہ نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا‘ پھر امریکا نے مداخلت کی اور دونوں کے درمیان مصالحت کی کوشش کی اور ووٹوں کے آڈٹ کا معاملہ شروع ہوا لیکن اب حتمی نتائج آنے سے پہلے ہی عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتیجہ مسترد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مخالف دھڑوں کے ساتھ مل کر قومی حکومت بنانے کی بات بھی ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئی ہے۔

یوں افغانستان نئے بحران کا شکار ہوتا نظر آ رہا ہے۔عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں پہلے اپریل اور پھر جون میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ ہوئی اور وہ دونوں مرتبہ جیتے لیکن انتخابی حکام نے جیت ان کے مدمقابل پروفیسر اشرف غنی کی جھولی میں ڈال دی۔ انھوں نے کہا کہ اب ووٹوں کی از سر نو گنتی کے بعد جو نتیجہ ظاہر کیا جانے والا ہے‘ وہ بھی میرے مخالف  کے حق میں ہی لگتا ہے لہٰذا میں پورے سیاسی عمل کو ہی مسترد کرتا ہوں۔ امریکی صدر بارک اوباما دونوں امید واروں پر زور دے  رہے ہیں کہ وہ مفاہمت سے قومی حکومت بنانے پر رضا مند ہو جائیں‘ اس حوالے سے گزشتہ پیر کو دونوں کی ملاقات بھی ہوئی مگر رضا مندی نہ ہو سکی۔ ادھر اوپر سے دہشت گردی کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ عبداللہ عبداللہ کے کیمپ میں شریک انتہا پسندوں کا کہنا ہے کہ وہ اشرف غنی کی حکومت قبول نہیں کریں گے۔

گویا آنے والے دن مزید افراتفری کی  خبر دے رہے ہیں۔ افغانستان میں نسلی اور لسانی تقسیم بہت گہری ہے۔ عبداللہ عبداللہ شمالی اتحاد کے امید وار ہیں جب کہ اشرف غنی جنوبی افغانستان کی پشتون بیلٹ سے ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ اب عبداللہ عبداللہ نے صدارتی الیکشن کا نتیجہ مسترد کر کے افغانستان کی نسلی اور لسانی تقسیم کو مزید گہرا کردیا ہے‘ افغانستان میں جس قسم کا انتظامی ڈھانچہ قائم ہے‘ اس میں الیکشن شفاف ہونا ممکن نہیں ہے۔ یہاں افہام و تفہیم سے کوئی ارینجمنٹ ہی قائم کیا جا سکتا ہے۔

امریکا نے اس بحران میں مداخلت کر کے یہ پیغام دیا کہ وہ افغانستان میں اشرف غنی کو صدر دیکھنا چاہتے ہے لیکن شمالی اتحاد یہ برداشت نہیں کرے گا۔ افغانستان کے شمالی علاقے ہمیشہ سے روس سے متاثر چلے آ رہے ہیں‘ وہاں کا طرز زندگی بھی جدید ہے اور وہاں تاجک‘ ازبک‘ نورستانی اور ہزارہ منگول قبیلے اکثریت میں ہیں‘ امریکا کو چاہیے کہ وہ اب بھی کوشش کرے کہ عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کسی ایک معاہدے پر متفق ہو جائیں ورنہ افغانستان میں ایک نئی طرز کی جنگ شروع ہو جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔