گھر کی لونڈی…جمہوریت

رئیس فاطمہ  جمعرات 11 ستمبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

جان بوجھ کر میں موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں اپنے کالموں میں کوئی بات اس لیے نہیں کر رہی تھی کہ ایک تو میں اپنے قلم کو نشتر بنانے سے نہیں روک سکتی کہ ضمیر کی روشنی مجھے سچ کا راستہ دکھاتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ میرے بیشتر ساتھی اور ہم عصر کالم نویس جو کچھ لکھ رہے ہیں ایک طرح سے وہ سب میرے اور مجھ جیسے لکھنے والوں کی ترجمانی بھی کر رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ سینئر تجزیہ کار جو چند دن پہلے تک عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے دھرنے اور مطالبات کو غلط ثابت کرنے پہ تلے تھے۔ آج انھوں نے بھی اس جعلی جمہوریت کا اصل چہرہ دیکھ لیا جس کا مقصد لٹیرے سیاستدانوں کا تحفظ ہے۔

کیا جمہوریت کسی شخصیت کا نام ہے؟ اگر نہیں تو پھر ارکان اسمبلی اور حکومت کا دفاع بہ انداز قصیدہ کرنے والے صحافی، اینکرز اور وزرا یہ کیوں باور کرا رہے ہیں کہ اگر موجودہ حکمران نہ رہے تو جمہوریت ختم ہوجائے گی۔ یہی راگ سابق صدر زرداری کے لیے بھی گایا گیا تھا۔ گویا جمہوریت صرف دو جماعتوں نہیں بلکہ دو لوگوں کے وجود کی سلامتی سے وابستہ ہے۔ جمہوریت تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دو گروپس کے گھر کی لونڈی ہے۔

وہ جیسا جی چاہیں اس سے سلوک کریں۔ تھپڑ ماریں، جوتے برسائیں، یا اس کے پورے خاندان کو کولہو میں پلوا دیں۔ یہ ان بادشاہوں کا جمہوری حق ہے اور جمہوریت ٹھہری گھر کی باندی جو آقا کے جنبش ابرو کو سمجھتی ہوئی پیروں میں گرجاتی ہے اور اپنے ناکردہ گناہوں کی معافی مانگنے لگتی ہے کیونکہ وہ لونڈی ہے، باندی ہے۔ آقا کی ہر خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار۔ سر دبانے، پیر دبانے سے لے کر ہر خدمت کے لیے چوبیس گھنٹے حاضر۔ یہ ہے وہ جمہوریت جس کے جانے کا ماتم بپا ہے۔ کیونکہ ’’آقائے نامدار‘‘ گئے تو غلاموں کے کئی گروپ بھی ان کے ساتھ رخصت ہوں گے۔

جمہوریت کے ان حاشیہ برداروں کو اپنی فکر ہے۔  کاش حکمران دوست اور دشمن کی پہچان کر پاتے؟ اگر وہ سینیٹ اور اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کرتے۔ خود غرض  وزیروں پہ بھروسہ نہ کرتے۔ اپنے خاندان کے لوگوں اور دوستوں کو اہم عہدے اور وزارتیں دینے کے بجائے وہ کر دکھاتے جس کا وعدہ انھوں نے الیکشن سے پہلے کیا تھا (کم ازکم پانچ فیصد ہی سہی) لیکن نہ لوٹی ہوئی دولت واپس آئی، نہ سرے محل سمیت دیگر یورپی ممالک میں بنے ہوئے محلات کی طرف انھوں نے بھولے سے بھی دیکھنے کی جرأت کی۔ کیونکہ ایسا کرنے کا نتیجہ انھیں بخوبی معلوم تھا۔ وہ جو چلے گئے وہ بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے تھے۔

مدد کو جو وہ مسکراتے پہنچے تو صرف ہرن، تیتر، بٹیر، کباب، بریانی، قورمے اور ملائی بوٹی کھانے تو نہیں پہنچے تھے؟ اتنی بات تو ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ وہ تنبیہہ کرنے گئے تھے کہ استعفیٰ دینے کی غلطی نہ کریں ورنہ آپ اور ہمارے لیے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ کیونکہ آنے اور جانے والی حکومتیں سب کی کمزوریوں، چوریوں اور اخلاقی گراوٹوں کی فائلیں بناکر رکھتی ہیں جو بوقت ضرورت کام آتی ہیں۔ ماشاء اللہ بھٹو صاحب نے اس فن کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بام عروج پہ پہنچایا تھا۔ لہٰذا ایک دوسرے کی فائلیں کھلنے کے امکانات کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ وجود میں آئی اور طے پایا کہ جب ہم کھائیں گے تو تم ہمارے شایان مغلیہ کو شرمانے والے شاہی دستر خوان کی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھو گے۔ اور جب تمہاری باری آئے گی تو ہم اپنی آنکھیں اور کان بند کرلیں گے۔

اب آتی ہوں اصل بات کی طرف کہ میں نے آج یہ موضوع کیوں چنا۔ لیکن اس سے پہلے برملا کہتی ہوں کہ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی۔ یعنی ’’زمیں جنبد‘ نہ جنبد گل محمد‘‘ تو پھر ہیروں کی انگوٹھیاں اور چشمے پہننے والے، سونے کی گھڑیاں کلائیوں پہ باندھنے والے، پلاٹینم کے بٹن قمیضوں میں لگانے والوں کے گریبانوں تک ننگے، بھوکے اور ہر سہولت سے محروم لوگوں کے ہاتھ پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کیونکہ نفرت وہ مہلک ہتھیار ہے۔

جس کے آگے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ اب سنیے! ہفتے کی شام ایک ای میل موصول ہوئی۔ جو ان کالم نگاروں کو بھی بھیجی گئی تھی جو صرف سچ لکھ رہے ہیں اور کسی بھی طرح حکومتی کیمپ کے مراعات یافتہ نہیں ہیں۔ یہ ای میل ایک طرح کی غنڈہ گردی اور دھمکی ہے۔ اس کا جواب دے دیا گیا ہے۔ یہ ای میل کسی [email protected] کی طرف سے بھیجی گئی ہے۔ جس میں لکھنے والوں کو باقاعدہ ’’وارننگ‘‘ دی گئی ہے کہ وہ PTI کو سپورٹ کرنا بند کردیں۔ جلی حروف (Large Font) میں دھمکی ان الفاظ میں دی گئی ہے۔

“FINAL WARNING TO IMRAN KHAN AND PTI SUPPORTERS”

ایسی احمقانہ ای میلز دراصل بزدلی کی نشانی ہیں۔ شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفاداروں کی گیدڑ بھبکیوں سے کوئی ہوش مند انسان ڈرنے والا نہیں۔ کیا لوگ بھول گئے کہ آج بھی خود کو ’’بھٹو کا سپاہی‘‘ کہنے والے 1979 ہی میں بھٹو کی پھانسی کے فوراً بعد پارٹی چھوڑ گئے تھے۔ ایسے موقع پرستوں کی ہر حکومت کو ضرورت ہوتی ہے۔ جو حکومت آئی اس کی بارگاہ میں عہدے کی بھیک مانگنے پہنچ گئے اور سرخرو لوٹے کہ جواب میں غیر مشروط وفاداری اور بینکوں سے اربوں کے قرضے لے کر ہضم کرنے کا کھلا لائسنس بھی۔ آخر کب تک؟ لوگ یہ تماشا دیکھیں گے؟ کب تک بھوکے بچے بادشاہوں کو ایک وقت میں ساٹھ(60) سے زائد اقسام کے کھانے کھاتے دیکھتے اور بلکتے رہیں گے؟خدا کا خوف کریں حکمران! کبھی آپ نے سوچا کہ یہ دن کیوں آیا؟

فرعون کو ایک نجومی نے بتایا تھا کہ ایک نوزائیدہ بچہ تمہارے اقتدار کا خاتمہ کرے گا۔ اس نے ملک میں پیدا ہونے والے تمام نوزائیدہ لڑکوں کو مروا دیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ موسیٰ نے خود فرعون کے محل میں پرورش پائی۔ اسی لیے یہ کہاوت وجود میں آئی کہ ’’ہر فرعون را موسیٰ‘‘ یعنی ہر فرعون کے لیے خدا نے ایک موسیٰ بھی پیدا کیا ہے۔ ورنہ تو فرعون بننے والا خدائی کا دعویٰ بھی کرسکتا ہے۔لیکن خدائی کا دعویٰ کرنے والے نمرود کی خدائی ایک مچھر نے ختم کردی۔ خدا نے سمجھنے والوں کے لیے ہزاروں نشانیاں بتائی ہیں لیکن ہر ہلاکو، چنگیز، فرعون، نمرود، نادرشاہ درانی، سکندر اور تیمور میں سے کسی نے سبق نہ سیکھا۔ آج بھی پورس کے ہاتھیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یہی ہیں جن کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں یہ سوچ سوچ کر کہ ’’جمہوریت کی لاٹری‘‘ جو ان کے نام نکلی ہے۔

اس کا کیا ہوگا؟ گھاگ سیاست دان، سمدھی، داماد، بھائی، بھتیجے، دوست، احباب، سسرالی عزیز، سالے سالیاں، سب دن رات ’’جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو‘‘ کا ورد کر رہے ہیں۔ لیکن بلا ہو تو ٹلے؟ یہ لاکھوں محروم لوگوں کا اتحاد ہے۔ اس لیے بڑھتا ہی جائے گا۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ سول سوسائٹی کے لوگ اس دھرنے میں شریک ہیں۔ انسانی محرومیوں کو خطرناک سیلاب بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تین ماہ کے لیے مستعفی ہوجانے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجائے گا۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں جس طرح پیسہ دل کھول کر حکومت کے حمایتیوں اور ارکان اسمبلی نے اپنی اپنی بقا کے لیے خرچ کیا ہے وہ ہر جگہ مزید پنکچر لگانے والے خرید سکتے ہیں۔ امریکا، کینیڈا یا برطانیہ میں کون لگژری اپارٹمنٹ کا مالک نہیں بننا چاہے گا۔

جب تمام مجمع ایک ہی راگ الاپ رہا ہو تو اس سے اختلاف کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن ذرا یہ تو بتائیے کہ کیا بادشاہت اور جمہوریت ہمارے وطن میں ایک ہی سکے کے دو رخ نہیں ہیں۔ ڈکٹیٹر خود کو ڈکٹیٹر ہی کہتا ہے۔ لیکن جمہوریت کا ماسک چڑھا کر آنے والے بدترین ڈکٹیٹر بن جاتے ہیں، کچھ دنوں بعد وہ ظل الٰہی اور بادشاہ سلامت کہلوانے کے متمنی ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے حاشیہ بردار انھیں باور کراتے ہیں کہ وہ ناقابل تسخیر ہیں۔

اس تماشے میں اب وہ بھی پیش پیش ہیں۔ جو ابھی انڈے سے باہر نہیں نکلے اور جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے لگے کہ جمہوریت ان کے گھر کی لونڈی بھی تو ہے۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان میں زرعی اور صنعتی ترقی ایک فوجی کے دور میں ہوئی۔ میڈیا کو آزادی بھی ایک ڈکٹیٹر کے دور میں ملی۔ اب اگر قوم کسی تیسری قوت کی طرف دیکھ رہی ہے تو اس کے ذمے دار بھی یہی  سیاستدان ہیں۔ مہنگائی بھی عوامی نمایندوں (بزعم خود) کے دور میں بڑھی۔ ڈالر کو بلند ترین سطح پر عوامی حکومت نے ہی پہنچایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔