اب میں نکل جاؤں گا

انیس منصوری  بدھ 10 ستمبر 2014
muhammad.anis@expressnews.tv

[email protected]

سوداگروں کا مزاج ہی ایسا ہوتا ہے کہ انھیں کوئی بھی نقصان کا سودا قبول نہیں ہوتا۔ گلی کی نکڑ پر کھڑے سبزی والے سے لے کر عمارتوں کے سوداگر بھی یہ ہی کوشش کرتے کرتے اپنی زندگیاں گنوا لیتے ہیں کہ جب ہاتھ لگے بس منافعے کا سودا ہاتھ لگے۔ یہ دیواروں پر چلو چلو لاڑکانہ چلو لکھ کر اپنا سودا بیچنے والے ہوں یا پھر ٹوئٹر پر انگلیاں گھسا کر ’’گو نواز گو‘‘ کا دام لگانے والے ہوں سب کو بس منافعے کا سودا چاہیے۔

جالبؔ کو ایک سانس میں حلق سے مائیک میں اتارنے والے ہو یا پھر زبان کے تیر وں سے ایوانوں میں قبضہ کرنے والے لاڈلے بیٹے ہو، سب کو بس منافع کا سودا چاہیے۔ لیکن کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ سودا کرنے والے دونوں یا پھر تینوں یا پھر درجنوں لوگوں یا گروہوں کو منافع ملا ہو؟ ہم نے تو کتابوں کے ورق اُلٹا اُلٹا کر سیدھے کرنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی لیکن کیا کریں کہ جب کیا گھاٹے کا سودا ہی کیا۔ یوں کہیے کہ ہماری زندگی بھی پاکستانی قوم کی طرح ہے جس سے کیا آنکھیں بند کر کے اپنی گردن کو بس گھاٹے میں ہی پھنسایا۔

دور پتھروں سے بدل کے لوہے کا آیا اور لوہے سے بدل کر جدت ہی جدت آ گئی۔ کہتے ہیں کہ ایران کا انقلاب آڈیوکیسٹ کی وجہ سے آیا اور مشرق وسطی کے سارے انقلاب فیس بک کی مرضی سے آیا۔ کچھ لوگ مانتے ہیں اور کچھ گھاٹے کا سودا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں انقلاب ٹوئٹر سے آیا لیکن سب میں ایک بات تھی کہ کسی نے ایسا سودا نہیں کیا کہ سب کا منافع برابر تقسیم ہوا ہو۔ ایران میں میز کے ایک طرف شاہ تھا تو دوسری طرف انقلاب۔ لیکن کتابوں کے ورق اٹھا اٹھا کر دیکھ لیا ایسا تو نہیں ہوا کہ شاہ زندہ باد کے ساتھ اگلی لائن میں کہی لکھا ہو کہ خمینی بھی زندہ باد۔ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والا سودا ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔

انقلاب آئے گا آزادی ملے گی لیکن اس آئین اور قانون کے ساتھ ہی ملے گی۔ انقلاب کا سودا کرنے والوں نے ہمیشہ اُلٹا ہی کیا۔ انھوں نے تو ہمیشہ یہ ہی کہا کہ قانون ہی غلط ہے جو لوگوں کو انصاف نہیں دیتا۔ کسی نے اسے طبقات کا کہا اور کسی نے غیر مذہبی۔ لیکن سودا کرنے اور کسی چیز پر قبضہ کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ یہ تو اسی طرح ہوتا ہے کہ کسی چیز کو دوسرے سے چھین کر اپنے قبضے میں لے لینا اور پھر اُسے بھٹی میں پگھلا کر نئی شکل دینا۔ لیکن ہم سمجھ نہیں پا رہے کہ یہ سودا ہے یا پھر قبضہ؟

سودے میں اتار چڑھاؤ ہوتا ہے۔ بیچنے والا یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی چیز کو اس قیمت پر بیچ سکے کے رقم بھی وصول ہو جائے اور محنت کی قیمت کے ساتھ اتنا فائدہ ضرور ملے کے اپنے کاروبار کو مزید آگے بڑھا سکے۔ اور خریدنے والا یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ جو چیز لے رہا ہے اُس کی قیمت اتنی ہو کہ اُسے وہ اپنی ضرورت، خواہش یا شوق پورا کر سکے۔

اب اگر کسی بیچنے والے کے پاس مذہب کے الفاظ ہوں، عوامی طاقت ہو اور پیٹھ بھی مضبوط ہو تو وہ کیا بیچے گا۔ یقینا اپنی طاقت بیچے گا۔ لیکن کیوں بیچے گا؟ اس لیے کہ وہ اپنی طاقت کو مزید بڑھا سکے یا پھر اپنے شوق کی تسکین کر سکے یا پھر اپنے بکھرے ہوئے خوابوں کو تعبیر کی شکل دے سکے۔ وہ سودے اور قبضہ کی درمیانی کیفیت میں ہے لیکن خریدار کون ہے؟ جو اس کی صحیح قیمت دے سکے؟ کیا حکومت؟ سودا حکومت سے مذاکرات کی شکل میں ہو رہا ہے۔ جسے ہماری سیاسی زبان میں سیاسی سودے بازی (political barganing ) کہتے ہیں اور ہمیں تو کتابوں میں استاد نے یہ ہی پڑھایا تھا کہ یہ بری بات نہیں ہوتی۔ کوئی گروہ یا جماعت اپنے حقوق کے حصول کے لیے یہ کرتی ہے۔ سو ہم اپنے استاد کی پڑھائی ہوئی انقلابی کتاب کے مطابق اسے ٹھیک مانتے ہیں۔ اور آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ قبضہ بھی ٹھیک ہے ہی لیکن ہمارا سوال بہت آسان سا ہے۔ کہ آخر یہ سودا کس سے ہو رہا ہے اور اگر قبضہ ہو رہا ہے تو کس پر ہو رہا ہے۔

کچھ مجھ جیسے کم عقل لوگ یہ فرماتے ہیں کہ کیوں کہ سرکاری ٹی وی پر قبضہ ہوا ہے اس لیے یہ ریاست پر قبضہ تھا۔ لیکن دوسری طرف جو بات چیت ہو رہی ہے یا سیاسی سودے بازی جو ہو رہی ہے وہ حکومت کے ساتھ ہو رہی ہے۔ مگر حکومت تو یہ کچھ خریدنا چاہتی ہی نہیں تھی تو پھر انھیں کیوں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ کچھ خریدے یا پھر بیچے؟ آپ کے لیے آسان کر دیتے ہیں کہ بظاہر لگ یوں رہا ہو گا کہ دھرنے والے زبردستی کچھ خرید رہے ہیں یا پھر زبردستی قبضہ کر رہے ہیں۔ لیکن کیا حکومت کچھ بیچنے کے لیے تیار بھی ہے یا پھر وہ سب کچھ بیچ چکی ہے۔

ایک امریکی سیاست دان نے کہا تھا کہ تنظیم جتنی طاقت ور ہو اُس کی سیاسی سودے بازی کی صلاحیت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ ایک مشکل تجزیہ ہوتا ہے کہ جب یہ دیکھا جائے کہ خریدنے والا یا پھر پھر بیچنے والا کس وقت کتنا طاقت وہ ہے۔ اور اُس سے مشکل کام یہ ہوتا ہے جب دو سوداگر ایک ہی چیز کو خریدنے کے لیے تُلے ہوں۔ اس بات سے تھوڑا سا سمجھیں کہ اس وقت کس کے پاس سودے بازی یا پھر قبضے کی طاقت زیادہ ہے۔ عمران خان کے پاس یا پھر طاہر القادری کے پاس … خریدار دو ہیں لیکن بیچنے والا ایک۔ یہ بحث الگ ہے کہ یہ دونوں خریدار ایک سکے کے دو رخ ہیں۔

اب آئیے بظاہر یوں لگتا ہے کہ دونوں الگ الگ چیز خریدنا چاہتے ہیں اور قیمتیں بھی الگ الگ ہیں۔ اگر کچھ لمحے کے لیے یہ مان لیا جائے کہ دونوں ایک ہی چیز خریدنے آئے ہیں اور وہ ہے حکومت کا استعفی، تو کیا انھوں نے اُس کی قیمت صیحح لگا لی ہے۔ ساری بحث میں سے ہم قبضے کی کہانی کو ہٹا دیتے ہیں کیونکہ اُس کی طاقت ابھی اُن کے پاس بظاہر نظر نہیں آ رہی ہے۔

اب سیاسی سودے بازی میں اُن دونوں کی قیمت یا طاقت کو ایک پلڑے میں ڈال دیا جائے تو کیا اتنی ہو گئی ہے کہ استعفی آ جائے۔

حکومت کی اس سودے بازی کی صلاحیت پر فرانس کے ایک معروف شاعر کا قول یاد آ گیا کہ کچھ لوگ سودے بازی پر یقین نہیں رکھتے جب تک کہ انھیں کوئی تاجر دھوکا نہ دے۔ ہماری حکومت کا پہلا مسئلہ یہ ہی ہے کہ انھوں نے سیاست کی تو ہے لیکن سیاست سیکھی نہیں ہے۔ جب تک اُن کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ہے جب تک وہ کسی کے ہاتھوں لوٹ نہیں جاتے اور پھر سوگوار ہو کر منہ لٹکائے بیٹھے رہتے ہیں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب حکومت میں اتنی سودے بازی کی ہمت نہیں تو پھر اُن کو یہاں تک کھینچ کر کون لایا ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں اس سیاسی سودے بازی میں حکومت چلی جاتی ہے تو کیا ہو گا؟ کیا پیپلز پارٹی وفاق میں حکومت بنا لے گی یا پھر اسفندر یا ر ولی خیبر پختونخوا میں؟ مشکل کا سودا ہے اس لیے پاکستان کی سیاست میں جانے پہچانے سوداگر کو یہ کیسے قبول ہو گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم یہ حکومت دو سال اور چلے۔ اور پھر اس کا سیاسی دکھڑا ساری قوم کو سنایا جائے۔

پھر تو کوئی امکان ہے لیکن ابھی کوئی امکان نہیں۔ اس لیے دو بڑے سیاسی ماہرین کو یہ بالکل گورا نہیں۔ تو انھوں نے بھی اپنا وزن حکومت کے پلڑے میں رکھ کر حکومت کی سودا بازی کی صلاحیت کو بڑھا دیا ہے۔ اب ترازو کا کانٹا بالکل درمیان میں موجود ہے خریدنے والے بضد ہے کہ لے کر جائیں گے اور بیچنے والا اپنی دکان کا دروازہ کھولنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ قبضہ والی کہانی ابھی نظر نہیں آ رہی ہے۔ اب حوصلے کی بات ہے کہ کون کتنا صبر دکھاتا ہے اور انتظار کرتا ہے کہ کانٹا دوسری طرف جھک جائے۔ ایسے میں سیلاب میں آئیں گے اور قتل بھی ہوں گے، لیکن کوئی بھی منہ سے نہ سودے کا بولے گا اور نہ ہی سودا گر کا۔ سو ہم نے بھی کتاب کھولی اور سودا پڑھنے لگے۔۔ وہ کیا کہا ہے مرزا رفیع سوداؔ نے

جی مرا مجھ سے یہ کہتا ہے کہ ٹل جاؤں گا
ہاتھ سے دل کے تیرے اب میں نکل جاؤں گا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔