قیامت کے بعد

عابدہ علی  جمعرات 11 ستمبر 2014

21 ویں صدی میں انسان نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کی ہے اور پوری دنیا میں ہر روز نت نئی ایجادات متعارف اور مستفید ہو رہی ہیں۔ ایسے میں کام کی جگہ پر چھوٹے اور بڑے کام کی جگہ پر حادثات کا رونما ہونا صنعتی دور کا ایک انسانی المیہ ہے جس کا شکار بلا تخصیص ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے محنت کش ہوتے ہیں۔

ILO کے ایک جائزے کے مطابق ہر 15 سیکنڈ میں ایک مزدور کام کی جگہوں پر ہلاک ہو جاتا ہے اور اسی دورانیے میں 160 مزدور کسی حادثے کا شکار ہوتے ہیں، مگر ترقی پذیر ممالک بالخصوص پاکستان جیسے ممالک میں ان حادثات کی شرح اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی شدت کہیں زیادہ ہے جس کی بڑی وجوہات 90 فیصد کارخانوں میں مزدور قوانین پر عمل درآمد کا نہ ہونا۔ صحت و سلامتی کی سہولیات کی عدم دستیابی اور محنت کشوں کی اس ضمن میں تربیت کا فقدان ہے۔

شہریوں کے جان، مال اور املاک کا تحفظ براہ راست ریاست کی ذمے داری ہے اور کسی بھی معاشرے میں امن، ترقی اور خوش حالی نظم و ضبط اور قانون کی پاسداری میں مضمر ہے۔ کام کی جگہوں پر صحت و سلامتی کا تعلق کارکنوں، ان کے زیر کفالت افراد آجر، گاہک کی حفاظت صحت اور بہبود سے ہے جس کی ضامن ریاست ہے حکومت پاکستان نے ILO کے کئی کنونشنز کی توثیق کی ہے مگر ان پر عمل ندارد ہے جس میں صحت و سلامتی سے متعلق صرف کنونشن 2 شامل ہیں اور ان کا اطلاق صرف 10% کارکنوں پر ہوتا ہے۔

18 ویں ترمیم سے پہلے بین الاقوامی ادارے ILO کے وضع کردہ قوانین پر عملدرآمد وفاقی حکومت کی ذمے داری تھی مگر اس ترمیم کے بعد صوبائی حکومت اس کے نفاذ کی ضامن ہے کہ وہ اس حوالے سے مجوزہ قوانین بنائے اور عملدرآمد کے طریقہ کار وضع کرے۔

صحت و سلامتی کے حوالے سے پاکستان میں جو بنیادی قانون رائج ہے وہ  فیکٹریز ایکٹ 1934ء کا باب سوئم ہے اور اسی کی روشنی میں صحت و سلامتی کے اقدامات وضع کیے جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں The hazardeous occupation rule  1963 کا قانون اہم ہے۔

اس کے علاوہ

1۔Dock Labourers Act 1934

2۔Workmen Compensation Act 1923

3۔Mines Act 1923

4۔Provincial Employess Social Security Ordinance 1965

5۔West Pakistan Shops & establishment Ordinance 1969

6۔Boiler & Pressure Vessels Ordinance 2002

7۔Employment of children Act 1991

8۔Pakistan Nuclear Safty & Radiation Protection Ordinance 1984

9۔Hazardeous Substance Rule 2003 شامل ہیں۔

مگر ان تمام قوانین کی موجودگی میں صورتحال کہیں زیادہ سنگین ہے کیونکہ محنت کش ایک منظم تحریک کی عدم موجودگی میں اپنے حقوق سے محروم ہیں۔

جس کی بڑی مثال دو سال قبل علی انٹرپرائز میں ہونے والا دلخراش اور المناک سانحہ تھا۔ کراچی شہر نے گزشتہ کئی دہائیوں سے قتل غارتگری اور انسانی جانوں کے ضیاع کے ان گنت واقعات دیکھے مگر 11 ستمبر 2012 نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کی صنعتی تاریخ کی شام غریباں سے کم نہ تھا۔ اس فیکٹری میں لگنے والی آگ میں250 سے زیادہ محنت کش جاں بحق اور 47 زخمی ہوئے۔ ان دلخراش مناظر کو ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھے ناظرین نے براہ راست دیکھا۔ اس انسانی المیے نے کبھی نہ بھلائی جانے والی ایسی داستان رقم کی جو ریاستی اداروں کی نااہلی فیکٹری مالکان کی سفاکی اور پاکستان میں عام مزدور کی حالتِ زار کا پردہ چاک کرتی ہے۔

اس فیکٹری میں 1500 سے 2000 کے قریب محنت کش برسر روزگار تھے جن میں سے صرف 250 (EOBI) اور SESSI کے پاس رجسٹرڈ تھے نہ تو ان کے پاس تقرر نامہ تھا اور نہ ہی WWF, Insurance, Medical  جیسی سہولیات میسر تھیں۔ یہ صورت حال کم و بیش تمام فیکٹریوں میں ایک جیسی ہے۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا اس لیے حادثے کے وقت کتنے مزدور کام کر رہے تھے اس کی صحیح تعداد وثوق کے ساتھ نہیں بتائی جا سکتی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علی انٹرپرائز میں مزدوروں کی کوئی یونین نہیں تھی۔

فیکٹری کا نقشہ سائٹ سے منظور شدہ تھا مگر تعمیر زائد رقبے پر کی گئی تھی فیکٹری کی عمارت کی کھڑکیاں لوہے کی جالیوں سے بند تھیں اور فیکٹری میں آگ بجھانے کے آلات ناکارہ تھے۔ ہنگامی صورت میں باہر نکلنے کا راستہ دوسری منزل پر اور بہت تنگ تھا جسے تالا لگاکر بند رکھا جاتا۔ تعمیر میں جلد آگ پکڑنے والا مواد اور بجلی کی تنصیبات میں ناقص تار استعمال کیا گیا تھا اور فیکٹری انسپکشن نہیں کی گئی تھی حد یہ کہ حادثے سے 15 روز قبل اطالوی فرم RINA نے علی انٹرپرائز کو محفوظ اور معیاری کارخانہ قرار دے کر Certificate SA8000 جاری کیا جس سے سرٹیفکیشن کے عمل کی شفافیت اور صحت و سلامتی کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی عیاں ہوتی ہے۔

اس اندوہناک واقعے کے بعد مزدور حقوق کی نمایندہ تنظیم پائلر نے دیگر ساتھی تنظیموں کے تعاون سے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تا کہ متاثرہ خاندانوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے اس درخواست کے تین بنیادی نکات تھے۔

1۔حادثے کی تحقیقات

2۔لاشوں کی شناخت

3۔متاثرین اور جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء کی فوری مدد۔ عدالتی احکامات کے نتیجے میں اس سلسلے میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی مگر پاکستان جیسی ریاست میں غریب کے لیے انصاف کا حصول اس قدر سہل نہیں تھا۔

پائلر نے اس انسانی المیے کو ملکی اور غیر ملکی سطح پر موثر طریقے سے اٹھایا اور کلین کلاتھ کیمپین کے تعاون سے جرمن کمپنی KIK سے مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں زرِ تلافی کی مد میں ایک ملین ڈالر کی پہلی قسط ادا کی گئی جب کہ طویل مدتی بنیادوں پر متاثرہ خاندانوں کی مدد کے سلسلے میں بھی بات چیت کی گئی۔ اطالوی فرم RINA جس نے علی انٹرپرائز کو SA8000 سرٹیفکیٹ جاری کیا اس کے خلاف اٹلی میں مقدمہ دائر کرنے کو بھی یر غور لایا گیا۔

اس کے علاوہ متاثرہ خاندانوں کو حکومت کی جانب سے 8 کروڑ روپے کی تقسیم کے وعدے پر عملدرآمد کے وعدے کو بھی یقینی بنانے میں پائلر نے موثر اور کلیدی کردار ادا کیا اور ستمبر 2012ء سے مارچ 2013ء تک متواتر پریس کانفرنس اور دیگر پروگرامز کے ذریعے اسے المیے کو زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ مزدور حقوق اجاگر کیے گئے اور کام کرنے کی جگہ پر صحت و سلامتی کی اہمیت کو اجاگر کیا اس ضمن میں مشہور گلوکار جواد احمد کا ایک خصوصی نغمہ بھی شامل ہے جسے بلدیہ کی اس فیکٹری کے باہر لواحقین کی موجودگی میں فلمایا گیا۔

11 ستمبر 2012ء کی قیامت کے بعد پائلر کی کاوشوں پر نظر ڈالنے کے ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے ریاست کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ صرف کنونشن کی توثیق ہی نہ کرے بلکہ ان پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنائے۔ مگر حکومت کی غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ متذکرہ کمپنی RINA نے 20 مزید فیکٹریوں کو ایسے ہی سرٹیفکیٹ جاری کیے تھے مگر دو سال گزر جانے کے بعد بھی حکومت نے ان فیکٹریوں کا Audit کرانے کی زحمت نہیں کی شاید وہ کسی اور حادثے کے منتظر ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر فوری طور پر ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے مستقبل میں ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔ کام کی جگہ پر صحت و سلامتی کے مجوزہ اصولوں کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور انھیں فیکٹریز سمیت تمام کام کرنے کی جگہوں پر لاگو کیا جائے۔ اس ضمن C-155 کی توثیق ایک اہم پیشرفت ہے۔ مستقبل میں ایسے حادثوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مالکان، حکومت اور محنت کش نمایندے ایک میز پر بیٹھ کر مشترکہ ورک پلان مرتب کریں جس سے محنت کش کام کرنے کی جگہ پر خطرات سے محفوظ رہیں کیونکہ اس دنیا کا کاروبار چلانے میں محنت کشوں کے کلیدی کردار کی اہمیت سے صرف نظر نہیں ممکن نہیں اور وہ وقت دور نہیں جب اسی طرح کے واقعات ایک منظم تحریک کو جنم دیں گے اور محنت کش اپنے تمام حقوق حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔