سیاستدانوں نے بحران کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا

شہزاد امجد  جمعـء 12 ستمبر 2014
سیاسی‘ دفاعی و اقتصادی تجزیہ نگاروں کی ایکسپریس فورم میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

سیاسی‘ دفاعی و اقتصادی تجزیہ نگاروں کی ایکسپریس فورم میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

ملکوں کے آپس میں تعلقات اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے سربراہان مملکت کے دورے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اسی حوالے سے چین کے صدرکی ماہ ستمبر میں تین ممالک پاکستان‘ بھارت اور سری لنکا آمد متوقع تھی۔

مگر بدقسمتی سے پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات کی وجہ سے چینی صدر کے سکیورٹی حکام نے اس دورہ کی کلیئرنس نہیں دی جس بنا پر ان کا یہ دورہ فی الحال مؤخر ہوگیا ہے اوراسے اب ری شیڈول کیا جارہا ہے۔ دورہ کے التوا اور اس کے اثرات کے حوالے سے گزشتہ دنوں ایکسپریس فورم میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر فاروق حسنات (سیاسی تجزیہ نگار)

اس طرح کے دورے عام طور پر علامتی ہوتے ہیں کیونکہ اس طرح کے دوروں میں گراؤنڈ ورک پہلے سے ہو گیا ہوتا ہے۔ معاہدے وغیرہ سب تیار ہوتے ہیں۔ آپ نے صرف آ کر ان پر دستخط کرنا ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے چینی صدر کے اس دورے کے منسوخ ہونے سے عملی طور پر تو نقصان نہیں ہو گا لیکن افسوس کہ علامتی طور پر بہت نقصان ہو گا کیونکہ چینی صدر نے جنوبی ایشیا کے تین ممالک پاکستان، بھارت اور سری لنکا میں آنا تھا۔ اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس ملک میں پہلے جانا ہو اور جتنے دنوںکے لئے جانا ہو‘ یہ بہت اہم ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دنیا کے لئے ایک پیغام ہوتا ہے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی اس ملک کے ساتھ تعلقات کی وسعت کیا ہے۔ اس لحاظ سے علامتی طور پر د ورے کی منسوخی کا نقصان ہوا ہے۔ مجھے تو موجودہ حکمرانوں کی سمجھ نہیں آتی کہ ایسے کیا اقدامات ہو جاتے ہیں کہ چلتے چلتے یہ بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اتنا بڑا مینڈیٹ لے کر آنے کے باوجود کیا غلطیاں سرزد ہونا شروع ہو جاتی ہیں کہ ان کی حکومت ہچکولے کھانے لگتی ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ ایک مہینے میں کسی سربراہ مملکت کا یہ تیسرا دورہ ہے جو منسوخ ہوا ہے۔

چین کے صدر سے پہلے سری لنکا اور مالدیپ کے صدور کے دورے بھی منسوخ ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ترکی کے صدر اردگان کی تقریب حلف وفاداری میں ہمارے وزیراعظم کو مدعو کیا گیا تھا۔ مگر آپ اس میں بھی شرکت نہ کر سکے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک طرف تو حالیہ بحران کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ حالات کنٹرول میں ہیں اور دوسری طرف یہ عالم ہے کہ آپ چار گھنٹے کے لئے دوست ملک کے صدر کی تقریب حلف وفاداری میں شرکت کے لئے نہیں جا سکے۔ اس لحاظ سے حکمرانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ ملک میں واقعی سیاسی بحران ہے۔ اور اس کو حل کرنے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

آپ پارلیمنٹ کا اجلاس بلاتے ہیں تو وہاں ہونے والی تقاریر سب کے سامنے ہیں۔ آپ فوج کو مذاکرات میں شامل کرتے ہیں اور بعد میں اسمبلی میں اس بات سے انکار کر دیتے ہیں کہ آپ نے تو انہیں مذاکرات کے لئے کہا ہی نہیں اور اس طرح سے آپ اس ادارے سے بھی اپنے تعلقات خراب کر لیتے ہیں۔ اور پھر پوری دنیا ان معاملات کو دیکھ رہی ہے اور جائزہ لے رہی ہے۔ اگر آپ اپنے اندرونی بحران کو حل کرنے کے لئے سنجیدگی سے کام نہیں لیں گے تو عالمی سطح پر آپ کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔

چین کے ساتھ تعلقات کا اگر جائزہ لیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے چین سے بہت گہرے دوستانہ اور معاشی تعلقات ہیں۔ پاکستان میںدفاعی پیداوار میں بھی چین کے اشتراک سے بہت کام ہو رہا ہے۔ میری ذاتی رائے میں چینی صدر کے دورہ کی منسوخی کا ان تعلقات اور معاشی روابط پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ منصوبے اسی طرح چلتے رہیں گے۔ ایک اہم بات امریکی افواج کا افغانستان سے انخلاء ہے۔ چند ماہ بعد ہی امریکی افواج افغانستان سے نکل رہی ہیں۔ جس کے بعد امکان ہے کہ وہاں ایک عجیب سی افراتفری کا عالم ہو سکتا ہے۔

افغانستان کے صدارتی انتخابات کی مثال آپ کے سامنے ہے، ابھی تک ان کے حتمی نتائج سامنے نہیں آئے۔ کیونکہ عبداللہ عبداللہ نے دھاندلی کے الزامات لگائے اور پھر ایک ایک ووٹ کی دوبارہ گنتی کی گئی لیکن اس کے باوجود عبداللہ عبداللہ دوبارہ بائیکاٹ کر گئے ہیں۔ اس لحاظ سے وہاں کے حالات بھی مد نظر رکھنا ہوں گے۔ کیونکہ وہاں کے حالات کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے۔ پاکستان کو ایسے وقت میں افغانستان سے اکیلے ہینڈل نہیں کرنا چاہئے بلکہ ایک الائنس بنا کر وہاں کی صورتحال کو ڈیل کرنا چاہئے۔

آج جب تک چین‘ ایران اور ترکی کو ساتھ نہیں ملائیں گے آپ اکیلے افغانستان کے حالات کو کنٹرول نہیں کر سکیں گے۔ آپ کو افغانستان کے ساتھ ایک ذمہ دار ہمسایہ کاکردار ادا کرنا ہو گا۔ اس ساری صورتحال میں جب کہ امریکی افواج نے افغانستان سے نکلنا تھا اور آپ نے افغانستان کے حوالے سے نئی سٹریٹجی بنانی تھی تو ایسے وقت میں چینی صدر کا دورہ نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اس کے اندرونی حالات پر منحصر ہوتی ہے۔ اس لئے اگر آپ اپنے اندرونی معاملات کو اس طریقے سے چلاتے رہیں گے جس طریقے سے چلایا جا رہا ہے تو اس کا اثر عالمی سطح پر آپ کے تعلقات پر بھی پڑے گا۔

چینی صدر کا دورہ بھی صرف سکیورٹی کی وجہ سے منسوخ ہوا کیونکہ ان کی اپنی سکیورٹی ٹیم نے آ کر جائزہ لیا ہے۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں زیرو فیصد بھی رسک نہیں لینا چاہئے۔ اس لئے انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب چینی صدر کا دورہ شاید دوبارہ نہیں ہو سکے گا۔ کیونکہ وہ ایک مصروف ترین صدر ہیںاور ان کے پاس شاید اتنا وقت نہیں ہو گا کہ دورے بار بار ری شیڈول کئے جائیں البتہ میرا خیال ہے کہ جن معاہدوں کی بات کی جا رہی ہے۔

ان پر عملدرآمد ہو جائے گا۔ کیونکہ اگر ان کے صدر نہیں بھی آ سکتے تو کوئی بات نہیں ان کے سفیر یہاں موجود ہوتے ہیں یا دیگر اعلیٰ حکام جو دستیاب ہوں گے‘ وہ ان معاہدوں پر دستخط کر دیں گے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ آپ کے ہر قسم کے منصوبوں میں خواہ وہ آسان قرضے ہوں یا دیگر منصوبے ہوں‘ ان میں چین کی حکومت براہ راست شامل ہوتی تھی لیکن اب چین کی حکومت صرف سہولت کارکا کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔

اب چین کی نجی کمپنیاں خود یہاں آ کر ڈیل کر رہی ہیں اور وہاں کی حکومت انہیں سہولت فراہم کر رہی ہے۔ اب وہ دور تو ہے نہیں جب بڑی طاقتیں پیسے آپ کے آگے پھینک دیا کرتی تھیں اب تو معاشی مقابلے کا دور ہے۔ چین بلاشبہ ہمارا بہت اچھا دوست ہے اور رہے گا لیکن اس نئے دور میں معاشی مقاصد کے حصول کے لئے آپ کو اپنے معاشی اور سماجی اداروں کے ساتھ ساتھ اپنے اندرونی سیاسی نظام کو بھی مضبوط کرنا ہو گا۔ اسی سے آپ کی خارجہ پالیسی بھی بہتر ہو گی اور عالمی سطح پر آپ کی ساکھ کو تسلیم کیا جائے گا۔

ڈاکٹر رفیق احمد (سابق وائس چانسلر جامعہ پنجاب)

دورے کی منسوخی بہت افسوس ناک ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چین کے ساتھ پاکستانیوں کی گہری محبت اور دوستی ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ممالک کے درمیان آپس میں تعلقات ہمیشہ مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور مفادات ختم ہو جانے کے بعد یہ تعلقات بھی شاید ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن چین اور پاکستان کے تعلقات اس طرح کے وقتی یا عارضی نہیں ہیں۔ اگر غور کیاجائے تو اندازہ ہو گا کہ دونوں ممالک تقریباً تقریباً ایک ساتھ آزاد ہوئے۔

اس کے بعد اگر گذشتہ چھ، سات دہائیوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو چین اور پاکستان میں اس عرصہ میں بہت سی حکومتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود چین اور پاکستان کی دوستی آج بھی قائم ہے۔ اس میں کبھی بریک نہیں آیا۔ بلکہ ان دونوں ممالک کی لازوال دوستی کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ ’’ہماری چین سے دوستی ہمالیہ سے بلند اور بحر الکاہل سے گہری ہے‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاک چین دوستی کی ایک بڑی وجہ ایک دوسرے پر مکمل اعتماد ہے۔

میرا خیال ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں کو اتنا شعور ہونا چاہئے کہ کم از کم اس ایک معاملے میں سب کو متفق ہونا چاہئے تھا کہ چین کے ساتھ دوستی سے ہمیں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ میں ہمیشہ فائدے ہی ہوئے ہیں۔ اس لئے ہمیں چینی صدر کے دورے کے موقع پر آپس کی الزام تراشیوں اور آپس کے اختلاف کو ایک طرف رکھ دینا چاہئے تھااس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ حالیہ دورے کے دوران توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ چین پاکستان کے ساتھ بہت بڑے پیمانے پر معاشی تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں بہت سے منصوبوں کا آغاز کرنا چاہتاہے۔

جیسا کہ پاکستان کو اس وقت بجلی‘ پانی‘ اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے بہت سے مسائل درپیش ہیں اور پھر اس خطے میں پاکستان جغرافیائی طور پر مرکز میں واقع ہے ۔ اور اس حوالے سے پاکستان اور چین کے درمیان سرحدی لحاظ سے گوادر سے کاشغر تک اکنامک کاریڈور کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن اس لحاظ سے یہاں موجود ممالک کے ساتھ پاکستان کے رسد و رسائل کے حوالے سے بذریعہ سڑک روابط اتنے تیز اور اچھے نہیں ہیں۔

چنانچہ چین ان روابط کو بہتر اور تیز بنانے کے لئے یہاں سٹرکچر ڈویلپمنٹ کی مد میں سرمایہ کاری کرنا چاہ رہا ہے اور اس حوالے سے چین تقریباً 3.6 بلین ڈالر کے رعایتی قرضے پہلے ہی جاری کر چکا ہے جبکہ اب تقریباً تین گنا زائد مالیت کے مزید منصوبے شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہا ہے ۔ پاکستانیوں کے لئے اس لحاظ سے یہ تشویشناک بات ہے۔ یہ کوئی سیاسی معاہدے نہیں تھے بلکہ معاشی ترقی کے معاہدے تھے۔ ان میں انرجی سیکٹر‘ ٹرانسپورٹ‘ انفراسٹرکچر اور پانی معاہدے شامل تھے اور پہلی بار وہاں کے سیمی پرائیویٹ بنک‘ کریڈٹ فنانسنگ کے حوالے سے ہمارے پرائیویٹ بینکوں سے تعلقات استوار کرنا چاہ رہے تھے۔ اس حوالے سے کچھ معاہدے ہو بھی چکے ہیں۔

ایک اچھی بات یہ ہے کہ اگر آپ چین کے ماہرین اقتصادیات کے تبصرے پڑھیں تو اندازہ ہو گاکہ قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے پاکستان کی شہرت بہت اچھی ہے۔ اس حوالے سے وہ ہم پربہت اعتماد کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان کبھی ڈیفالٹر نہیں ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستانی مارکیٹ کو بھی ایک بڑی مارکیٹ تصور کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ خاصا امکان تھا کہ چینی صدر کے حالیہ دورہ کے دوران تجارتی اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے خاصے بڑے معاہدے ہوں گے۔ تاہم ابھی بھی امید ہے کہ ا گر چینی صدر کا دورہ ری شیڈول ہوتا ہے تو یہ معاہدے ضرور پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کے حوالے سے ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کی گزشتہ ڈیڑھ سال سے مثبت رائے آ رہی ہے۔ معاشی لحاظ سے ورلڈ رینکنگ کو دیکھا جائے تو پاکستان 144 ممالک میں سے 129 ویں نمبر پر ہے جبکہ پہلے ہم 137ویں نمبر پر تھے۔ تو گذشتہ ‘ ایک سال کے اندر یہ بہتری ایک مثبت اشارہ ہے کہ یہاں معیشت بالکل نیچے نہیں جا رہی ہے۔ اس سے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو ترغیب ملتی ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بزنس مینوںکے بارے میں بھی عام تاثر یہی ہے کہ یہ لوگ کاروبار میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔

اس لحاظ سے بھی دنیا بھر اور خصوصاً چین کی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ گذشتہ دنوں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری امریکہ سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن امریکی سرمایہ کاری کا چرچا زیادہ ہوتا ہے۔ آرٹیکل کے مطابق چین کے تعاون سے پاکستان میں ابھی تک 20 بلین ڈالر کے منصوبوں پر کام ہو چکا ہے اور 18 بلین ڈالر کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ اور مستقبل میں چینی صدر کے دورہ کے دوران 25 بلین ڈالر کے مزید منصوبوں کا آغاز ہونا تھا۔ یہ وہ منصوبے تھے جن کی فیزیبلٹی رپورٹ تک بن چکی ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اندازے کے مطابق اس وقت تقریباً 13 ہزار چینی انجینئر اور ورکر پاکستان میں مختلف پراجیکٹس پر کام کر رہے ہیں۔ ان ساری چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ چینی صدر کا دورہ بہت اہمیت کا حامل تھا۔ پاکستانی سیاستدانوں کو دیکھنا چاہئے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی سیاستدان آپس کے اختلافات کو اس نہج پر نہیں لے جاتے جہاں ملکی مفاد میں ہونے والے غیر ملکی صدور کے دورے ہی منسوخ ہو جائیں اور پھر چین ایک ایسا ملک ہے جس کے پاکستان میں کسی مخصوص جماعت یا حکومت کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں بلکہ ان کے ہر دور میں ہرحکومت اور پارٹی کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں۔

اس لحاظ سے خصوصاً موجودہ صورتحال میں جب دنیا بھر میں معاشی بحران کی کیفیت چل رہی ہے۔ ایسے وقت میں چینی صدر کا دورہ جتنی جلد ممکن ہو سکے‘ شیڈول ہو جانا چاہئے اور اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کو آپس میں اس ایک نقطے پر ضرور متفق ہو جانا چاہئے۔

بریگیڈیئر (ر) عمران ملک (دفاعی تجزیہ نگار)

پاکستان اور چین کے تعلقات کو صرف دو طرفہ تعلقات کے تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ ان تعلقات کو عالمی تناظر میں جغرافیائی و سیاسی ماحول اور سٹریٹیجی کے حوالے سے بھی دیکھنا چاہئے۔ آپ دیکھیں کہ امریکہ اب موجودہ صورتحال میں مڈل ایسٹ اور سنٹرل ساؤتھ ایشیا میں اپنی کمٹمنٹس سے واپس جانا چاہ رہا ہے۔

عراق میں امریکہ کی صورتحال یہ ہے کہ وہ تو کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہے مگر کمبل اسے چھوڑنے پر تیار نہیں۔ مڈل ایسٹ سے وہ واپس جا چکاہے۔ اب افغانستان سے بھی وہ نکلنا چاہ رہا ہے۔ اور اب امریکہ اپنی نئی پالیسی کے تحت ایشیا پیسفک پر اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہ رہا ہے اور اس کام کو کرنے کے لئے مختلف اقدامات کے علاوہ ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ چین کی تیزی سے ہونے والی ترقی کو کنٹرول بھی کرنا چاہتا ہے کیونکہ چین کی وجہ سے اس کی واحد سپر پاور ہونے کی حیثیت اب خطرے میں پڑ چکی ہے چنانچہ وہ اپنی اس حیثیت کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتاہے اور اس کام کے لئے اسے بھارت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

اپنی توجہ کو ایشیا پیسفک کی طرف منتقل کرنے کے حوالے سے امریکہ کے لئے چار ممالک بہت اہم ہیں۔ جن میں خود امریکہ کے علاوہ‘ بھارت‘ جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جنوبی کوریا اور تائیوان کو بھی ساتھ ملا کر امریکہ ایسی پالیسی بنانا چاہ رہا ہے کہ چین کو روکا جا سکے۔

دراصل چین کی تیل سمیت زیادہ تر تجارت (MALACCA STRAITS) کے راستے سے ہوتی ہے۔ اور اگر امریکہ اپنے ان حلیفوں کے ساتھ مل کر وہ راستہ بلاک کر دے تو چین کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ چین نے اب اپنی نئی سٹرٹیجی بنائی ہے اور مختلف جگہوں پر کچھ بندرگاہیں اور راستے اپنے لئے کھولے ہیں تاکہ اگر امریکہ اور اس کے حلیف اس کی تجارت والا راستہ بلاک کر دیتے ہیں تو اس کے پاس متبادل راستہ موجود ہو۔ اس حوالے سے دیکھیں تو گوادر کی بندرگاہ پاکستان کے لئے تو اہمیت کی حامل ہے ہی لیکن چین کے لئے اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔

اس طرح سری لنکا‘ بنگلہ دیش‘ میانمار میں بھی بندرگاہیں چین کے لئے اہمیت رکھتی ہیں۔ اسی لئے چین اب ان راستوں پر توجہ دے رہا ہے‘ اس لحاظ سے چین کے لئے پاکستان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ لیکن ہمارے لئے بھی چین اتنا ہی اہم ہے۔ خاص طور پر چین کی سرمایہ کاری ہمارے لئے اور ہماری معیشت کے لئے بہت اہم ہے۔ اس سارے پس منظر میں جب آپ دیکھیں کہ گوادر سے کاشغر جو اکنامک کو رویڈر بن رہا ہے تو ساری صورتحال واضح ہو جاتی ہے۔ اگر آپ مشرق و مغرب کے تجارتی کاریڈورز پر نگاہ دوڑائیں تو وہ سب کے سب پاکستان میں سے گذرتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر آپ بھارت سے شروع کریں تو بھارت‘ پاکستان‘ ایران‘ ترکی سے ہوتے ہوئے یورپ چلے جائیں۔ اسی طرح پاکستان‘ سنٹرل ایشیاء‘ روس سے ہوتے ہوئے یورپ میں جا سکتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان کے حوالے سے چین کی دلچسپی بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ کیونکہ چین ا ن تمام کورویڈرز سے فائدہ اٹھانا چاہے گا۔

میں یہاں ایک بات کہنا چاہونگا کہ کا شغر سے گوادر تک کا اکنامک کاریڈور اگرچہ ہم نے خالصتاً پاکستان کے لئے رکھا ہوا ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر مستقبل میں ہمارے تعلقات بھارت سے بہتر ہو جاتے ہیں تو ہمیں بھارت کو بھی دعوت دینی چاہئے کہ وہ چین اور سنٹرل ایشیاء کے دیگر علاقوں میں امپورٹ ایکسپورٹ کے لئے ہمارا یہ کورویڈر استعمال کرے۔ اس سے ہمیں بھی بہت فائدہ حاصل ہو سکتاہے۔ اور بھارت کو بھی اپنی مصنوعات ان علاقوں تک پہنچانے کے لئے شارٹ کٹ مل سکتا ہے۔

اس لحاظ سے اس وقت ایک ڈائنامک صورتحال بن چکی ہے جس میں چین ایک بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے اور اگر پاکستان ا پنے کارڈز صحیح طریقے سے کھیلے تو معاشی طور پر بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس ساری صورتحال سے واضح ہو رہا ہے کہ اگر چین ہمارے ملک میں دلچسپی لے رہا ہے تو ظاہر ہے کہ ہمیں بھی اس کا بڑا فائدہ ہو گا۔ اس لحاظ سے چینی صدر کے دورہ کے دوران ہونے والے حالیہ معاہدے اور سرمایہ کاری بہت زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔

بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت نے خواہ وہ حکومت ہو یا اپوزیشن ہو‘ دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کیا اور چینی صدر کے دورے کے منسوخ ہونے سے انہوں نے پاکستان کا بہت بڑا نقصان کیا ہے۔ سیاستدانوں نے سمجھ بوجھ سے کام ہی نہیں لیا کہ اس دورے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہونے جا رہا تھا اور اس کی زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اسے پتہ تھا کہ اس د ورے سے کتنی بڑی سرمایہ کاری آ رہی ہے۔ اس لئے حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہئے تھا۔ اب بھی ان کو چاہیے کہ جلد از جلد یہ دورہ دوبارہ شیڈول کروانے کی کوشش کریں۔

ڈاکٹر شاہد اے ضیاء (ماہر اقتصادیات)

کوئی بھی دورہ جس میں کوئی پاکستان آرہا ہو یا یہاں سے کوئی باہر جارہا ہو اس کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ ان دوروں کی پلاننگ کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ پاکستان اس حوالے سے ایک خوش قسمت ملک ہے کہ اس کی جغرافیائی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اس کی اسی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے اس کی بہت سی غلط باتوں کو بھی دنیا میں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

اگر تجارت کے حوالے سے دیکھیں تو بہترین تجارت وہی ہوتی ہے جو ہمسایوں کی ہمسایوں کے ساتھ آپس میں ہوتی ہے اور یہی فطری تجارت بھی ہوتی ہے مگر ہم آج تک تجارت کیلئے یورپ اور امریکہ کی طرف دیکھتے رہے جو کہ غیر فطری طرز عمل ہے اور اس سے ہمیں فائدہ بھی نہیں ہوا جبکہ چین سے صرف پاکستان کو ہی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ پاکستان سے بھی چین کو بہت سے مفادات حاصل ہوتے ہیں۔ اس وقت اگر دیکھا جائے تو چین کی پاکستان میں پہلے ہی بہت زیادہ انوسٹمنٹ ہے جبکہ اس دورے میں بھی تقریباً 34 بلین ڈالر کے معاہدے ہونے تھے اور اس پر کافی کام ہوچکا ہے اور گراؤنڈ ورک تقریباً مکمل ہے، کسی بھی ملک کے سربراہ مملکت کے دورے میں تو صرف ریڈ کارپٹ ہونا ہوتا جبکہ معاہدے کے متعلق کام تو پہلے ہی مکمل ہوچکا ہوتا ہے۔

چینی صدر کے دورے سے صرف علامتی طور پر ریڈ کارپٹ ہونا تھا۔تاہم دورہ منسوخ ہونے سے یہ تاخیر کا شکار ہوجائے گا۔ اس وقت اگر ہم چین کی دنیا میں اہمیت دیکھیں تو چین بہت اہم ملک بن چکا ہے اور چین کے صدر نے انڈیا سے پہلے پاکستان کا دورہ کرنا تھا یعنی انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کو اہمیت دی جارہی تھی اس اہمیت کو ہم نے اپنی بیوقوفی کی وجہ سے ختم کرلیا اس کے دور رس نتائج نکلیں جن کا اندازہ مستقبل میں ہوگا۔ اس دورے کی وفاعی حوالے سے بھی بہت اہمیت تھی جس میں دفاعی معاہدے بھی ہونے تھے۔

دورے کی منسوخی ہمارے دشمن ہمسایہ ممالک کیلئے بڑی خوشی کی بات ہے۔ اس وقت بلیم گیم چل رہی ہے حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو دورے کی منسوخی کا ذمہ دار ٹھہرارہے ہیں تاہم حکومت کی زیادہ ذمہ داری تھی اور اسے احساس کرنا چاہیئے تھا کہ معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرتی اور اگر حکومت چاہتی تو مسئلے کا حل کرسکتی تھی مگر حکومت نے مسئلے کے حل میں دلچسپی نہیں لی حالانکہ حکومت کو دیکھنا چاہیے تھا کہ اس سے پہلے مالدیپ اور سری لنکا کے صدور کے دورے بھی منسوخ ہوچکے تھے۔

ملک کو جتنا نقصان اگست اور ستمبر کے مہینے میں ہوا ملکی تاریخ میں آج تک نہیں ہوا اس سے پہلے مختلف شہروں میں احتجاج وغیرہ ہوتے تھے مگر اسلام آباد میں سرگرمیاں نہیں رکتی تھیںاور کبھی کسی سربراہ مملکت کا دورہ منسوخ نہیں ہوا۔ موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو ایک امکان تو یوں لگتا ہے کہ کچھ عناصر غیر ملکی ایماء پرچاھتے ہیں کہ چین سے پاکستان کے تعلقات اچھے نہ ہوں۔ اس لیے اس دورے کی منسوخی کے بھی دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ ہمیں ضرورت ہے کہ ہم فطری تجارتی پارٹنرز یعنی اپنے ہمسایوں کے ساتھ تجارت کو بڑھائیں۔

اگر کبھی ہم واہگہ بارڈر پر جاکر دیکھیں تو انڈیا کی طرف سے 100 ٹرک آرہے ہوتے ہیں تو پاکستان کی طرف سے 2 ٹرک جارہے ہوتے اس فرق کو بھی ختم کرنا چاہیے اور چین کے ساتھ ایسا نہی ہونا چاہیئے۔ چین نے اپنے ملک میں سمال اینڈ میڈیم انڈسٹری کو ترقی دی ہم بھی سمال اینڈ انڈسٹری کو ترقی دے سکتے ہیں، ہمارے ہان سمال اینڈ میڈیم انڈسٹری میں سرمایہ کاری کی گنجائش اور سہولت بھی موجود ہے۔ ہمیں چھوٹے منصوبوں کی طرف آنا چاہیے۔

بڑے ڈیموں کی بجائے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں چھوٹے ڈیم بنانے سے ہم سستی انرجی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ آج کل دنیا میں انڈیا اور چین کی بات نہیں ہوتی بلکہ دونوں کو اکٹھا کرکے چنڈیا کی بات ہوتی ہے۔ پاکستان اور انڈیا دونوں ترقی پذیر ممالک ہیں۔ امریکہ ہمارا اچھا دوست ہے مگر صرف اس وقت جب اس کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمیں صرف استعمال کرتا ہے اس کے بعد دوستی ختم ہوجاتی ہے، ہم چین اور روس کے ساتھ تعلقات بڑھا کر فائدے میں رہ سکتے ہیں۔

چین کے ساتھ ہمارے دفاعی اور معاشی دونوں حوالوں سے تعلقات ہیںجو کہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ چینی صدر کے دورے کی منسوخی سے ہم نے اپنی کریڈیبلٹی کھو دی ہے کیونکہ اسلام آباد میں بہت کم کاروباری سرگرمیاں ہوتی ہیں کاروباری سرگرمیاں لاہور اور کراچی میں ہوتی ہیں اسلام آباد میں سفارتی سرگرمیاں ہوتی ہیں جوکہ اس وقت بند پڑی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔