انقلاب اور انقلابی؟

زاہدہ حنا  بدھ 10 ستمبر 2014
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ان دنوں انقلاب کا کیا غلغلہ ہے ۔ ایک طرف جہلم اور چناب چڑھے ہوئے ہیں ‘ دوسری طرف انقلاب کا دریا جوش پر ہے ۔ پانی انسانوں کو ‘ ان کی بستیوں ‘ کھیتوں اور کھلیانوں کو بہائے لیے جاتا ہے ‘ انقلاب ملکی آئین ‘ قانون‘ پارلیمنٹ اور نظام عدل کو ڈبونے پر کمربستہ ہے ۔ بہ بانگ دُہل یہ کہا جارہا ہے کہ لاہور کے حالیہ سانحے کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ ایسا تو 67 برس میں کبھی ہوا ہی نہ تھا ۔ ان فرمودات کے سامنے ہماری کیا مجال کہ تحریک آزادی کے انقلابیوں کا نام لیں ‘ ڈھاکا یونیورسٹی کے دانشوروں اور طلبہ کا ذکر کریں اور پاکستان میں جہوریت اور انقلاب کے لیے لڑنے والوں کا تذکرہ کریں ۔

ایسے دنوں میں مجھے 12 اگست 1948کے وہ ہلاک شدگان یاد آتے ہیں جو اس وقت کے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ خان عبدالقیوم خان کے اقتدارکی قربان گاہ پر شہید کردیے گئے۔ وزیر اعلیٰ موصوف کا کہنا تھا کہ علاقے میں دفعہ 144 نافذ تھی اور خدائی خدمت گاروں اور سرخ پوشوں کے لگ بھگ 25 ہزار افراد خان عبدالغفار خان اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کے لیے جمع ہوئے تھے ۔ یہ لوگ مسلح تھے اور پورے صوبے  میں سول نافرمانی کی آگ لگانا چاہتے تھے ۔

یہ الم ناک واقعہ جو چار سدہ کے نزدیک بھابھڑا میں ہوا تھا ۔ اس میں خان قیوم کی ہدایت پر پولیس نے گولی چلادی جس کے نتیجے میں سرکاری بیان کے مطابق 25 افراد ہلاک اور 35 زخمی ہوئے ۔ وہ خدائی خدمت گار اور سرخ پوش جنہوں نے اپنے بھائی بھتیجوں اور ساتھیوں کی لاشیں اٹھائیں ‘ ان کا کہنا تھا کہ ہلاک شدگان کی تعداد 600 سے 800 کے درمیان تھی ۔ زخمیوں کی گنتی نہ کی جاسکی۔ یاد رہے کہ اس وقت بانی پاکستان حیات تھے لیکن وہ بھی خان قیوم سے اس قتل عام کا حساب نہ لے سکے ۔ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔ اس خون خاک نشیناں کا آج تک حساب نہیں لیا جاسکا ۔ لیتا بھی کون کہ عبدالغفار خان اور عبدالولی خان نہ دُہری قومیت رکھتے تھے نہ ان کے سر پرکوئی دستِ شفقت تھا ۔

سانحۂ بھابھڑا یاد آیا تو اس کتاب کی یاد آئی جو ’اٹک پار کی یادیں‘ کے عنوان سے عزیز دوست احمد سلیم نے مرتب کی ہے اور ایک جید انقلابی رام سرن نگینہ کے کاغذات اور ان کی یادوں پر مشتمل ہے ۔ رام سرن نگینہ غلّہ ڈھیرکسان تحریک کے روح رواں تھے اور بٹوارے کے بعد اپنی جنم بھومی چھوڑ کر ہندوستان جانے پر مجبور ہوئے ۔ ’اٹک پار کی یادیں‘ ہندوستان میں اب سے لگ بھگ 40 برس پہلے شایع ہوئی تھی لیکن پاکستان میں اس کا چھپنا  ایک مرحلہ ثابت ہوا ۔

اس کتاب کا ابتدائیہ ڈاکٹر عبدالخلیل پوپلزئی ‘ نبیرہ مولانا عبدالرحیم پوپلزئی  نے لکھا ۔ وہ کہتے ہیں’’مفتی سرحد مولانا عبدالرحیم پوپلزئی کے ساتھ رام سرن نگینہ کی والہانہ عقیدت کا یہ حال تھا کہ جب مولانا پوپلزئی 18فروری 1935 کو فریضہ حج کی ادائیگی کے سلسلے میں روانہ ہونے لگے تو رام سرن نگینہ نے بھی پشاور سے نو شہرہ تک اُن کے ساتھ سفر کیا۔اس کے بعد مولانا پوپلزئی کو 10اپریل 1940کو فقیرایپی کا وہ دردناک خط ملا جو راقم کے پاس محفوظ ہے تو مولانا اپنی 15 سالہ بیٹی کو بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑتا چھوڑ کر فوراً بنوں کے دورے پر روانہ ہوگئے ۔ رام سرن نگینہ یہاں بھی مولانا کے ساتھ تھے ۔ حالانکہ یہ دورہ اسلامی جہاد کے حوالے سے مسلمانوں کو فقیر آف ایپی کی ہر ممکن مدد پر آمادہ کرنے کے لیے تھا ۔

مولانا صاحب نے مسجدوں اور دیگر مقامات پر جتنے لوگوں سے خطاب کیا اور فقیرایپی کے ساتھ دینے کا قول و قرار حاصل کیا ‘ رام سرن نگینہ اُن کے ساتھ رہے ‘  یہاں تک کہ بنوں میں ہی مولانا صاحب کو مقدمہ بغاوت میں گرفتار کر کے قید تنہائی کی تاریک کوٹھری میں ڈال دیا گیا ۔ یہ قید با مشقت جس میں مولانا کو بیڑیاں بھی پہنائی گئی تھیں ‘ اُن کی زندگی کی آخری قید تھی ‘ رام سرن نگینہ مولانا صاحب کی گرفتاری کے دوران اُن کا اشارہ پاکر روپوش  ہوگئے ۔ بعد میں جب رام سرن نگینہ بھی قید ہوکر جیل پہنچے تو انھیں مولانا پوپلزئی کے ساتھ آخری بار جیل میں رہنا نصیب ہوا ۔ اس دوران وہ وقت بھی آیا جب رام سرن نگینہ نے اپنے آئیڈیل مولانا پوپلزئی اور باچا خان کی تقلید میں رمضان المبارک کے روزے بھی رکھنے شروع کردیے ۔ جنگ آزادی کے رہنماؤں سے اس قدر گہری عقیدت کی مثالیں تاریخ میں بہت کم ملیں گی ۔‘‘

رام سرن نگینہ کی یہ کتاب ہمیں بٹوارے سے پہلے کی کیسی ناقابل یقین کہانیاں سناتی ہے ۔ وہ لوگ جو آزادی کی راہ میں خاک ہوگئے اور آج ہم ان کا نام بھی نہیں جانتے۔  لاہور کا شاہی قلعہ جسے ہم حسن ناصر کے خون ناحق کے حوالے سے جانتے ہیں ‘ وہ آزادی سے پہلے بھی ایک ایسا عقوبت خانہ تھا جہاں بڑے بڑے رہنما  رکھے گئے اور تشدد کی چکی میں پیسے گئے ۔ رام سرن نگینہ نے لکھا ہے ۔

’’لاہور کا شاہی قلعہ سیاسی لوگوں کے لیے قصاب خانے سے کم نہ تھا ۔ یہی وہ منحوس جگہ تھی جہاں شری جے پرکاش نارائن اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کو برف کے تودوںپر لٹایا  گیا۔یہی وہ مقام ہے جہاں پنجاب کے ایک انقلابی کے منہ پر گندگی کی پٹی باندھ دی گئی اور اُسے دھوپ میں بٹھا دیا گیا ۔ دوسری جنگ عظیم کے وقت ایک نوجوان کو اسی قصاب خانے میں لایا گیا ۔ اُسے وہ ماردی گئی کہ بیچا رہ زندہ رہنے کے قابل نہ رہے ۔ اُسے ننگا کر کے کوڑے مارے گئے ۔ اُس کے بدن میں سوئیاں چبھوئی گئیں ۔ رات رات بھر اُسے جاگنے پر مجبور کیا گیا ۔ اُس کی ہتھیلیوں کو چار پائی کے نیچے رات رات تک دابا گیا۔ اُلٹا لٹکایا گیا ۔ آنکھوں میں سرخ مرچیں ڈالی گئیں اور اس طرح برطانوی شہنشاہیت نے اپنے اخلاق کا ثبوت دیا ۔‘‘

آج ہمارے یہاں فرقہ واریت اس بڑے پیمانے پر پھیل چکی ہے کہ شہر اور ملک میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل ایک روزمرہ ہوچکا ہے ۔ آزادی سے پہلے کا زمانہ وہ تھا جب سیاسی بنیادوں پر بلوہ ہوا ‘ سیاسی کارکن چھرے لہراتے ہوئے حریف کا سینہ چاک کرنے کے درپے تھے ‘ ایسے میں چند غنڈوں نے قصہ خوانی بازار کے ایک اسکول سے لوٹنے والی دو ہندو لڑکیوں کے تانگے پر حملہ کردیا ۔ یہ دیکھنا تھا کہ ایک چپراسی غلام حسین اپنا چھرا لہراتا ہوا اس تانگے تک جا پہنچا ۔وہ تانگے کے پائیدان پر کھڑا ہوگیا اور چھرا لہراتے ہوئے بلوائیوں کو للکارنے لگا ۔ اس کے غیظ و غضب کا یہ عالم تھا کہ بلوائی گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے اور تانگے والا اپنے گھوڑے کی پشت پر چابک برساتا ہوا متاثرہ علاقے سے اندرون شہر جا پہنچا۔ غلام حسین نے ان دونوں لڑکیوں کو ان کے ماتا پتا کے حوالے کیا اور پھر اسی شان سے تانگے کے پائیدان پر کھڑا بلوائیوں کو برا بھلا کہتا ہوا واپس رام نگینہ سرن کے دفتر آن پہنچا اور رات بھر جاگ کر پہرا دیتا رہا کیونکہ خطرہ اس بات کا تھا کہ بلوائی سرن کے دفتر پر حملہ نہ کردیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ہمیں آزادی نہیں ملی تھی لیکن مسلمان چپراسی جان پر کھیل کر ہندو لڑکیوں کی جان بچا رہا تھا اور اب جب کہ آزادی مل چکی ہے تو ہم فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارت گری کے لیے آزاد ہوچکے ہیں ۔ مسلمان ‘ مسلمان کو قتل کررہا ہے ۔

یہ بات اصرار سے کہنی چاہیے کہ ہماری نئی نسل کے لیے اپنی تاریخ سے واقفیت لازمی ہے ۔ زیادہ نہیں تو کم سے کم 100‘150 برس کی تاریخ ‘ بہ طور خاص جدوجہد آزادی کے مختلف پہلوؤں سے آگہی ضروری ہے ‘ تب ہی یہ ممکن ہے کہ ہم بھابھڑا کے قتل عام کے بارے میں کچھ جان سکیں اور یہ بھی ہمیں معلوم ہوسکے کہ ڈھاکا یونیورسٹی کے کرزن ہال میں جھومتے ہوئے صدی ڈیڑھ صدی پرانے پیڑ راتوں میں کیا سرگوشیاں کرتے ہیں اور1970  میں جان سے گزرنے والوں کی کیسی کہانیاں سناتے ہیں ۔

پنجاب سے ایک انقلابی صدا لگاتا ہے میرا رنگ دے بسنتی چولا‘ دوسرا للکارتا ہے سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ‘ دیکھنا ہے زورکتنا بازوئے قاتل میں ہے‘۔ شاہی قلعہ لاہور میں ایک انقلابی دم توڑتا ہے اور آواز آتی ہے کروکج جبیں پر سرِ کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو‘ کہ غرورِ عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلادیا ۔ سندھ کا ایک انقلابی انگریزوں کوللکارتا ہے ‘ مرسوں ‘مرسوں‘ سندھ نہ ڈیسوں‘ بلوچستان کے انقلابی سکھر جیل میں پھانسی کے پھندے کو چومتے ہیں اور نعرے لگاتے ہوئے تختۂ دار پر جھول جاتے ہیں ۔ برصغیر نے دنیا کے عظیم انقلابی پیدا کیے ۔ جب اسلام آباد سے انقلاب کی صدائیں آتی ہیں تو میں اپنی تاریخ کے انقلابیوں کے سامنے شرم سے سر جھکاکر یہ اعتراف کرتی ہوں کہ ہم ’انقلاب‘ اور ’انقلابی‘ جیسے الفاظ کی لاج رکھنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔