دفتر خارجہ کی بریفنگ

ایڈیٹوریل  ہفتہ 13 ستمبر 2014
اس وقت سیاچن کے علاقے میں پاکستان اور بھارتی فوجیں بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔  فوٹو: فائل

اس وقت سیاچن کے علاقے میں پاکستان اور بھارتی فوجیں بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ فوٹو: فائل

دفترخارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ چینی صدر کا دورہ منسوخ نہیں بلکہ موخر ہوا ہے، نئی تاریخ کا جلد اعلان کر دیا جائے گا۔ اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے باعث چین کے صدر کا دورہ پاکستان منسوخ ہونے پر بعض حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ اس دورے کو منسوخ ہونا پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے، چینی صدر پاکستان بہت بڑے منصوبوں پر معاہدے کرنے آ رہے تھے۔

اس تشویش کو ختم کرنے کے لیے دفتر خارجہ کی ترجمان کو وضاحت کرنا پڑی کہ چینی صدر کا دورہ منسوخ نہیں بلکہ موخر ہوا۔ دوسری جانب پاکستان میں ہونے والے سیلاب کے باعث بہت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہے۔ ہزاروں دیہات زیر آب آنے سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہونے سے معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ترجمان کے مطابق گزشتہ دنوں بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان میں حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں پر وزیر اعظم نواز شریف کو خط لکھا جس میں تعاون کی پیشکش کی گئی تھی جس پر وزیر اعظم نواز شریف نے جواباً خط لکھا اور ان سے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے نقصانات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں، ماحولیاتی مسائل بالخصوص گلیشیئرز کو پگھلنے سے بچانے  کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان رابطوں اور تعاون کے حوالے سے تجاویز دیں۔

اس وقت سیاچن کے علاقے میں پاکستان اور بھارتی فوجیں بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ بھارت یہاں فوجی تنصیبات قائم کر رہا ہے فوجی نقل و حرکت کے باعث اس علاقے میں بڑی تیزی سے گلیشیئرز پگھلنے سے ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے اس حوالے سے بھارتی وزیر اعظم کو خط لکھ کر درست  جانب قدم اٹھایا ہے۔ اس مسئلے پر فوری طور پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے اگر اس کا فوری کوئی حل نہ نکالا گیا تو آنے والے برسوں میں مزید گلیشیئرز پگھلنے سے سیلابی صورت حال پہلے سے بھی زیادہ خوفناک ہو سکتی ہے۔ پوری دنیا میں بڑی تیزی سے رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک تو ان مسائل سے نمٹنے کے لیے جدید سطح پر منصوبہ بندی کر رہے اور ترقی پذیر ممالک کو بھی آنے والے خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں۔ سیلاب نے پاکستان  کی ترقی کو شدید متاثر کیا ہے اگر سیلابی صورت حال پر قابو پانے کے لیے کوئی لائحہ عمل طے نہ کیا گیا تو اس خطے میں ہونے والی ترقی سے وہ خاطر خواہ فوائد سمیٹے نہیں جا سکیں گے جس کی امید کی جا رہی ہے۔

اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو بھی سیاچن کے تنازع کو حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ بھارتی حکمرانوں کو بھی اس امر کا احساس کرنا ہو گا کہ  جنگی جنون اس خطے کی ترقی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا، خاص طور پر گلیشیئر پگھلنے سے جو ماحولیاتی تبدیلیاں آ رہی ہیں وہ آنے والے برسوں میں بہت بڑے خطرات کا پیش خیمہ ہیں، پاکستان اور بھارت کی حکومت کو ان معاملات پر ابھی سے منصوبہ بندی کرنا چاہیے، باہمی تعاون میں جتنا لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہے گا ان ممالک کو اتنے ہی زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا ہو گا۔ اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے بارے میں بعض حلقوں کی جانب سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس سے ڈپلومیٹک انکلیو اور غیر ملکی سفارتکاروں کی سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جس پر ترجمان دفتر خارجہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈپلومیٹک انکلیو کے اندر یا آس پاس کوئی مظاہرہ نہیں ہوا، غیر ملکی سفارتکاروں کا تحفظ ہماری ذمے داری ہے اور اس کو بڑی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔

غیر ملکی سفارتکاروں کی حفاظت کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے اور اس میں ہونے والی معمولی سی کوتاہی بھی پوری دنیا میں بدنامی کا باعث بنتی ہے۔ پاکستانی حکومت کو بھی اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے اور وہ غیر ملکی سفارتکاروں کی حفاظت کے لیے اپنے فرائض پوری ذمے داری سے سر انجام دے رہی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے ایرانی میڈیا کی طرف سے داعش میں شمولیت کے لیے جانے والے ایک پاکستانی کی گرفتاری کی خبر پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سفارتخانے نے مزید معلومات کے حصول کے لیے ایرانی وزارت خارجہ کے ساتھ رابطہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق عراق میں مصروف شدت پسند تنظیم داعش پوری دنیا خاص طور پر اسلامی ممالک میں اپنا حلقہ وسیع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

عراق، ایران اور بہت سے عرب ممالک داعش کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے چکے ہیں اور امریکا نے بھی اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ عراق میں جنم لینے والی خانہ جنگی بھی امریکی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا نے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت عراق کی صورت حال کو خراب کر رکھا ہے اور وہ یہاں امن و امان کا قیام نہیں چاہتا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکا نے مسلم ممالک میں افراتفری پھیلانے کے لیے براہ راست کارروائی کرنے کے بجائے نئی حکمت عملی اپنائی ہے اور وہ داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کے ذریعے مسلم ممالک میں امن و امان کی صورت حال خراب کر رہا ہے۔

عراق، شام، لیبیا اور یمن کی بگڑتی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے جاری دہشت گردی نے پاکستان کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے اور پاکستانی فورسز دہشت گردی سے نبرد آزما ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اور دہشت گردی سمیت پاکستان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تا کہ ملک میں ترقی کا عمل تیزی سے آگے بڑھ سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔