ناکامیاب شب خون

جاوید قاضی  ہفتہ 13 ستمبر 2014
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

موجودہ سیاسی بحران سے بہت حد تک پہلی مرتبہ یہ واضح ہوگیا کہ پاکستان میں جمہوریت اب نومولود بچے کی طرح نہیں، نہ صرف یہ کہ اب یہ لڑکھڑانے سے بھی بڑی ہوگئی ہے بلکہ اب تو یہ عالم ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑی بھی ہوسکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی اسے ایک طویل سفر طے کرنا ہوگا جب اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہوگا کہ اب یہ مضبوط جمہوریت ہے۔

شاید یہ پہلا شب خوں تھا اپنے خدوخال میں جو حقیقت کا روپ نہ پا سکا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے سول حکومت کی رٹ کو اچھا خاصا جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ اب یہ کیا تھا کیا نہیں تھا اس پر مختلف رائے ہوسکتی ہیں مگر مستند رائے یہی ہے کہ 1977 میں بھی قومی اتحاد اتنا کسی کے اشارے پر نہیں چل رہا تھا جتنا اب کے بار شاہرائے دستور پر دھرنا لگانے والوں کے بارے میں مجموعی رائے بنی ہوئی ہے۔ کلدیپ نیئر لکھتے ہیں ہندوستان میں بھی سرگوشیاں اٹھی تھیں جب چار جنرلوں نے اندرا گاندھی کی لگائی ہوئی ایمرجنسی کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا تھا۔ تو اندرا گاندھی کو بھی اپنے فوجی سربراہ سے پوچھنا پڑ گیا تھا۔

غرض یہ کہ جب بھی ایسے بحران ابھرتے ہیں تو جہاں جمہوریتیں ابھی جڑیں نہیں پکڑ سکی ہوتی ہیں وہاں پھر تیسری قوت ایسے بحرانوں کو اپنے مفاد میں تبدیل کرتی ہے۔ ورنہ مضبوط جمہوریت کے اندرکتنا بھی بڑا بحران کیوں نہ ہو، نہ تجزیہ نگار ’’ کو‘‘ کے ہونے کے گماں کو پرکھتے ہیں نہ چند جرنیل بیٹھ کر سرگوشیوں میں ایسے باتیں کیا کرتے ہیں ۔ غور سے دیکھا جائے تو شاہراہ دستور پر گزشتہ 29 دنوں سے جاری دھرنے نے کوئی ایسی طاقت نہیں دکھائی جس سے حکومت ہل جائے اور نہ دوسرے شہروں میں اس دھرنے کے تسلسل میں کچھ ہوا ہے لیکن حکومت سے لے کر ہر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی چھپے ہوئے ہاتھ ہیں۔ اور یہی بات ہر ٹاک شو میں زیربحث بھی ہے۔

بدنصیبی سے ہمارے ہاں مدعی سست گواہ چست والا ماجرا ہے ۔ شب خوں لانے والوں کو شب خوں لانے کی اتنی فکر نہیں جتنی ہم نواؤں کو ہے۔ شب خوں لانے والوں کو بہت سی حقیقتوں کا ادراک کرنا پڑ جاتا ہے لیکن ہم نواؤں کے لیے یہ تماشا ہوتا ہے ۔ اس لیے آج کل ہم نوا بڑے پریشان نظر آرہے ہیں۔ بہرحال جو بھی ہو عمران خان ایک پاپولر لیڈر ہیں ۔ ان کا بندگلی میں پھنسنا کوئی اچھا شگون نہیں۔

ماضی میں 58(2)(b) ہو یا شب خوں ہو، اپوزیشن ہمیشہ حکومت کے خلاف رہتی تھی اور شب خون کی کامیابی کی یا 58(2)(b) کے نافذ ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہوا کرتی تھی ۔ اس مرتبہ سوائے عمران خان کی پارٹی کے باقی ساری پارلیمانی پارٹیاں متحد ہوکے ایک ساتھ کھڑی ہیں ۔ زرداری نے بہت سے اچھے برے فیصلے کیے ہوں گے مگر اس حوالے سے سب دائیں بائیں کے فرق مٹا کے تمام سیاستدان ایک ساتھ کھڑے ہوگئے۔ اور اس میں زرداری کے پارلیمنٹ کے ساتھ ایک آواز کھڑے ہونے سے بھی شب خون حرکت میں نہ آسکا۔ خود امریکا نے بھی اس حوالے سے ایک واضح پوزیشن لے رکھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ اگر شب خوں آیا تو پاکستان پر معاشی پابندیاں لگانا ان کی قانونی ضرورت ہوگی۔

سیاست بڑی بصیرت والا شیوا ہے۔ ایک طرف تاریخ کا گہرا مطالعہ مانگتی ہے تو دوسری طرف اردگرد کے حالات و واقعات پرگہری نگاہ۔ یہی فرق ہے جو ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان میں ہے ۔ خان صاحب کی سیاسی بصیرت کرکٹ گراؤنڈ تک محدود رہی ۔ وہ فاسٹ وکٹیں لینے کے چکر میں پڑ گئے۔ وہ نیوٹرل امپائر کی بات تو کرتے ہیں لیکن نیوٹرل امپائر حقیقی طور پر یقین نہیں کرتے۔ صاف صاف دکھائی دیتا ہے۔ وہ شاہراہ دستور پر اب حکومت کو تب ہی جھکا سکتے ہیں جب تیسری قوت مداخلت کرے گی۔ ورنہ ان کا دھرنا پورے پاکستان کی عوام کی نمایندگی نہیں کرتا۔

بہرحال جہاں تک ان کی الیکشن کے سرشتے کے اندر اصلاحات و شفافیت کی بات ہے وہ اپنے جوہر میں انتہائی معنی خیز بات ہے، سول حکومتوں کے اوپر شب خوں خود اس لیے بھی پڑتا ہے کہ وہ دھاندلی کی وجہ سے بھی برسر اقتدار آئیں۔ اس لیے شفاف سسٹم کے تحت چناؤ خود سول حکومت کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

جس طرح منیر نیازی فرماتے ہیں، ’’کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن، کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘ کہا جا رہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کا طرز حکومت شاہانہ ہے، اس پر ایک خاندان کا غلبہ ہے، اور دوسری طرف سول حکومتیں بلدیاتی انتخابات کے لیے غیر سنجیدہ رہی ہیں ۔ یعنی سول حکومتیں خود نیم آمریتیں ہیں لیکن ان نیم آمریتوں سے لڑنے کا طریقہ اور انھیں جمہوریت کو نچلی سطح تک پہنچانے پر مجبور کرنے کا طریقہ جمہوری ہے نہ کہ غیر جمہوری۔

عمران خان کو شدید دھچکا اس وقت پہنچا جب ان کو جاوید ہاشمی نے بالآخر خیرباد کہہ دیا ۔ ٹھیک اس وقت جاوید ہاشمی نے ان کو چھوڑا جب خان صاحب نے شاہراہ دستور سے بھی آگے بڑھ کر ایوانوں کا رخ کیا۔ خان صاحب کا یہ قدم ملک کو انارکی کی طرف دھکیلنے کے برابر تھا یا پھر واضح طور پر تیسری قوت کی مداخلت کے لیے راستے کھولنا تھا۔اب تو میڈیا اس دھرنے کو بہت زیادہ کوریج دینے سے بھی اکتا گیا کیوں کہ ملک میں سیلاب آیا ہوا ہے۔ لوگ گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

دوسری طرف میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ حکومت نے غیر محسوس طور پر مشرف پر ٹرائل نہ چلانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی میں بھی اپنی مرضی نہیں چلائیں گے ۔ اس سے سول ملٹری تعلقات میں ایک توازن دوبارہ بنتا ہوا نظر آرہا ہے یا پھر یہ کہ اسٹیبلشمنٹ اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی، باقی جو مہرے تھے ان کا کیا، وہ اسی تنخواہ پر بھی کام کرنے پر راضی ہوجائیں گے۔

لیکن اگر طویل مدت کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک لحاظ سے سول ادوار کے لیے بہتر ہوا ہے ۔ یعنی ’’شب خوں‘‘ اب تاریخ ہوئے ۔ خود اس سے جمہوری سسٹم کو تقویت ملتی ہے یعنی پھر ٹکراؤ جمہوری و غیر جمہوری قوتوں سے تبدیل ہوکر، جمہوری قوتوں کے بیچ نظریاتی انداز میں صف بندی کرلیتا ہے۔

اس وقت چونکہ ٹکراؤ جمہوری و غیر جمہوری قوتوں کے بیچ ہے، جس میں سیکولر ادھر بھی ہیں ادھر بھی، دائیں بازو بھی تو مذہبی تنگ نظر بھی ۔ اس لیے اس وقت صف بندی کچھ اور طرح کی ہے ۔ خیر اس صف بندی کو گہرا دھچکا لگا ہے اور خود اس سے پاکستان کے لیے ایک راستہ نکلتا ہے ۔ وہ راستہ یہی ہے کہ اس ملک میں صرف اور صرف اب جمہوری طریقے سے تبدیلی آئے گی ۔ابھی کل ہی کی بات تھی، جب بھی 58(2)(b) یا شب خوں کسی کے خلاف استعمال ہوا تو دوسرا تالیاں بجاتا تھا۔ لیکن اب واقعی چارٹر آف ڈیموکریسی سیاستدانوں کے لاشعور میں بیٹھ گیا ہے۔

مجھے اب بھی عمران خان کا مستقبل اس ملک کی سیاست میں روشن دکھائی دیتا ہے شرط یہ ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی تبدیل کریں ، کیونکہ ان کے ووٹر میں کثرت (Growth) ہے۔وہ پھل پھول رہے ہیں جب کہ طاہر القادری وغیرہ کا ووٹ بینک جوں کا توں رہے گا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر Legal Order سیاسی نظام سے طاقت لیتا ہے۔ لیکن کورٹس نے اس سارے ٹکراؤ کو مجموعی طور پر سیاسی ٹکراؤ کی صورت میں دیکھا۔ حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ پاکستان بحیثیت سوسائٹی ایک چھلانگ لگا کے آگے کی طرف نکل آیا ہے۔ اس کے باوجود بھی کہ یہاں تنگ نظری، عدم رواداری اور مذہبی انتہا پرستی بڑھی ہے۔ مگر جمہوری طریقے پر اعتبار اب اربن پاکستان میں بھی گہرا ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے شب خوں کو ہمیشہ اربن سپورٹ ملتی رہی ہے جوکہ اب اس مقدار میں نہیں رہی۔

مختصر یہ کہ اس سسٹم پر جو بحران آیا تھا وہ ٹل گیا لیکن جہاں تک موجودہ حکمرانوں کا تعلق ہے انھیں بحرانوں کو مہمان بنانے کی ایک پرانی عادت ہے، دیکھتے ہیں وہ 2015 میں کیا کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ حکمرانوں کو اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا ۔ کیونکہ جمہوریت کا پودا ایک رات میں بڑا نہیں ہوتا بلکہ اس کی دہائیوں تک پرورش کرنا پڑتی ہے اسے آندھی و طوفانوں سے بچانا پڑتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔