مجھے اس شہر میں رہنے سے خوف آتا ہے

اوریا مقبول جان  جمعـء 12 ستمبر 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

سیلاب کے اس موسم میں پاکستان کے کسی بڑے شہر کی رنگارنگی اور مصروف زندگی سے نکل کر اگر آپ ان علاقوں کی جانب جائیں جہاں وہ غریب و بے آسرا کسان اور دیہاتی اپنے گھر بار لٹ جانے کے بعد بے سر و سامان کھلے آسمان تلے پڑے ہیں‘ اگر آپ واقعی دل رکھتے ہیں تو آپ کے بے اختیار آنسو نکل آئیں گے۔

یہ پاکستان کی وہ بے زبان مخلوق ہے جو ہر سال لٹتی ہے۔ پہلے وہاں اخباروں کے چند فوٹو گرافر پہنچا کرتے تھے اب چوبیس گھنٹے نشریات والے ٹیلی ویژن چینلز کے کیمرہ مین اور رپورٹرز ان کے آنسو‘ آہیں اور سسکیاں‘ ریکارڈ کرتے ہیں‘ رپورٹیں بناتے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ نشر کرتے ہیں۔ حکمران انھی کیمروں کی چکا چوند میں ان مفلوک الحال لوگوں کے سامنے چہروں پہ کرب کے تاثرات لا کر تصویریں اور ویڈیو بنواتے ہیں اور پورے ملک میں اپنی انسان  دوستی کی دھوم مچواتے ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ یہ سب کچھ گزشتہ ساٹھ سالوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔

شہروں کی پر آسائش زندگی گزارنے والوں کو اندازہ تک نہیں کہ دیہات میں رہنے والے یہ لوگ اگر گرم تپتے پانیوں میں کھڑے ہو کر چاول کی پنیری نہ لگائیں‘ نازک پھولوں کی طرح کپاس کے گالوں کو نہ چنیں تو یہ ملک زرمبادلہ سے محروم ہو جائے۔ یہ وہی زر مبادلہ ہے جس سے اس ملک میں پٹرول درآمد ہوتا ہے‘ ہوائی جہاز اڑتے ہیں‘ٹرین فراٹے بھرتی ہے اور گاڑیاں دوڑتی پھرتی ہیں۔ اب تو اس ملک میں میسر بجلی بھی اسی پٹرول سے بن رہی ہے۔ انھی دیہاتوں سے بیرون ملک پاکستانی مزدوروں کی اکثریت ہے جو اپنے خون پسینے کی کمائی زر مبادلہ کی صورت اس ملک میں بھیجنی ہے۔ اس سے گاڑیاں‘ جہاز‘ ٹرینیں خریدی جاتی ہیں۔ موٹروے تعمیر ہوتے ہیں۔ چمکدار سڑکیں‘ شاندار ایئر پورٹ دو رویہ پھولوں سے آراستہ بلیوارڈ اور موجودہ فیشن کی میٹرو بس سروس شہر کے رہنے والوں کی زندگی پرآسائش‘ خوبصورت اور ترقی یافتہ بناتی ہے۔

بہترین تعلیم ہے تو یہاں‘ شاندار صحت کی سہولیات میسر ہیں تو انھیں‘ روز گار کے مواقع یہیں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ کپاس دیہات میں پیدا ہو لیکن ٹیکسٹائل مل یہاں۔ یہ شہر ہیں جہاں زندگی ہر سال بدلتی ہے۔ ان کو ملانے کے لیے جو موٹروے بنتی ہے اس کے دونوں جانب زندگی ہزار سال پرانی ہے۔ نہ بجلی ہے نہ صاف پانی‘ نہ تعلیم ہے اور نہ بیمار پڑنے پر دوائی‘ دیواروں پر اوپلے نظر آئیں گے اور گندے پانی کے جوہڑ۔ ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ پورے ملک کو پر تعیش زندگی فراہم کرنے والے ساگ اور پیاز سے روٹی کھا کر میٹھی نیند سو جاتے ہیں۔ نہ گلہ‘ نہ شکایت۔ شہر آتے ہیں تو اسے حیرت سے تکتے ہیں اور اپنی قسمت پہ شاکر ہو کر کچی مٹی کے گھروندے میں واپس چلے جاتے ہیں۔

یہ خانماں برباد لوگ جن کی بربادی پر اہل اقتدار ہر سال ماتم کرتے ہیں‘ ٹسوے بہاتے ہیں اور سیلاب کو قدرتی آفت قرار دے کر اپنی نااہلیوں کے لیے بہانے تراشتے ہیں۔ کیا اللہ نے آفات اور مصیبتوں‘ بیماریوں سے بچنے کے لیے انسان کو ذہن عطا نہیں کیا۔ سید الانبیاءﷺ کے پاس ایک عورت آئی کہ اس کے بیمار بچے کے لیے اللہ سے دعا فرمائیں آپؐ نے فرمایا اسے دوا دو‘ کہنے لگی آپؐ دعا فرمائیں اللہ سے۔ آپؐ نے فرمایا دوا بھی اللہ نے ہی پیدا کی ہے۔

ہم عذاب اور آفت میں فرق نہیں کرتے۔ استغفار اور دعائیں ہماری تدبیروں کو کامیاب کرتی ہیں اور اللہ ہم پر رحم کرتے ہوئے آفت کو عذاب میں نہیں بدلتا۔ لیکن تدبیر پر مکمل بھروسہ اور فخر ہماری ساری کوششوں کو خاک میں بھی ملا دیتا ہے۔ ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جو نہ تدبیر کرتے ہیں اور نہ استغفار و دعا۔ بس ہمیں ذاتی نمود و نمائش اور فخر و غرور کے سوا کچھ نہیں آتا۔ ہمارے اس بدترین رویے کی قیمت وہ مسکین دیہاتی ہر سال اٹھاتے ہیں۔ کیا ہمیں علم نہیں کہ سیلاب پر قابو کیسے پایا جاتا ہے؟ کیا ہمارے پاس وسائل نہیں کہ ہم اس سیلاب کو زحمت سے رحمت میں بدل دیں؟ دنیا بھر کی لائبریریوں میں پڑی دریائے سندھ اور اس سے ملحقہ دریاؤں کی سرزمین کے بارے میں لکھی جانے والی رپورٹوں کو دیکھتا ہوں تو حکمرانوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔

یہ رپورٹیں 1958ء سے لکھی جا رہی ہیں اور ہمارے پلاننگ کے محکموں کی الماریوں میں پڑی گرد آلود ہو رہی ہیں۔ 2010,1992,1988,1976,1973,1955 اور 2011ء  میں آنے والے بدترین سیلابوں اور ہزاروں انسانی جانوں کے نقصان اور اربوں کی جائیداد اور فصلوں کی تباہی کے بعد کیا کبھی کسی حکمران نے ان رپورٹوں میں موجود ان تجاویز کو کھول کر بھی دیکھا؟ جو ملک 1873ء کے ایریگیشن ایکٹ کے تحت چل رہا ہو اور وہ بھی ہر صوبے کا مختلف اور جس کی سیلاب کی صورت حال سے بچاؤ کے لیے کوئی قومی پالیسی ہی موجود نہ ہو وہاں ماتم کرنے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔

آج کل ویسے بھی ماتم کا زمانہ ہے۔ آئین کی مقدس کتاب لہرا کر پارلیمنٹ میں روز ماتم ہوتا ہے اور کوئی شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب نہیں مرتا کہ ہماری بے حسی ہر سال لاکھوں انسان پر قہر بن کر ٹوٹتی ہے۔ 1970ء کے بدترین سیلاب کے بعد جب بنگلہ دیش علیحدہ ہوا تو انھوں نے ورثے میں ملنے والی انھی رپورٹوں کو کھولا اور بڑے بڑے تالابوں (Retention Ponds)‘ سیلابی علاقوں کی درجہ بندی‘ سیلابی پانی کے لیے متبادل راستوں کی تعمیر‘ ڈیموں اور بیراجوں کی توسیع اور پورے ملک کو ایک اجتماعی حکمت عملی میں ایسے منظم کیا کہ 1998ء میں وہاں سیلاب کی تباہی دس فیصد سے بھی کم رہی۔

ہمارے ملک میں صوبوں کا پانی جھگڑا مستقل دریائی پانی پر ہے۔ سیلابی پانی پر کوئی حق ملکیت نہیں جتاتا۔ اسے تو ہم نے انسانوں کو نقصان پہنچانے اور سمندر کی نذر کرنے کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔ بھارت نے جب راوی پر تھین‘ ستلج پر بھاکرا اور ننگال اور بیاس پر پانڈو اور پونگ ڈیم بنائے تو ان میں سیلابی پانی کے لیے علیحدہ گنجائش بھی رکھی۔ عام حالات میں یہ تینوں دریا ایک قطرہ پانی بھی پاکستان نہیں آنے دیتے لیکن سیلابی پانی کو کافی حد تک ذخیرہ کی جانب باقی پاکستان پر چھوڑ دیتے ہیں جہاں نکمے اور بے حس حکمران صرف اس کی تباہ کاریوں پر ماتم کرتے ہیں۔ ہاروڈ کے پروفیسر گورڈن میکے Gordon Makey کی رپورٹ سے لے کر 2012ء کی عدالتی کمیشن رپورٹ تک ہزاروں قابل عمل تجاویز موجود ہیں۔ کیا 1968ء کی Lieftinch کی وہ رپورٹ چیخ چیخ کر نہیں کہہ رہی کہ پاکستان کو ہر دس سال میں تربیلا کی سائز کا ایک ڈیم بنانا ہو گا۔ کیا وہ نہیں بناتا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ محکمہ انہار کی ڈیموں‘ نہروں‘ پشتوں اور بندوں کی مستقل بہتری اور نگرانی میں ناکامی ہے۔

جنگلوں کے کٹنے اور درختوں کے بکنے کا ذکر کرنے والے تو ہر جگہ نظر آتے ہیں جو بتاتے ہیںکہ یہ درخت سیلاب کا پانی روکنے میں سب سے بہتر ذریعہ ہیں لیکن سرکاری جنگل کاٹنے میں ہر کسی نے اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈالا۔ جس ملک میں راولپنڈی کا سرکاری جنگل کاٹ کر ہاؤسنگ کالونی بنائی گئی ہو وہاں کون آواز بلند کرے گا۔ میں تجاویز پڑھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ اگر 1955ء کے پہلے سیلاب کے بعد ان پر عمل شروع ہو جاتا تو آج ہم انسانی جانوں کے ضیاع اور اربوں کے نقصان سے بچ جاتے۔ کیا یہ تجاویز ناقابل عمل ہیں۔ -1 پورے ملک کو سیلاب کے حوالے سے ایک یونٹ قرار دیا جائے۔-2 سیلابی پانی کے بہاؤ کے لیے متبادل راستے بنائے جائیں۔-3 ڈیموں‘ بیراجوں‘ ہیڈر اور وئیرز کی اپ گریڈیشن کی جائے۔

-4 واٹر پارک اور بڑے بڑے تالابوں کے ذریعے سیلابی پانی کو جمع کیا جائے۔ -5 پشتوں اور بندوں کے اندر آباد کاری ختم کی جائے۔ -6 درخت لگائے جائیں اور بیش بہا لگائے جائیں۔ -7 سیلابی پانی کے چڑھتے ہیWetting اور Loop بندوں کے ذریعے پانی کا رخ ایک طرف موڑا جائے تا کہ اس بہاؤ میں کمی آئے۔ یہ صرف چند ایک تجاویز ہیں ورنہ صرف ایک دن کی محنت سے ان تمام اقدامات کی تفصیل مرتب کی جا سکتی ہے جو ماہرین نے بار بار تجویز کیے ہیں۔

لیکن کیا کریں ان اقدامات سے فائدہ تو ان غریب دیہاتیوں کا ہو گا جن کے اسپتالوں میں دوائی نہیں‘ اسکولوں میں استاد نہیں۔ جن کی سڑکیں گزشتہ چھ سالوں میں مرمت نہیں ہو سکیں۔ جن کے جانور بیماری سے مر جاتے ہیں اور کوئی ویکسین میسر نہیں ہوتی۔ جن کے محکمہ انہار کے گوداموں میں پتھر تک موجود نہیں کہ پشتے مضبوط کر سکیں۔ ہم انھیں سیلاب میں موت پر 16 لاکھ دے کر خوش ہو جاتے ہیں اور ان تک راشن پہنچا کر تصویر بنا لیتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمیں اپنے بڑے شہر خوبصورت بنائے ہیں۔ جہاں لاہور شہرمیں آرائشی پودے لگانے کے لیے ماہرین کو تھائی لینڈ اور سنگا پور ٹریننگ کے لیے بھیجا جائے۔

جہاں اسلام آباد جیسے شہر کو جہاں ٹریفک کوئی مسئلہ نہ ہو‘ وہاں اربوں روپے سے سڑکیں چوڑی کی جائیں‘ انڈر پاس بنائے جائیں اور اب میٹرو بس کی آمد ہو۔ جہاں اربوں روپے قومی یاد گاروں پر خرچ ہو جائے جہاں ایک سیکریٹری کے جی او آر ون کے گھر کی مرمت پر نوے لاکھ روپے تک خرچ ہوں‘ وہاں غریب بستیوں میں ایسے ہی سیلاب آتے ہیں‘ گاؤں دریا برد ہوتے ہیں‘ لوگ مرتے ہیں اور ایک اشکوں‘ آہوں اور سسکیوں کا سیلاب آتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اب لاہور میں رہنے سے ڈر لگنے لگاہے۔ وہ شہر جس کے باسی اپنی تزئین و آرائش پر خوش ہوتے ہوں‘ اتراتے پھر رہے ہوں اور انھیں اسی بات کا احساس تک نہ ہو کہ یہ سب خوبصورتی غریبوں کی موت خرید کر بنائی گئی ہے تو ایسے شہر اللہ کی ناراضگی‘ قہر اور غضب سے زیادہ دیر تک نہیں بچ سکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔