- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی میچ بارش کے باعث تاخیر کا شکار
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت، سابق ایس پی کلفٹن براہ راست ملوث ہونے کا انکشاف
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
- خیبر پختونخوا میں بیوٹی پارلرز اور شادی ہالوں پر فکسڈ ٹیکس لگانے کا فیصلہ
- سعودی عرب میں قرآنی آیات کی بے حرمتی کرنے والا ملعون گرفتار
- سائنس دان سونے کی ایک ایٹم موٹی تہہ ’گولڈین‘ بنانے میں کامیاب
- آسٹریلیا کے سب سے بڑے کدو میں بیٹھ کر شہری کا دریا کا سفر
- انسانی خون کے پیاسے بیکٹیریا
- ڈی آئی خان میں دہشتگردوں کی فائرنگ سے بچی سمیت 4 کسٹم اہلکار جاں بحق
- سینیٹر مشاہد حسین نے افریقا کے حوالے سے پاکستان کے پہلے تھنک ٹینک کا افتتاح کردیا
- گوگل نے اسرائیل کیخلاف احتجاج کرنے والے 28 ملازمین کو برطرف دیا
- آپریشن رجیم میں سعودی عرب کا کوئی کردار نہیں، عمران خان
- ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے، صدر مملکت
- سعودی سرمایہ کاری میں کوئی لاپرواہی قبول نہیں، وزیراعظم
- ایرانی صدر کا دورہِ پاکستان اسرائیل کے پس منظر میں نہ دیکھا جائے، اسحاق ڈار
(پاکستان ایک ںظر میں) - سیلاب تو پچھلے سال بھی آیا تھا!
سیلاب پچھلے سال بھی آیا تھا اور اُس سے پچھلے سال بھی
اورحالات اور تیاریاں دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے کہ اگلے سال بھی آئے گا ۔
جس نریندر مودی کی والدہ کو حکومت نے ساڑھیاں گفٹ کیں
جن سے کاروبار کی خاطر بھاشا ڈیم کو 2037 تک ملتوی کیا
وہ ہرسال ہزاروں کیوسک پانی چھوڑتے ہیں ۔
کسی دور میں اس سیلاب سے بچنے کے لیے بڑے بڑے نالے ہوا کرتے تھے
شلوار میں ڈالنے والے نالے نہیں
وہ نالے جن میں پانی بہتا ہے ۔
لیکن سنا ان پہ قبضہ مافیا نے قبضہ کرکے ختم کردیا
ادھر کالونیاں بن گئیں
سیلاب کے آنے سے کئی دن پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ سیلاب آنے کا خدشہ ہے
پاکستان عوام کے ٹیکیسوں سے چلنے والے بے شمار ادارے بشمول ’’ کرائسس منیجمنٹ ‘‘
ہیں جن کا کام ہی جدید سائنسی آلات سے قدرتی آفات کا آنے سے پہلے ادراک کرنا ۔
لیکن سیلاب آیا تو سوائے فوج کے کوئی ادارہ نظر نہیں آیا
سوائے وزیراعظم کی ہیلی کاپٹر والی ایک تصویر کے
یا لکشمی چوک کے پانی میں واٹر پروف جوتے پہنے قوم کا ایک خادم
جو چھ سال پہلے بھی اسی جگہ کھڑا تھا جس کے بارے میں سینکڑوں اشتہارات
چھپوا کر یہ ثابت کیا گیا تھا کہ یہ ’’ گڈ گورننس ‘‘ کی اعلی مثال ہے ۔
جس خاندان کی پچھلے اکتیس برس سے پنجاب پر حکومت ہے
وہ اتنا نہیں کرسکے کہ لاہور کا سیوریج سسٹم ہی ٹھیک کروالیں
آخر وہ قرضے کہاں ہیں جو ان حکمرانوں نے کے قوم کے روشن مستقبل کیلیے لیے ہیں؟
پوچھوں گا تو لوگ عمران خان کا حمایتی یا ڈاکٹر قادری کا انقلابی قرار دے دیں گے ۔
کچھ عظیم دماغ مشورہ دے رہے ہیں کہ عمران خان اور ڈاکٹر قادری سیلاب زدگان کی مدد کے لیے روانہ ہو جائیں ۔
اگر چہ انکی ٹیمیں گئی بھی ہیں
مگر اگلے سال پھر سیلاب آئے گا اسکا کیا کرو گے ؟
ہندوستان سے بات کرنہیں سکتے حکومت کا باڈر پار کاروبار متاثر ہوگا
ڈیم بنانا نہیں ہے اسکے لیے حوصلہ چاہیئے کیونکہ ڈیم اگلی حکومت کے دور میں مکمل ہوگا تو اخبارات میں اشتہارات کیسے چھپوائیں گے
حکومتی ادارے کہاں ہیں ؟ بیرونی ممالک سے لیے گئے بھاری قرضے کہاں ہیں ؟
یہ عذاب کی نشانیاں ہیں اس قوم نے جو نعمت خداوندی ’’ پاکستان ‘‘ کے ساتھ جو کیا اسکی تو سزا ملے گی ۔ چھ سو خاندان اس ملک کو چوستے رہے مگر عوام کو ہوش نہ آئی ۔
پاکستان کو تو کچھ نہیں ہوگا
لیکن پاکستانی اپنی خیر منائیں
ظالم کے خلاف چپ رہنے والے گونگے شیطان کہلاتے ہیں
جب عذاب آتے ہیں تب تو ’’ اچھے ‘‘ بھی نہیں بچتے ادھر تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے
عمران خان اور ڈاکٹر قادری اس قوم کے لیے آخری حجت تھے کہ ظلم کے نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہو جاو
مگر کسی کو عمران خان سے نفرت ہے تو کسی کو ڈاکٹر قادری کے ’’ مسلک ‘‘ سے اختلاف
قوم اتنی تقسیم ہوچکی ہے کہ ہر کسی نے اپنے ’’ بت ‘‘ بنا رکھے ہیں
جب تک ’’ میری پارٹی میرے صوبے میرا مسلک میرا پیر‘‘ یہی بات نہیں کریے گا میں نہیں مانو گا
نہ مانو نہ کرو
مگر وارننگ آچکی
صفائی تو ہونی ہے
لڑائی تو شروع ہوچکی
ایک وہ جن کے دماغ بند ہو چکے ہیں اور غلامی کے اندھیروں سے نکل کر انکی زندگی عذاب ہو جائے گی
اور دوسرے پاکستان پہ مسلط چھ سو خاندان اور انکے چیلے چانٹے
وقت کا تقاضا ہے
رات کے بعد دن چڑھنا لازمی ہے
روشنی پھیل رہی ہے بڑھ رہی ہے
بس اعلان باقی ہے
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔