خیمہ بستی کی قانونی حیثیت کو دیکھنا ہوگا، تقریروں میں گالیاں دینا کونسا حق ہے؟ سپریم کورٹ

نمائندہ ایکسپریس  جمعرات 11 ستمبر 2014
وزیراعظم سے بزورطاقت استعفیٰ،فوج کی حمایت کے اشاروں کے سوالات پرتحریک انصاف،عوامی تحریک سے جواب طلب۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم سے بزورطاقت استعفیٰ،فوج کی حمایت کے اشاروں کے سوالات پرتحریک انصاف،عوامی تحریک سے جواب طلب۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے غیرآئینی اقدامات کیس میں عوامی نیشنل پارٹی اوربلوچستان نیشنل پارٹی کی طرف سے اٹھائے گئے 3 قانونی سوالات پر تحریک انصاف اور عوامی تحریک سے 3 دن میں جواب طلب کرلیا۔

اے این پی اور بی این پی نے سوالات اٹھائے تھے کہ کیا وزیراعظم سے بزورطاقت غیرآئینی طریقے سے استعفیٰ لیا جاسکتا ہے؟ کیاکوئی جماعت اپنے غیرآئینی اورغیر قانونی مقاصد کے حصول کے لیے فوج کو ملوث کرسکتی ہے کہ فوج مستقبل کا تعین کرے گی؟ اورکیا کوئی سیاسی جماعت تقریر، تحریر اشاروں اورکنایوں میں یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ اسے فوج کی حمایت حاصل ہے؟ چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی عدالت نے آبزرویشن دی کہ فیصلے کرنے کے لیے پیمانہ آئین وقانون ہے، عدالت مصلحت یا سمجھوتوں کو نہیں دیکھتی۔

جسٹس جواد خواجہ نے کہا آئین کی شق 14 ،16 اور17 کی تشریح کریں گے اور طے کریں گے کہ حق اور اس کی حد کیا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ اگر21 دن سے میڈیا پرایک ایشو ہو تواس کا مطلب ہے کوئی مسئلہ موجود ہے، اس کے حل کا طریقہ کارکیا ہوگا، فیصلہ عدالت کا ہوگااور اطلاق حکومت کرے گی، بنیادی حقوق کا اطلاق سپریم کورٹ کی ذمے داری ہے۔

جسٹس جواد نے کہاکہ اگر بنیادی حقوق کی پامالی کا معاملہ ہو تو ضروری نہیں کوئی درخواست دائرکرے گا تو دیکھا جائے گا، عدالت خود بھی نوٹس لے سکتی ہے، شاہراہ دستور پر ہماری ناک کے نیچے جوخیمہ بستی بن گئی ہے اس کی قانونی حیثیت کو دیکھنا ہوگا،اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ٹھیک، نہیں تو پھر ہم فیصلہ کریں گے اور حکومت اس کا اطلاق کرے گی۔ رضا ربانی نے کہاکہ ملک کی سیاسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے پارلیمنٹ کو ماورائے آئین اقدام کا خدشہ ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل یوسف کھوسہ نے کہا کہ ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارے سامنے ایک جماعت ایسی ہے جوکہہ رہی ہے کہ اس مقدمے کو نہ سنا جائے اور درخواستیں خارج کردی جائیں، درخواستیں خارج ہوجائیںگی تو ماورائے آئین اقدام کے خلاف حکم امتناع بھی غیرموثرہوجائے گا۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ ہم احتجاج کے حق کے خلاف نہیں لیکن مٹی پائوکی یہ سیاست اب ختم ہونی چاہیے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ تقریروں میں گالیاں دینا کونسا حق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔