سیلاب کو قابو کرنے کی کوشش کریں

نصرت جاوید  جمعرات 11 ستمبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

2010ء کا سیلاب آیا تو وحشت اور تباہی پھیلاتی موجوں کا میں نے سوات سے ٹھٹھہ تک تعاقب کیا۔ کئی ہفتوں تک پھیلے اس سفر کے دوران میں نے اپنا وقت صرف یہ دہائی مچانے میں ضایع نہ کیا کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے لوگ مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے لوگوں کے درمیان موجود نہ تھے۔ ایسا کرتے ہوئے میں نے ہرگز کسی پیشہ ورانہ بددیانتی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ حقیقت تھی بھی یہی کہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ہمارے بیشتر سیاستدان اپنے اپنے حلقوں میں ہمہ وقت موجود رہ کر پانی پر ’’پہرہ‘‘ دے رہے تھے۔ کئی ایک گھنٹوں تک سرکاری حکام کی توجہ حاصل کرنے کی لگن میں جتے رہے۔

انھیں ایسے اسباب کی شدید ضرورت تھی جو پانی میں گھرے لوگوں کو محفوظ مقامات پر لاسکتے۔ وہاں پہنچانے کے بعد فوری ضرورت ان لوگوں کو راشن فراہم کرنا ہوتی ہے اور پھر شب گزاری کے کچھ ایسے انتظامات جن کی بدولت وہ خود کو فراموش کردہ بے سرو سامان مخلوق نہ سمجھیں۔ وسائل ہماری ریاست کے پاس خوفناک حد تک محدود تھے اور اب بھی ہیں۔ افواجِ پاکستان اور مخیر حضرات کی مدد کے بغیر تھوڑی بہت سہولت پہنچانا بھی ممکن نہیں۔ آفتوں کے ان ایام کو میرے کئی ساتھیوں نے مگر اچانک سیلاب زدگان کے درمیان پہنچ کر المناک کہانیاں تخلیق کرنے میں خرچ کردیا۔ مگر جب پانی اُتر گیا تو رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوگیا۔

اپنے ذاتی تجربے سے پہلا سبق میں نے یہ سیکھا کہ سیلاب کبھی ’’اچانک‘‘ نہیں آیا کرتے۔ مون سون اس خطے کا ہزاروں سال سے مقدر ہے۔ یہ تباہی بھی پھیلاتی ہے مگر یہاں کی تاریخی خوش حالی کا اصل سبب بھی یہی ہے جس کے باعث سرسبز ہوئے کھیتوں اور میدانوں نے آریاؤں جیسی وحشی قوم کو یہاں پہنچ کر شاعر بنا دیا تھا۔ دُنیا کی بے ثباتی کے فلسفیانہ خیالات بھی اس تباہی نے متعارف کروائے جو مون سون مختلف وقفوں سے وحشی ہوکر اس خطے میں پھیلا دیا کرتی ہے۔

ساون بھادوں کا ایک طے شدہ پیٹرن ہے جو ایک حوالے سے جوار بھاٹا کی مانند ہے۔ کچھ سال بارشیں معمول سے بہت کم ہوتی ہیں اور پھر کچھ وقفے کے بعد یہی بارشیں کسی سال معمول سے کہیں زیادہ ہوجاتی ہیں۔ انسانی علم نے بے پناہ ترقی کے باوجود مون سون کے اس حیران کن پیٹرن کو طے کرنے کا کوئی ٹھوس طریقہ دریافت نہیں کیا۔ ماحولیات ویسے بھی نسبتاً ایک جدید علم ہے۔ اس نے بھی تمام تر تحقیق کے باوجود دریافت کیا ہے تو بس اتنا کہ موسموں کی بے رحمی سے محفوظ رہنا یقینی بنانا ہو تو فطرت سے زیادہ ’’پنگا‘‘ مت لو۔ جنگلوں کو کاٹ کر اس کی لکڑی کو جلانے، گھر بنانے یا خوب صورت فرنیچر بنانے کے لیے ایک حد سے زیادہ استعمال نہ کرو۔ درختوں سے بھرے جنگل بپھرے ہوئے مون سون کی بارشوں کی مزاحمت کے لیے پہلی لائن آف ڈیفنس کا کام کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں سوات کے جنگلوں کو ٹمبر مافیا نے 1980ء کی دہائی سے بے دریغی سے کاٹنا شروع کردیا تھا۔ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں یہی کہانی اسی دہائی سے کچھ اور انداز میں دہرائی گئی۔ بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ مہاراجہ کشمیر جیسے ظالمانہ حکمران بھی درختوں کی غیر قانونی کٹائی کو قتل سے زیادہ سنگین جرم شمار کیا کرتے تھے۔ پاکستان اور بھارت کو سیاچن گلیشیئر کی چین سے قربت کی بنا پر Strategic اہمیت دریافت ہوئی تو صدیوں سے جمی اس کی برف کو جنگی تنصیبات نے تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا۔ سیاچن کے گلیشیئر کی تباہی کا احساس اور تدارک کی مکمل عدم موجودگی میں 1990ء کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کے دل میں آزادی یا موت کی آگ بھڑک اُٹھی۔

بھارتی حکومت نے آزادی کی اس تڑپ کو وحشیانہ فوجی قوت کے استعمال سے ختم کرنا چاہا۔ لاکھوں کی تعداد میں سپاہ وہاں پہنچیں تو ان کی تعیناتی اورحفاظتی تدابیر کے نام پر قدرتی ماحول کی مکمل تباہی کا آغاز شروع ہوگیا۔ جنگلوں کو یہ سپاہ ’’مداخلت کاروں‘‘ کی محفوظ پناہ گاہیں سمجھ کر اپنا دشمن نمبر 1گردانتے رہے۔ برسوں تک پھیلی اس سیاسی اور جنگی کش مکش کی بدولت بالآخر اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ اس سال معمول سے زیادہ بارشیں ہوئیں تو سرینگر جیسا تاریخی شہر چار سے زیادہ دنوں تک اوسطاً دس فٹ پانی میں ڈوبا رہا۔ سرینگر اور جنوبی کشمیر کے علاقوں میں تباہی پھیلاتا پانی پھر چناب اور جہلم کے پانیوں کے ساتھ مل کر سیالکوٹ سے جھنگ اور وہاں سے اپنی روایتی منزل کی طرف ان دنوں موجزن ہے۔ اس کے سفر کو روکنا ممکن ہی نہیں۔ ہزارہا سال سے پنجاب اور سندھ کے لوگوں کو سکھایا گیا ہے تو صرف اتنا کہ جب دریاؤں کے پانی بپھر جائیں تو انھیں انتہائی عاجزی کے ساتھ راستہ دو۔ نام نہاد ’’کچے‘‘ کے علاقے اسی لیے ہمارے بزرگوں نے جان بوجھ کر کئی صدیوں تک بے آبادرکھے تھے۔

ان کے بعد آنے والی نسلوں نے خرگوشوں کی طرح اپنی آبادی بڑھائی اور خلیجی ممالک میں مزدوری کے بعد چار پیسے بچائے تو اپنے لیے ’’پکا کوٹھا‘‘ بنانے کی ضد میں مبتلا ہوگئے۔ وہ زمین جو بپھرے دریاؤں کے پانی کے بہاؤ کے لیے خالی چھوڑنا ضروری تھی بتدریج ہاؤسنگ کالونیاں بنانے والے قبضہ گروپوں کی نذر ہونا شروع ہوگئی۔ حکومتیں خواہ جمہوری رہیں یا آمرانہ، نہایت سفاکی کے ساتھ ’’عوام میں پھیلتی خوش حالی کے ان مظاہر‘‘ کے بے تحاشہ پھیلاؤ سے بے اعتناء رہیں۔ بات بالآخر ’’پکے کوٹھوں‘‘ کی تعمیر کی ہوس تک ہی محدود نہ رہی۔ کچھ برس پہلے متعارف ہوگئے ’’ فش فارمز‘‘۔ دریاؤں کا ’’پیٹ‘‘ مانے جانے والے رقبوں پر زور اور زر والے ظالموں نے ان فارمز کا جال بچھا دیا۔ وسطی پنجاب سے پانی جب سرائیکی اور سندھی بولنے والے علاقوں میں داخل ہوجاتا ہے تو ہزاروں ایکڑوں والے رقبوں کے جائز اور ناجائز بڑے جاگیرداروں کی ’’ریاستیں‘‘ شروع ہوجاتی ہیں۔ انھوں نے اپنے رقبوں کو طغیانی سے بچانے کے لیے ان کے اِردگرد مٹی کے حصار کھڑے کر رکھے ہیں۔

سیلاب کا پانی ان کے رقبوں کی طرف بڑھتا ہے تو وہ اپنے مزارعوں کو ہتھیاروں اور کرینوں سے لیس کرنے کے بعد اپنے رقبوں کی طرف بڑھنے والے پانی کا بہاؤ’’شریکوں‘‘ کے رقبوں کی طرف کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ریاست ان کے سامنے قطعی بے بس نظر آتی ہے۔ پانی بپھر جائے تو لیکن اس کی شدت سے محض وقتی طورپر محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ہونی کو ٹالنے کی جو چاہے کوشش کرلو وہ ہوکررہتی ہے اور بالآخر غیر فطری انداز میں روکا ہوا پانی کہیں نہ کہیں سے پھوٹ کر اپنے چاروں طرف پھیلی تمام زمینوں کو ہڑپ کرلیتا ہے۔

نقصان میرا یا میرے ’’شریک‘‘ کا نہیں پوری کمیونٹی کا اجتماعی طور پر ہوکر رہتا ہے۔ بپھرے پانی کے فطری بہاؤ کو روکنے کی خود غرض کوششیں مگر اس نقصان کو مزید تکلیف دہ بنا دیتی ہیں۔ میں نے سیلاب کی نام نہاد Big Picture کی صرف چند جھلکیاں پریشان دل کے ساتھ آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مقصد صرف یہ فریاد کرنا ہے کہ سیلاب کو محض ایک آفت یا حادثہ نہ سمجھیں بلکہ اسے مختلف الجہتی اور طویل مدتی Process کے طورپر سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے قابو میں لانے کی اجتماعی جدوجہد کا سنجیدگی سے آغاز کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔