طلسماتی دنیا

اقبال خورشید  جمعرات 11 ستمبر 2014

تاریکی کا آسیب چنگھاڑ رہا ہے۔ جل نے اجل کا روپ دھار لیا۔ زندگیاں بہ گئیں اور آشیانے ڈھے گئے، زبان چپ ہے اور دل اداس۔ الزامات کی سیاست نے لفظوں کو بے قیمت کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی چوہدریوں کی لڑائی سمع خراشی کا باعث بنی۔ دھرنوں کی دھول میں موضوعات تحلیل ہوئے اور روشنائی تھک گئی۔ ایسے میں، ماسوائے مطالعے کے اورکیا سہارا رہ جاتا ہے۔یاسیت کے اِن لمحوں میں کتابیں اپنی اُور پکارتی ہیں۔ اُن کی مہک قدیم ہے۔ اُن میں محفوظ قصّے حال کے اُن قصّوں سے، جنھوں نے دلوں کو چھید ڈالا، کچھ دُور لے جاتے ہیں۔ ایک تخیلاتی دنیا میں، جو حقیقی دنیا سے زیادہ حسین ہے۔

شیلف میں کتنی ہی ایسی کتابیں ہیں، جنھیں دوبارہ پڑھنے کی خواہش ہمکنے لگی ہے۔ شیلف، جہاں ڈکنز اور اوہنری ہیں، میخائل خولوشوف اور مارکیز ہیں، ’’آگ کا دریا‘‘ اور ’’بہاؤ‘‘ ہیں۔ ہاں، چند کتابیں ابھی تازہ ہیں۔ کچھ روز قبل ہی خریدی ہیں، یا پھر چند روز پہلے موصول ہوئی ہیں۔ سرہانے رکھی کتابوں کا جائزہ لیا، تو نظر کراچی سے نکلنے والے جریدے، اجرا پر ٹھہری۔ اٹھارہواں شمارہ۔ مدیر، احسن سلیم۔ صاحب اسلوب شاعر۔ نثری نظم اُن کا میدان۔ ناظم آباد کے کیفے الحسن میں جب کبھی اُن کے ساتھ نشست ہوتی، تو ’’ادب برائے تبدیلی‘‘ سمیت درجنوں موضوعات زیر بحث آتے۔ چائے پیتے ہوئے منصوبے بنتے۔ کچھ پایۂ تکمیل کو پہنچتے اور کچھ وقت کی رفتار میں گم ہو جاتے، فقط اس لیے کہ انھیں دوبارہ تلاش کیا جائے۔ تسلسل اِس پرچے کا مرکزی حوالہ ہے۔ ہر بار ساڑھے پانچ سو سے زاید صفحات؛ قاری کو خاصا مواد فراہم کیا جاتا ہے۔

اِس بار مترجمین کی فہرست میں اسد محمد خاں اور ڈاکٹر عمرمیمن کے نام جگمگا رہے ہیں۔ شعرا میں انور شعور، صابر ظفر، عارف شفیق، سلیم کوثر، خورشید رضوی جیسے سینئرز کے ساتھ نوجوان شعرا کا کلام بھی شامل۔ افسانوں کی تعداد پندرہ۔ طاہرہ اقبال کے ناول ’’نیلی بار‘‘ کا حصہ سوم۔ اسد محمد خاں کا انٹرویو۔ بانو قدسیہ، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر ممتاز احمد خان، ڈاکٹر رشید امجد جیسے لکھاریوں کے مضامین دست یاب۔ محترمہ رئیس فاطمہ نے اپنے مضمون میں ادب میں گروہ بندی اور عصبیت کے مسئلے پر قلم اٹھایا ہے۔ معروف افسانہ نگار، محمد امین الدین کا ’’احتسابیہ‘‘ پرچے کا اہم ترین مضمون۔ یہ اجرا کے گزشتہ سترہ شماروں میں شایع ہونے والے 229 افسانوں کا تجزیہ ہے۔ بڑے حوصلے کا کام کیا ہے۔ ’’جمہوری طرز احساس اور شکر گزاری کے جذبات‘‘ کے زیر عنوان شایع ہونے والا اداریہ موجودہ ادب کے مرکزی دھارے کی نشان دہی کرتا ہے۔ یقینی طور پر یہ پرچہ ایک قابل قدر کوشش ہے۔

سرہانے ایک کتاب ’’ہم عصر اردو افسانہ‘‘ بھی دھری ہے۔ اردو افسانے کی عمر سو برس سے اوپر ہو چکی۔ کئی نشیب و فراز اس نے دیکھے۔ اب تک اِسے پختہ ہو جانا چاہیے تھا، مگر کچھ احباب کا اصرار ہے کہ یہ آج بھی انتہائی نحیف ہے۔ کیا پتہ، کب گزر جائے۔ البتہ اِس کتاب کے مرتبین ایسا نہیں سوچتے، جب ہی تو انھوں نے عصر حاضر کے 50 افسانوں کو اکٹھا کرنے کا جوکھم اٹھایا۔ چلیں، کتاب میں شامل افسانہ نگاروں کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسد محمد خاں، جیلانی بانو، نیر مسعود، حسن منظر، خالد فتح محمد، زاہدہ حنا، علی حیدر ملک، اسرار گاندھی، اخلاق احمد، آغا گل، محمد امین الدین، محمد حمید شاہد، عاصم بٹ؛ بھئی فہرست یہ طویل ہے۔

الغرض یہ کتاب قاری کے وقت کا بہترین مصرف ہے۔ یہ کاوش ہے، اے خیام اور زاہد رشید کی۔ اے خیام، جدید فکر کے حامل ایک پختہ افسانہ نگار اور سنجیدہ نقاد ہیں۔ مطالعے کے شایق۔ بین الاقوامی ادب پر گہری نظر۔ زاہد رشید تدریس سے متعلق۔ اِس انتخاب میں محنت بھی کی گئی ہے، اور ایمان داری بھی برتی گئی ہے۔ ظفر اکیڈمی سے شایع ہونے والی یہ کتاب اشاعت کے معیار پر پوری اترتی ہے۔

ذرا اِدھر تو دیکھیں، یہ شیلف کے کونے میں ایک کتاب کیسی دمک رہی ہے۔ اپنے ہونے کا احساس دلا رہی ہے شاید۔ یہ کراچی سے نکلنے والا جریدہ، کولاژ ہے۔ مدیران؛ اقبال نظر، شاہدہ تبسم۔ شاہدہ صاحبہ جتنی اچھی شاعرہ، اتنی اچھی نثرنگار۔ اقبال نظر سینئر افسانہ نگار۔ عمدہ نثر لکھتے ہیں۔ تو صاحبو، ایک سمت ادب کی بدحالی کا گریہ اور دوسری طرف کولاژ جیسا ادبی جریدہ۔ یہ تیسراشمارہ ہے۔ جمالیاتی نقطۂ نگاہ سے منفرد۔ اور کیوں نہ ہو، معروف مجسمہ ساز، انجم ایاز اس کی تزئین و آرائش کے ذمے دار۔ سرورق، کاغذ اور چھپائی معیاری۔ قیمت مناسب۔ ایک صفحے پر مشتمل اداریہ دراصل گلزار صاحب کو تحریر کردہ اقبال نظر کا خط ہے۔

29 مضامین اور مضمون نگار کون ہیں؟ ڈاکٹر منظور احمد، انور سدید، ڈاکٹر ممتاز احمد، ناصر عباس نیر، رشید بٹ۔ غزلوں اور نظموں کا حصہ متوازن۔ افسانوی حصہ صحت مند۔ مستنصر حسین تارڑ کا افسانہ ’’گونگے کی ڈائری‘‘ انفرادیت کا حامل۔ ستیہ پال آنند کا گوشہ۔ ایک ٹکڑا فن اور فن کار کے لیے مختص، اور ایک آرٹ کے لیے۔ کولاژ خوب صورت تو ہے ہی، مگر جو مواد فراہم کر رہا ہے، وہ بھی معیاری ہے۔ ارے، دو کتابیں اور ہیں۔ گجرات سے آئی ہیں۔ کیسے مسکرا رہی ہیں۔ ادب ہے تو گھاٹے کا سودا، پر کچھ دیوانے ایسے بھی ہیں جنھیں ذرا پروا نہیں، سرجھکائے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ ایم خالد فیاض بھی ان ہی میں سے ایک۔ یہ صاحب تدریس کے پیشے سے جڑے ہیں۔ ادب ان کا اوڑھنا بچھونا۔ ’’تناظر‘‘ کے نام سے ایک ادبی جریدہ نکالتے ہیں۔ چند روز قبل تازہ شمارہ موصول ہوا۔ معیاری پرچہ ہے۔

فقط ادبی نہیں، سماجی موضوعات کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ سماجی علوم کے لیے الگ حصہ مختص۔ بین الاقوامی ادب کے تراجم کو خاص جگہ دی گئی ہے۔ اِس بار نوبیل انعام یافتہ، ایلس منرو کا تذکرہ ہے۔ نجم الدین احمد نے ان کی ایک کہانی کو اردو روپ دیا ہے۔ میلان کنڈیرا اور اردو ادیبوں میں خالد فتح محمد کا کا گوشہ شامل۔ نثری اور شعری حصے جاندار۔ تناظر میں ایک سلسلہ ’’آپ کے خیال میں‘‘ کے زیرعنوان شامل ہوتا ہے جس میں ادارے کی جانب سے اٹھائے سوال پر قلمکاروں کی آرا شایع کی جاتی ہیں، گزشتہ بار عالم گیریت سے جنم لینے والی یکسانیت موضوع تھا۔ اِس بار سوال ہے: کیا ہم اردو تنقید میں اپنا وژن استعمال کر رہے ہیں؟ اِسے سوشیو لٹریری فورم، گجرات نے شایع کیا ہے۔ایم خالد فیاض کی دوسری کاوش معروف افریقی ادیب، چینوا اچیبے سے متعلق مرتب کردہ کتاب ہے، جو اُن کے ادب، فکر اور فن پر بھرپور روشنی ڈالتی ہے۔

چینوا سے متعلق اردو میں دستیاب اہم مضامین کو یک جا کر دیا گیا ہے۔ انتظار حسین، مسعود اشعر، اجمل کمال اور آصف فرخی جیسے لکھاریوں کے مضامین مل جائیں گے۔ چینوا کے معروف ناول Things Fall Apart  کا کچھ برس ہوئے فاروق حسن نے ’’بکھرتی دنیا‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا تھا۔ اس کے گیارہ ابواب کے علاوہ چار کہانیوں کا ترجمہ بھی شامل، جو نجم الدین احمد کی کاوش ہیں۔ کتاب بک ٹائم، کراچی کے تحت شایع کی گئی ہے۔ تو صاحبو، دل اداس ہے، الزامات کی سیاست نے لفظوں کو بے قیمت کر دیا پر کتابیں تو میسر ہیں ناں جو تخیلاتی دنیا میں لے جاتی ہیں جو حقیقی دنیا سے زیادہ حسین اور طلسماتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔