وہ بس غصے میں بھنبھناتے رہ جائیں گے

نصرت جاوید  جمعـء 12 ستمبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

مجھے ہر گز خبر نہیں کہ میرے اس کالم کے چھپنے تک اسلام آباد میں آزادی اور انقلاب کے منتظر دھرنوں کے ساتھ کیا بیت چکی یا بیت رہی ہو گی۔ ایک بات مگر چینی صدر کے دورئہ پاکستان کے بعد بتدریج عیاں ہونا شروع ہو گئی اور وہ یہ کہ وزیراعظم اپنا ستمبر کے آخری ہفتے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حوالے سے مجوزہ دورئہ امریکا ہرگز ملتوی نہیں کرنا چاہیں گے۔ دھرنوں کی بدولت سیاسی احتجاج کی رونق میں ویسے بھی اس ہفتے کے آغاز کے ساتھ نمایاں کمی آنا شروع ہو گئی۔ سیلاب کی پھیلائی تباہ کاریوں نے 24/7 چینل کو اس بات پر بھی مجبور کر دیا کہ وہ 7 بجے شام سے رات 12 بجے تک کے Prime Slots کو دھرنوں میں ہوئی تقاریر کو براہِ راست دکھانے کے لیے درمیان میں کاٹ نہ دیا کریں۔

وجہ اس فیصلے کی بنیادی طور پر معاشی ہے۔ چینلز کے یہ Slots مختلف اشیائے صرف کے اشتہاروں کی بدولت گلشن کا کاروبار چلاتے ہیں۔ ان اشتہاروں کی کثیر تعداد کے لیے کئی ماہ پہلے اوقات اور جگہیں طے کر دی جاتی ہیں۔ انھیں کئی دنوں تک یہ جگہ فراہم نہ ہو سکے تو روز مرہّ دھندے کا معمول چوپٹ ہو جاتا ہے۔ ’’خلقتِ شہر‘‘ کو ویسے بھی ہر روز کوئی نیا فسانہ سننے کی عادت ہوتی ہے اور اصل مجبوری یہ بھی ہو گئی ہے کہ قادری صاحب اور عمران خان کے دھرنوں کا ایک خاص معمول بتدریج جمود کی صورت اختیار کرنا شروع ہو گیا۔

دھرنا دیے انقلابیوں کو بالکل خبر نہیں کہ چینی صدر کے دورئہ پاکستان کے التواء نے ہماری عسکری قیادت کو سیاسی قیادت سے کہیں زیادہ ناراض اور پریشان کیا ہے۔ وجہ اس کی بنیادی طور پر یہ ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنا سب سے اہم غیر ملکی دورہ جاپان کا کیا ہے۔ جاپان کے موجودہ وزیر اعظم Abe جن کے نام کا تلفظ آبِ حیات والے آب کا ہے کئی برس پہلے سے نریندر مودی کے گرویدہ ہو چکے تھے۔

موصوف مودی ہی کی طرح ایک کٹر قوم پرست ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد وہ جاپان کے پہلے وزیر اعظم ہیں جو اپنے ملک کو ایٹم بم کا پہلا اور اب تک آخری نشانہ بننے کے بعد دُنیا کے سامنے ایک منکسر المزاج صلح جو کی صورت پیش نہیں کرنا چاہتے۔ وہ بر سر عام اس خواہش کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ جاپان کو نہ صرف اپنی معاشی قوت کو بھرپور طریقے سے ابھارنا ہو گا بلکہ اپنے ’’توسیع پسند اور جارح‘‘ ہمسایوں کو یہ پیغام بھی دینا ہو گا کہ وہ کسی فوجی جارحیت کے لیے کوئی تر نوالہ ثابت نہیں ہو گا۔ جاپان ’’جارح ہمسائے‘‘ کی اصطلاح دراصل چین کے لیے استعمال کرتا ہے۔

چین اور جاپان دو قدیم ممالک ہیں۔ دونوں ہی اپنی تہذیب و ثقافت پر بہت نازاں رہے ہیں۔ ٹھوس تاریخی تناظر میں چین مگر زمانہ قدیم میں جاپان سے کہیں زیادہ ’’تہذیب یافتہ‘‘ تسلیم کیا جاتا رہا۔ مگر اس ملک میں پھر آ گیا ’’میجی انقلاب‘‘ جس کی بدولت جاپان چین سے تقریباََ ایک سو سال پہلے صنعتی انقلاب سے روشناس ہوا۔ اس انقلاب کی بدولت جاپان نے بے پناہ معاشی وسائل کے ذریعے بھرپور فوجی قوت حاصل کر لی۔ اس قوت کی بدولت اس نے بعد ازاں چین اور کوریا پر اپنا تسلط جمانے کے بعد برما کی طرف بڑھتے ہوئے اس وقت کے انڈیا کو برطانیہ کی غلامی سے چھین کہ اپنے زیر نگین کرنا چاہا۔

اس کی یہی خواہش نے بالآخر امریکا کو جاپان پر اپنا ایٹم بم استعمال کرنے کا جواز فراہم کر دیا۔ جاپان چین کے مقابلے میں آبادی کے اعتبار سے اب بھی نسبتاََ ایک بہت کمزور ملک ہے۔ چین کی معرکتہ الآرا معاشی ترقی نے اسے مزید گہنا دیا ہے۔ جاپانی قوم پرستوں کی اب یہ شدید خواہش ہے کہ اپنے ملک کو ایک بار پھر مشرقی ایشیاء کا عالمی تناظر میں ایک اہم ترین ملک ثابت کریں۔ اس حوالے سے انھیں اتحادیوں اور حلیفوں کی شدید ضرورت ہے۔ امریکا اس کا پرانا اتحادی ہے اور اوباما کی حکومت بھی اسے اب چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کو بے چین ہے۔ بھارت اپنے جنوبی ساحلوں کی وجہ سے مشرقی ایشیاء کا ملک بھی شمار ہوتا ہے۔ تاریخی حوالوں سے تھائی لینڈ کا بدھ مت، کمبوڈیا کی اسی حوالے سے تاریخی عبادت گاہیں اور ویت نام کے کئی علاقے خود کو بھارت کے بہت قریب سمجھتے ہیں۔

مسلم اکثریت والا انڈونیشیا بھی اس کے حلقہ اثر سے جدا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ بالی کا بہت بڑا جزیرہ خالصتاََ ہندو ثقافت کا ایک جاندار نمایندہ ہے۔ بھارت اور جاپان کے درمیان گہرے اور دور رس حوالوں سے مختلف الجہتی تعلقات قائم ہو گئے تو مشرقی ایشیاء کے پورے خطے میں چین خود کو بالکل تنہاء محسوس کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ تنہائی کے اسی امکان کے تدارک کے لیے اب چینی صدر بھارت کا دورہ کریں گے۔ مودی نے اپنے دورئہ جاپان کے دوران اس ملک سے بھارت میں 34 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ اسے محض ’’اتفاق‘‘ کہنا شاید زیادتی ہو گی کہ اپنے مجوزہ دورئہ پاکستان کے دوران چینی صدر بھی تقریباََ اتنی ہی رقم تک کی سرمایہ کاری ہمارے ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے اور کاشغر کی گوادر تک معاشی راہ داری کے قیام کی خاطر تیار معاہدوں پر دستخط کے ذریعے کرنے کے وعدے کرنا چاہتے تھے۔

دیکھنا ہو گا کہ جاپان سے بھاری سرمایہ کاری کے وعدوں کے بعد بھارت اب چین سے کیا حاصل کرے گا۔ چینی صدر کے بھارت کے دورے کے فوراََ بعد وہاں کے وزیر اعظم نیویارک روانہ ہو جائیں گے۔ گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد امریکا نے مودی کو اپنے ملک کے ویزے کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔ بھارت کا وزیر اعظم منتخب ہو جانے کے بعد مگر اب یہی مودی نیویارک صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے نہیں جا رہا۔ امریکی صدر اوباما سے بھارتی وزیر اعظم کی تفصیلی ملاقات بھی طے ہو چکی ہے۔ وہ دونوں ملیں گے تو صرف پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کا ذکر ہی نہیں ہو گا۔

معاملہ افغانستان کے مستقبل کا بھی یقینا زیر بحث آئے گا۔ ایسے میں پاکستانی وزیر اعظم کی نیویارک میں عدم موجودگی ہمارے لیے محض داخلی حوالوں سے ہی نقصان دہ ثابت نہیں ہو گی۔ پوری دُنیا کو بلکہ یہ پیغام جائے گا کہ بھارت مودی کی قیادت میں جاپان، چین اور امریکا جیسے اہم ممالک کے ساتھ باہمی اور عالمی معاملات تیزی اور اعتماد کے ساتھ طے کر رہا ہے جب کہ پاکستان اور اس کا وزیر اعظم اسلام آباد میں دیے دھرنوں کی وجہ سے غیر مستحکم اور عالمی برادری سے علیحدہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ نواز شریف کی ذات اور سیاست کے بدترین دشمن خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبے یا ادارے سے ہو ہر گز یہ تاثر نہیں پھیلانا چاہیں گے۔ عمران خان اور ڈاکٹر قادری کا معاملہ کچھ اور ہے اور میری ناقص رائے میں وہ بس غصے میں بھنبھناتے رہ جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔