حفاظتی انتظامات ایک بار پھر سیلاب میں بہہ گئے

رانا نسیم  بدھ 10 ستمبر 2014
آبی اژدھا پنجاب کو روندتا ہوا سندھ کے دروازے تک آن پہنچا۔ فوٹو: ایکسپریس

آبی اژدھا پنجاب کو روندتا ہوا سندھ کے دروازے تک آن پہنچا۔ فوٹو: ایکسپریس

لاہور: بارش وہ رحمت ہے، جسے دعائیں مانگ مانگ کر حاصل کیا جاتا ہے، لیکن پاکستانی وہ بدقسمت قوم ہے، جس کے لئے یہ رحمت اکثر معمول سے زیادہ بارشیں ہونے کی صورت میں بدترین زحمت کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔

بارہا سیلاب سے تباہی کا تجربہ ہونے کے باوجود ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں، جہاں 50 برس پہلے تھے۔ اس بار بھی بارش کا یہ پانی آسمان سے ٹپک کر جب پاکستان کی دھرتی پر بہا، تو اس وقت یہ اکیلا نہیں بلکہ اس میں ہمارے بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے خواب بھی بہہ گئے، یہ پانی اپنے ساتھ لوگوں کو بھی بہائے لے جا رہا ہے اور ہم بے بسی کی تصویر بنے اپنی آنکھوں سے خود کو تباہ ہوتے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ بلاشبہ قدرتی آفت انسان کی آزمائش ہوتی ہے، لیکن جب اس آفت میں انسانی کوتاہی بھی شامل ہو جائے تو یہ اسے بد سے بدتر بنا دیتی ہے۔

وطن عزیز آج ایک بار پھر سیلاب جیسی قدرتی آفت کا شکار ہو چکا ہے، جس کے باعث پورا ملک ایک ہنگامی صورت حال سے دوچار ہے۔ مزید ڈیم نہ بنانے، دریاؤں کی مناسب صفائی نہ ہونے اور پاٹ چوڑے نہ ہونے کی انسانی غلطی کا ایک بار پھر لاکھوں افراد خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

ہمارے حکمران سیلاب جیسی آفتوں پر ’’آخری متاثرہ شخص کی بحالی تک چین سے نہ بیٹھنے‘‘ کا راگ تو الاپتے ہیں، لیکن اس آفت کو روکنے یا کم ازکم محدود کرنے کا ساماں کبھی نہیں کرتے۔ یوں پہلے کئی سالوں کے وقفے کے بعد آنے والا سیلاب اب 2010ء سے ہر سال آکر سینکڑوں افراد کی زندگیوں کے چراغ گل اور لاکھوں کو تڑپتا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ جس شہری کا گھر، دکان، پکی فصلیں اور مویشی بہہ گئے، اس کی زندگی کی تلخی کا اندازہ لگانا ہمارے بس کی بات نہیں۔

پاکستان میں جاری سیلاب کسی بے لگام گھوڑے کی طرح پنجاب کو روندتا ہوا سندھ کی طرف سے گامزن ہے۔ مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق بارشوں اور سیلاب کے باعث اب تک تقریباً 4 سو افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ کئی سو افراد شدید زخمی ہیں۔ تاہم نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے جاری ہونے والی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اب تک 156 افراد پنجاب، 64 آزاد کشمیر جبکہ 11 افراد گلگت بلتستان میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد بالترتیب 287، 109، 5 بتائی گئی ہے۔

سیلاب کی وجہ سے پنجاب میں متاثر ہونے والے گھروں کی تعداد 1678، آزاد کشمیر میں 6 ہزار جبکہ گلگت بلتستان میں 2 ہے۔ اسی طرح پنجاب میں 1337 جبکہ آزاد کشمیر میں 120 دیہات سیلاب میں بہہ چکے ہیں، پنجاب میں سیلاب نے 4 لاکھ 35 ہزار ایکڑ جبکہ آزاد کشمیر میں 2 ہزار 50 ایکڑ زرعی اراضی کو نقصان پہنچایا، یوں پنجاب میں اب تک ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد جبکہ آزاد کشمیر میں تقریباً 30 ہزار افراد سیلاب سے متاثر ہوئے۔ اور ایک رپورٹ کے مطابق سیلاب کے باعث اب تک ملک کو مجموعی طور پر ہونے والے نقصان کا اندازہ 4 کھرب روپے سے زائد لگایا جا رہا ہے۔

سیلابی ریلہ وسطی پنجاب سے جنوبی کی طرف گامزن ہے، جس کے باعث جھنگ اور ملتان کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ جھنگ کے نشیبی علاقوں کو خالی کروا لیا گیا ہے اور سیلابی ریلہ (تادم تحریر) تریموں ہیڈ سے گزر رہا ہے، جس میں بتدریج پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ تریموں ہیڈ کے بعد اس ریلے کا اگلا پڑاؤ رحیم یار خان گدوبیراج پر ہوگا، جہاں سے یہ سندھ میں داخل ہو جائے گا۔ قبل ازیں نالہ ڈیک میں شگاف پڑنے کے نتیجہ میں پانی کالا شاہ کاکو، واہنڈو ، بچیکی سمیت متعدد دیہات میں داخل ہو گیا۔

سیلابی پانی نے کالاشاہ کاکو سے ملحقہ دیہات موضع ڈیری، موضع جیر، راناٹاؤن، کوٹ پنڈی داس، کچے کوٹھے، ضیا آباد، برہمن والا اورٹھٹھہ موہاڑی وغیرہ میں درجنوں مکانات اور سینکڑوں ایکڑ فصلیں تباہ کرنے کے بعد جی ٹی روڈ پر واقع متعدد فیکٹریوں میں بدترین تباہی مچادی ہے جبکہ سرکاری سطح سے امدادی کارروائیاں شروع نہ ہوسکنے پر لوگوں کی بڑی تعداد پانی میں پھنس گئی، چوہنگ میں سیلاب داخل ہونے سے ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی زیر آب آگئی اور سینکڑوں مکانات گرگئے۔

ساہیوال میں دریائے راوی میں سیلابی ریلا گاؤں داد بلوچ صفحہ ہستی سے مٹ گیا‘ گاؤں کے ڈیڑھ سو سے زائد مکانات مسمار ہوگئے۔ بلوکی کے مقام پر دریائے راوی میں اونچے درجے جبکہ جسٹر اور شاہدرہ کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔ کمالیہ میں دریائے راوی سے سوموار کو 73 ہزار کیوسک اور منگل کو تقریباً 77 ہزار کیوسک کا ریلا گزرا، جس کے باعث دریا کنارے آباد لوگوں نے مکانات خالی کردیئے ہیں۔

اوکاڑہ میں دریائے راوی نے تباہی مچا دی درجنوں دیہات زیرآب آگئے ہیں، چنیوٹ میں دریائے چناب سے 8 لاکھ 28 ہزار کیوسک پانی کا ریلہ گزرنے کے نتیجہ میں ایک سو سے زائد دیہات و آبادیاں مکمل طور پر زیر آب آ چکی ہیں۔ سیلاب چنیوٹ سرگودھا روڈ احمد نگر اور جھنگ روڈ (ملتان، کراچی ) روڈ پر بخاریاں اور جامعہ آباد کے قریب سڑک پر بہہ رہا ہے، لاہور روڈ پر ہرسہ شیخ کے مقام پر آبادی میں پانی داخل ہو نے سے بچانے کیلئے بڑے بند کے ساتھ حفاظتی ( نالہ بند ) کو توڑ دیا گیا ہے اور پانی بڑے بند کے ساتھ ٹکرا رہا ہے۔

ملتان میں دریائے چناب کاپانی کٹاؤ کرتا ہوا محمد پور گھوٹہ، بستی لنگڑیال اور موضع ببلی کے باغات اورفصلوں میں داخل ہوچکا ہے۔ دریائے چناب میں آنے والے سیلابی ریلے نے حافظ آباد، جلالپور بھٹیاں اور پنڈی بھٹیاں کے 200 سے زائد دیہات میں تباہی مچا کر رکھ دی ہے، جس کے باعث متاثرہ علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ دوسری طرف قادر آباد بیراج کے مقام پر پانی کی سطح بتدریج کم ہو رہی ہے۔

سرگودھا اور ضلع خوشاب کے مختلف علاقوں میں سیلاب سے سینکڑوں دیہات زیر آب آگئے، موضع بدین میں دریائے چناب کا بند ٹوٹنے کے باعث کئی دیہات زیر آب آگئے، جس سے سیال موڑ اور مڈھ رانجھا کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا۔ پنجاب میں جاری سیلاب کی وجہ سے سب سے زیادہ جانی نقصان گوجرانوالہ ریجن میں ہوا۔

سیلاب نے گوجرانوالہ ریجن میں تباہی مچا دی، ہزاروں  بستیاں اجڑ گئیں، فصلیں برباد ہوگئیں، مختلف رپورٹس کے مطابق سو سے زائد افراد ( نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق 53افراد) لقمہ اجل بن گئے، نارووال، سیالکوٹ، وزیرآباد، حافظ آباد، پنڈی بھٹیاں ،ظفر وال میں دریا، نالے بپھر گئے، دریائے چناب میں ہیڈ مرالہ کے مقام پر 9 لاکھ کیوسک سے زائد پانی گزر ا جس سے پچھلے بیس سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا، ہیڈ خانکی کا حفاظتی بند توڑنا پڑا، جس سے اربوں روپے کے معاشی نقصان کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ سیلابی پانی وزیر آباد،سیالکوٹ،جلالپور بھٹیاں میں داخل ہوچکا ہے، جس کے باعث یہاں کئی کئی فٹ تک پانی کھڑا ہونے سے نظام زندگی معطل ہو چکا ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلی میاں شہباز شریف پاکستانی تاریخ کے ایک اور بدترین سیلاب کے پیش نظر حسب معمول ملک اور خصوصاً پنجاب کے طوفانی دوروں میں مصروف ہیں۔ وزیرِ اعظم نے پوری ریاستی مشینری کو موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے متاثرین کے لئے خیمے، ادویات، خوراک اور محفوظ مقامات پر منتقلی کے انتظامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سیلاب کی تباہ کاریوں پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔

ادھر وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف نے مرنے والے افراد کے لئے 5 لاکھ فی کس اور زخمیوں کے لئے 1 لاکھ فی کس دینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ موجودہ سیلاب علاقے کی تاریخ کا بدترین اور ہولناک سیلاب ہے، سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھ کر دل دکھی ہے، سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی بحالی تک وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے اور حکومت پنجاب کے تمام تر وسائل مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی مدد کیلئے حاضر ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ اور وزیر اعظم کا افسوس بجا مگر حکومتی سطح پر ایسے نتیجہ خیز اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کی اشد ضرورت ہے کہ جن کے بعد آئندہ سیلاب اور نتیجتاً پھیلنے والی تباہی سے بچا جا سکے۔ جس طرح قومی اسمبلی میں سیاسی لیڈر جمہوریت کے نام پر یکجان ہو گئے ہیں، اسی طرح انہیں ڈیموں کی تعمیر کے سلسلے میں بھی اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ مستقبل میں سیلاب جیسی قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل کی جا سکے۔ عوام کب تک حکمرانوں کے ایسے بلند و بانگ دعوؤں پر گزارا کریں گے کہ ’’ہم آخری متاثرہ شخص کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہمارے حکمران کسی قدرتی آفت آنے پر ایسے بیانات تو داغ دیتے ہیں لیکن انسانی استعداد کے مطابق ان کی روک تھام کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر ایک بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، لیکن اس کی جانب کوئی توجہ دینے کے لئے تیار نہیں کیوں کہ معذرت کے ساتھ انہیں ملک سے زیادہ اپنی سیاست عزیز ہے، جس کی واضح مثال کالاباغ ڈیم کا نہ بننا بھی ہے۔ خدارا! آج مادر وطن کو سیاست نہیں اخلاص کی ضرورت ہے، جس کی آس پاکستان اور 18 کروڑ پاکستانی لگائے بیٹھے ہیں۔

پاکستان میں آنے والے بدترین سیلاب

پانی کے وسائل کو سنبھالنے میں انسانی کوتاہی کے باعث وطن عزیز میں سیلاب جیسی آفت کا آنا کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان اور اس کے باسیوں کو متعدد بار سیلاب کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں ہزاروں افراد مارے گئے اور کھربوں روپے کا نقصان ہوا۔ پاکستان میں آنے والے چند بدترین سیلابوں کی چیدہ چیدہ تفصیل کچھ یوں ہے۔

2003ء: دو ہزارتین میں آنے والے سیلاب کا سب سے زیادہ شکار صوبہ سندھ بنا۔ مون سون بارشوں کی زیادتی کے باعث دریاؤں کے پاٹ پانی کا بوجھ برداشت نہ کر سکے۔ مون سون کے مذکورہ سیزن کے دوران کراچی میں 284.5 ملی میٹر جبکہ ضلع ٹھٹہ 404 ملی میٹر بارش ہوئی، جس نے پھر سیلاب کی صورت میں ہر طرف تباہی مچا دی۔ اس سیلاب میں کم از کم 484 افراد جاں بحق، 4 ہزار476 دیہات متاثر ہوئے۔

2007ء: خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں مون سون بارشوں نے تباہی مچا دی۔ جولائی 2007ء میں گلیشیئر پگھلنے اور بارشوں کی زیادتی کے باعث خیبر پختونخوا میں 130 افراد جاں بحق، 2 ہزار لاپتہ جبکہ اگست میں 22مزید افراد جاں بحق ہو گئے۔ بلوچستان اور سندھ میں سیلاب کی وجہ سے مجموعی طور پر 815 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

2010ء: مذکورہ سال سیلاب نے ملک کے تقریباً تمام علاقوں کو متاثر کیا۔ سیلاب میں جتنے پاکستانی متاثر ہوئے وہ 2004ء کے بحرِ ہند کے سونامی،2005ء میں کشمیر اور 2010ء میں ہیٹی کے زلزلہ کے مجموعی متاثرین سے بھی زیادہ تھے۔ سیلاب نے 2 ہزار افراد کی جان لے لی جبکہ 2 کروڑ افراد متاثر ہوئے۔

2011ء: ستمبر 2011ء کے سیلاب میں 4 سو کے قریب پاکستانی جاں بحق، 53 لاکھ افراد جبکہ 12 لاکھ گھر متاثر ہوئے۔

2012ء: ستمبر 2012ء میں آنے والے سیلاب میں ایک سو افراد جاں بحق، ہزاروں گھر تباہ جبکہ ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی متاثر ہوئی۔ سیلاب کی وجہ ایک بار پھر بہت زیادہ بارشوں کو قرار دیا گیا۔

2013ء: گزشتہ برس اگست میں آنے والے سیلاب نے 80 سے زائد پاکستانیوں کی زندگی چھین لی۔

سیلابی ریلہ رواں، کیا سندھ حکومت تیار ہے؟

9 سے10 لاکھ کیوسک کا سیلابی پانی کسی اژدھے کی طرح پنجاب کے دیگر اضلاع کو اپنی لپٹ میں لینے کے بعد رحیم یار خان کی طرف بڑھ رہا ہے‘ جو آج یا پھر کل وہاں پہنچ جائے گا۔ فلڈ مانیٹرنگ کنٹرول سنٹر کے مطابق نو لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا 10 (آج) سے 11 ستمبر کے درمیان پنجند ہیڈ ورکس پر پہنچے گا، 1973ء کے بعد پنجند ہیڈ ورکس سے اتنی مقدار میں پانی کا اخراج اس بار ہو گا‘ جس سے دریائے سندھ میں چاچڑاں کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہو گا، جس کے باعث دریائے سندھ کے بیٹ کے اندر واقع درجنوں بستیوں کے باسیوںکو فوری طور پر رہائش گاہیں خالی کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔

محکمہ انہار کے ذرائع کے مطابق پنجند ہیڈ ورکس سے پانی گزرنے کی زیادہ سے زیادہ کپیسٹی 7 لاکھ کیوسک ہے اور 1973ء کے سیلاب کے بعد پنجند ہیڈ ورکس پر ایسی صورتحال دوبارہ پیدا ہو رہی ہے۔ رحیم یار خان سے یہ سیلاب سندھ میں داخل ہوگا، جس کے لئے صوبائی حکومت کا دعوی ہے کہ وہ انتظامات کر رہے ہیں۔ سندھ میں گدو اور سکھر بیراج کے مقام پر اونچے درجے کے سیلاب کا امکان ہے، جہاں سے محکمہ آبپاشی کے مطابق سات لاکھ کیوسک سے زائد پانی کا گزر ہوسکتا ہے۔

سندھ میں آفات سے نمٹنے کے لئے بنائے گئے محکمہ نے ایک تحریری الرٹ جاری کیا ہے جس میں 17 اضلاع کی انتظامیہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ دریائے سندھ کے کچے سے لوگوں کے انخلا کی پیشگی منصوبہ بندی کرلیں۔ بحریہ، فضائیہ اور بری فوج کو الرٹ رہنے کی درخواست کی گئی ہے تاکہ بوقت ضرورت لوگوں کے انخلا میں ان کی مدد حاصل کی جاسکے۔ سندھ ایریگیشن اینڈ ڈرینیج اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ 10 ستمبر(آج) سے 15 ستمبر تک اونچے درجہ کا سیلاب رہے گا۔ امکان تو سات لاکھ کیوسک سے زائد پانی کی آمد کا ہے لیکن تیاری سپر فلڈ کی ہے۔

دریائے سندھ کے بائیں اور دائیں جانب حفاظتی بندوں پر 45 مقامات کو غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے، جہاں پتھروں کی پچنگ سے حفاظتی بندوں کو مضبوط کرنے اور 24 گھنٹے گشت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایم ڈی سیڈا زاہد جونیجو کا کہنا ہے کہ یہ وہ مقامات ہیں جہاں پہلے بھی شگاف پڑ چکے ہیں ، جہاں دریا ڈائریکٹ حفاظتی بند کو ہٹ کرتا ہو، کوئی بند کمزور ہو یا وہاں سے کوئی کراسنگ ہو۔ محکمہ آبپاشی کے مطابق سکھر اور گدو بیراج کے درمیان پانی کا دباؤ رہے گا، اس کے درمیان میں ٹوڑھی اور قادر پور حفاظتی بند زیادہ حساس ہیں۔

یاد رہے کہ سنہ 2010 میں ٹوڑھی بند کو شگاف پڑنے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔گدو بیراج سے پانی کے انخلا کی گنجائش بارہ لاکھ کیوسک ہے جبکہ دو ہزار دس کے سیلاب میں یہاں سے ساڑھے گیارہ لاکھ کیوسک پانی کا گزر ہوا تھا اسی طرح سکھر بیراج سے انخلا کی گنجائش نو لاکھ کیوسک ہے اور سپر فلڈ میں یہاں سے ساڑھے گیارہ لاکھ کیوسک پانی کا گزر ہوا تھا۔ بری خبر یہ ہے کہ سندھ میں محکمہ موسمیات کے مطابق اگلے ہفتے بارشوں کا بھی امکان موجود ہے۔ دوسری طرف بلوچستان حکومت نے بھی آئندہ چند روز میں سیلاب کے خدشے کے پیش نظر صوبے بھر میں ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔