سیلاب اور کاشتکار

ایم آئی خلیل  ہفتہ 13 ستمبر 2014

حالیہ سیلاب کے باعث سب سے زیادہ کاشتکار بھائیوں کا مالی نقصان ہوا ہے۔ کیوں کہ کھڑی فصلیں تباہ ہوکر رہ گئی ہیں۔ جس کے باعث چاول اورکپاس سمیت کئی فصلوں کو شدید نقصان پہنچنے کے باعث کاشتکار،کسان، ہاری مالی طور پر سب سے زیادہ نقصان میں رہے ہیں جس کے باعث رواں مالی سال کے دوران چاول کی برآمدات اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد بہت زیادہ متاثر ہوں گی۔

پنجاب کے وہ تمام اضلاع جو کہ باسمتی چاول کی پیداوار میں دنیا بھر میں مشہور و معروف تھے آج کل شدید سیلاب کے باعث چاول کے کھیتوں کو نقصان پہنچنے کے سبب علاقے کے کاشتکار اب مالی بدحالی کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ پاکستان دنیا کو چاول کی برآمد کرنے والا نمایاں ممالک میں سے ایک ہے۔

جولائی تا مئی 2014 کے دوران 6 لاکھ 13 ہزار ٹن باسمتی چاول برآمد کیا گیا جب کہ دیگر ورائٹی کی چاول تقریباً29 لاکھ ٹن برآمد کی گئی تھی، عالمی منڈی میں باسمتی چاول کی قیمت میں اضافہ ہورہا تھا، مثلاً 2013 کے دوران باسمتی چاول کی اوسط فروخت فی کلو 95 روپے تھی جب کہ 2013-14 میں بڑھ کر 118 روپے اوسط فی کلو حاصل ہورہی تھی جولائی 2013 تا مئی 2014 کے دوران باسمتی چاول کی برآمد سے 72 ارب 23 کروڑ روپے کی آمدن ہوئی ہے مگر حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث کاشتکاروں کو باسمتی چاول کی پیداوار میں بہت زیادہ نقصان ہوچکا ہے۔

ماہرین موسمیات پاکستان کو اس بارے میں بار بار آگاہ کرتے رہے ہیں کہ دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان بھی شدید متاثر ہوگا۔ لہٰذا موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والے تغیرات سے جو نقصانات متوقع ہیں ان سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات کر لیے جائیں۔ 2010 میں آنے والے شدید سیلاب سے پنجاب کا 80 فی صد علاقہ شدید متاثر ہوا تھا اس کے بعد اس کے بارے میں کئی رپورٹیں منظر عام پر آئیں، بارش اور ہندوستان کی طرف سے چھوڑے جانے والے پانی کے ریلے کے نقصانات سے بچنے کے لیے بہت سی تجاویز مرتب کی گئیں لیکن ملک میں کچھ اس قسم کی رسم چلی ہے کہ جب سیلاب اور اس سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور جب حالات معمول پر آنے لگتے ہیں تو اس کے بعد پھر کسی کو یہ احساس نہیں رہتا کہ آیندہ کے لیے اس قسم کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ابھی سے مکمل انتظامات کرلیے جائیں اور پھر وقت گزرتا چلا جاتا ہے کہ قدرتی آفات ایک دفعہ پھر مزید ہولناکیوں کے ساتھ سر پر آکھڑی ہوتی ہے۔

پھر وہ رپورٹیں بھی یاد کی جاتی ہیں ان تجاویز کا بھی بار بار تذکرہ کیا جاتا ہے کہ لیکن جیسے ہی مصیبت کی گھڑی ختم ہوجائے گی وقت گزر جائے گا تمام احتیاطی تدابیر اور حفاظتی اقدامات والی باتیں ہوا میں تحلیل ہوجائیں گی۔ دنیا کے بہت سے ممالک عالمی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہے ہیں لیکن وہاں ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کو زائل کرنے کے لیے فوری اقدامات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ ناگہانی قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے ادارے منظم کیے جارہے ہیں۔

ہمارے ملک میں ہر ناگہانی اور قدرتی آفات کے وقت فوج واحد ادارہ ہے جوکہ بڑی سرعت کے ساتھ حرکت میں آتی ہے اور لاکھوں، کروڑوں افراد کے دکھ درد کی دوا بن جاتی ہے، لاکھوں متاثرین کو اس وقت جو کہ سیلاب میں گھرچکے ہیں ان کو محفوظ مقامات پر فوج ہی پہنچا رہی ہے۔ جب کہ حکومت کے بعض ادارے جوکہ ریسکیو کے نام سے یا دیگر ادارے جو تشکیل دے رکھے ہیں وہ تساہل سے کام لیتے ہیں ان کا عملہ جوکہ تنخواہیں وصول کرتا ہے لیکن بوقت ضرورت اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ ہمارے پاس تربیت یافتہ کارکن نہیں ہے وسائل نہیں ہیں لہٰذا مصیبت کی ہر گھڑی میں فوج کا فوری مدد کے لیے آنے پر یہ ادارہ خراج تحسین کا مستحق ہے۔

حالیہ سیلاب کے باعث وہ تمام اضلاع جوکہ چاول کی پیداوار کے لیے مشہور تھے شدید متاثر ہوئے ہیں، چاول کی برآمدات سے ملک کو کثیر زر مبادلہ حاصل ہوتا تھا، ہماری کل پرائمری کموڈٹیز جوکہ تقریباً 4 کھرب روپے کی برآمدات پر مشتمل ہے جس میں سے سوا دو تا ڈھائی کھرب روپے کی چاول کی برآمدات ہوئی ہیں جوکہ کل پرائمری کموڈٹیز کا نصف سے کہیں زیادہ ہے اس کے علاوہ خام کپاس کی برآمدات ہر سال 20تا 25 ارب روپے کی ہوتی ہیں، کپاس کے ذریعے بہت سی مصنوعات تیار کرکے بیرون ملک روانہ کیا جاتا ہے، ملک کی کل برآمدات میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حصہ 52 تا 55 فی صد ہے۔

مثلاً جولائی تا مئی 2014 کے دوران کل ٹیکسٹائل برآمدات کا حجم 12 کھرب 32 ارب روپے کی تھیں، جس میں سے کاٹن فیبرک کا حصہ 2 کھرب 66 ارب روپے کا تھا اس کے بعد کاٹن یارن کی برآمدات کا حصہ ایک کھرب 92 ارب 34 کروڑ روپے کا تھا۔ اور نیٹ وئیر کی برآمدات کا حجم 2 کھرب 15 ارب 47 کروڑ روپے۔ ایپریل اور کلاتھنگ کا حجم ایک کھرب 77 ارب روپے نوٹ کیا گیا۔2 کھرب 2 ارب کی برآمد کی گئیں۔ ایک دفعہ پھر واضح ہو کہ یہ اعداد و شمار جولائی 2013 تا مئی 2014 کے ہیں۔ کاٹن فیبرک کی برآمدات گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کی نسبت 18 فی صد زائد برآمد کی گئیں اسی طرح چاول کی برآمد میں بھی گزشتہ مالی سال 2012-13 کی نسبت 22 فی صد زائد ایکسپورٹ کی گئیں، ایک لاکھ 14 ہزار ٹن خام کپاس اسی دوران برآمد کی گئی۔

ان تمام اعداد و شمار کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ حالیہ سیلاب کے دوران زراعت اور ٹیکسٹائل صنعت نیز معیشت کا کس حد تک ناقابل برداشت نقصان ہوسکتا ہے اور آیندہ چند ماہ کے بعد اس کے کتنے ہی شدید اور مہیب نقصانات معیشت پر مرتب ہوں گے اس کے ساتھ ان علاقوں کے مکینوں، کاشتکاروں، عام افراد، گاؤں، دیہات جوکہ زیر آب آچکے ہیں کچے گھر جو زمین بوس ہوگئے ہیں، سیکڑوں گاؤں، دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں، اب ان کروڑوں افراد کے دکھوں کا مداوا کیسے ہوگا، ا ب ان علاقوں کے کسان، ہاری جن کی آمدن کے ذرایع اجڑ گئے ہیں جن کے کھیت کھلیان سیلاب میں بہہ گئے ہیں ان کا نقصان کیسے پورا ہوگا۔

نیز اب تک سیکڑوں افراد کی جانیں ضایع ہوگئی ہیں، ہزاروں مویشی پانی کی نذر ہوچکے ہیں، لاکھوں افراد کا مال و اسباب سیلابی پانی اپنے ساتھ بہاکر لے گیا ہے وہ دھقان، وہ ہاری، وہ کاشتکار جوکہ ملک کو غلہ فراہم کرتا تھا اب اس کے گھر کھانے کے لیے ایک دانہ گندم بھی نہ بچا، مٹھی بھر چاول بھی اب پاس نہیں ہے، اس کے شب و روز کیسے گزریں گے۔

حکومتی بیانات، تسلیاں اور حالات بہتر کرنے، امداد کے دعوے سب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، جب زمینی حقائق یہ بیان کر رہے ہوتے ہیں کہ بھوکے افراد کو کئی دن سے کھانا نہ مل سکا، بے یار و مددگار تپتی دھوپ میں کھلے آسمان کے شب و روز بسر کرنے پر مجبور ہیں حالات اس وقت انتہائی سنگین ہوجاتے ہیں جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں افراد موجود ہیں اور چاروں طرف پانی کا ریلا بڑھتا چلا جارہا ہے جہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

وہاں سے بھی زمین سرکنے والی ہے اور حکومتی امداد کا دور دور تک پتہ نہیں ہے اس وقت حکومت اور تمام متعلقہ اداروں کو ہر ممکن طریقے سے فعال ہونے کی ضرورت ہے اور ہر وہ جگہ جہاں متاثرین موجود ہیں ان کی ہر ممکن امداد کے لیے کوئی تاخیر نہ کی جائے سیلاب گزرنے کے بعد کاشتکار بھائی جن کی فصلیں تباہ ہوگئیں ان کی بھرپور مدد کی جائے تاکہ جلد ہی وہ اپنی زمینوں کو دوبارہ آباد کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔